سوشل میڈیا اور سیاسی کارکن

جمعہ 30 اپریل 2021

Saif Awan

سیف اعوان

جیسے جیسے قوم میں شعور پیدا ہورہا ہے ساتھ ہی بد تہذہبی،ناشائستہ گفتگو،نامناسب الفاظ کا استعمال اور ذاتیات پر حملے پسندیدہ مشغلہ بن گئے ہیں۔ان سب کا زیادہ استعمال سوشل میڈیا پر بہت تیزی کے ساتھ عام ہورہا ہے۔ان حملوں سے سیاسی و غیر سیاسی خواتین تک محفوظ نہیں ہیں۔کچھ سوشل میڈیا یوزر نے خاتون اول بشریٰ بیگم ،مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز ،وفاقی وزیر زرتاج گل،مسلم لیگ (ن) کی سینئر رہنما عظمیٰ زاہد بخاری،حناپرویز بٹ اورخاتون صحافی عاصمہ شیزاری سمیت کئی نامور خواتین صحافیوں کو اپنا پہلا ہدف سمجھ لیا ہے ۔

یہ ان سب سوشل میڈیایوزر کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہے۔ سیاسی کارکنوں کی اکثریت بغیر کسی ذاتی مفاد یا ایجنڈے کے ان شخصیات کو ہدف تنقید پر رکھتی ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ ان کے ساتھ وزیراعظم عمران خان ،سابق وزیراعظم میاں نواز شریف،سابق صدر آصف زرداری ،آرمی چیف جنرل قمر جاوید ،ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید ،چیف جسٹس آف پاکستان ،چیئر مین نیب جاوید اقبال،ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر اہم اداروں کے سربراہان کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔

اکثر سیاسی جماعتوں کے کارکن ان شخصیات پر تنقید کرنا باعث ثواب اور اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔جوکہ ان سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کیلئے لمحہ فکر ہے۔ہر سیاسی و مذہبی جماعت نے اب اپنے باقاعدہ سوشل میڈیا ونگ بنارکھے ہیں ۔جن کے سربراہان کو باقاعدہ روزانہ کی بنیاد پر ہدایات دی جاتی ہے کہ آپ نے آج یہ ٹرینڈ چلانا اور فلاں شخصیت کی تذلیل کرنی ہے۔

پھر ان سیاسی کارکنوں سے نہ کوئی خاتون محفوظ ہے ،نہ کوئی جج،نہ کوئی بیوروکریٹ ،نہ کوئی جنرل اور نہ کوئی ریاستی ادارے کا سربراہ محفوظ ہے۔یہ ہماری سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ نوجوانوں کی کیا تربیت کررہی ہے۔کیا یہ تنقید کا طریقہ درست ہے ؟
سیاسی کارکنوں کو اپنے طریقہ کار پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔مسلم لیگ (ن) کے ایک متحرک کارکن طاہر مغل کو چند روز قبل ایف آئی اے نے خاتون اول بشریٰ بیگم کے متعلق ایک ٹرینڈ کا حصہ بننے پر طلبی کا نوٹس جاری کیا ۔

اب مجھے یاد نہیں خاتون اول کے متعلق کیا ٹرینڈ چلایا گیا تھا لیکن طاہر مغل نے اس ٹرینڈ کی مذمت کی اور ساتھ وہ ٹرینڈ بھی ٹیگ کردیا ۔جس کی بناء پر ایف آئی اے نے ان کو طلب کیا۔طاہر مغل کے بقول ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم نے ان پر بہمانہ تشدد بھی کیا اور ان کا موبائل بھی اپنے پاس رکھ لیا ۔اسی موبائل میں طاہر مغل کاٹویٹر اکاونٹ بھی تھا جس کے ان کے تقریبا پونے دو لاکھ کے قریب فالورز بھی تھے ۔

ایف آئی اے کا کسی سیاسی کارکن پر تشدد ناقابل برداشت ہے ۔ڈی جی ایف آئی اے کو اس کا نوٹس لینا چاہیے ۔طاہر مغل کو اس کا موبائل واپس کرنا چاہیے ۔طاہر مغل سمیت تمام سیاسی کارکنوں کو بھی اپنے طریقہ کار پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔لاہور سے راولپنڈی کا کرایہ تقریبا اٹھارہ سو روپے کے قریب ہے اور جب ایف آئی اے کسی لاہور یا کراچی کے کارکن کو طلبی کا نوٹس جاری کرتا ہے ۔

ایف آئی اے میں پیش ہونے پر اس کے تقریبا پانچ ہزار کے قریب پیسے خرچ ہوتے ہیں ۔جو تمام پیسے وہ کارکن اپنی جیب سے ادا کرتا ہے ۔”ایف آئی اے نے اگر کسی کارکن کو طلب ہی کرنا ہے تو متعلقہ ڈویژنل دفتر میں ہی پیش ہونے کا نوٹس جاری کرے۔“جس سیاسی جماعت کے ایجنڈے کے تکمیل کیلئے وہ ناشائستہ اور غیر مناسب ٹویٹس کررہا ہے بعد میں وہی سیاسی جماعت اپنے اس کارکن کو نہ قبول کرتی ہے اور نہ کوئی معاونت کرتی ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک بات ذہن نشین رکھیں ۔ہر سیاسی کارکن کی قسمت ثانیہ عاشق ،کرشنا کوہلی اور فیصل جاوید جیسی نہیں ہوتی۔ثانیہ عاشق جو سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی نا اہلی کے بعد مریم نواز کی ان کے جلسوں پر ویڈیو اور تصویریں بناتی تھی وہ آج ایم پی اے بن گئی ہے۔اسی طرح فیصل جاوید جو 2011سے وزیراعظم عمران خان کے جلسوں پر کارکنوں کا لہو گرمانے کیلئے شعرو شاعری اور ڈائیلاگ ”نقابت“کرتے رہے وہ آج سینیٹر بن گئے ہیں ۔

پیپلزپارٹی کی سینیٹر کرشناکوہلی بھی پی پی کی ایک ورکرز تھیں پھر ان کی قسمت جاگی اور ایوان بالا کی رکن بن گئی۔یہ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے تین لوگوں کی کہانی ہے۔آج لاکھوں سیاسی کارکن اسی جدوجہد میں لگے ہیں کہ وہ بھی کل کو شاید اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے۔لیکن جو طریقہ کار ان کارکنوں کی جانب سے اختیار کیا جا رہا ہے وہ کسی صورت ان کو اسمبلی میں نہیں پہنچاسکتا۔

سوشل میڈیا پر بیشتر سیاسی کارکن بے لوث اپنی اپنی جماعت کی لیڈرشپ سے والہانہ محبت میں دوسری سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ اور اداروں کے سربراہان پر کیچڑ اچھالنے میں لگے ہیں ۔میری تمام ایسے کارکنوں سے درخواست ہے کہ اپنی تعلیم اور شعور کے مطابق راستہ اختیار کریں ۔آپ کے والدین آپ کی تعلیم سمیت دیگر اخراجات اس لیے برادشت نہیں کرتے کہ آپ اس تعلیم کا غلط استعمال کریں ۔

سیاسی کارکن کسی خاتون سیاستدان اور شخصیت کو تنقید کا نشانہ بناکر اپنے لیڈران کو خوش کرنے کی بجائے اپنے والدین کو خوش کرنے کی کوشش کریں تاکہ آپ لوگوں کی دنیا اور آخرت میں سکون کا باعث بننے۔تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کو درست تربیت کریں تاکہ کل کو آپ کو بھی اپنے کارکنوں کی ایسی حرکتوں کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :