ایسٹ انڈیا کمپنی ۔قسط نمبر1

ہفتہ 22 مئی 2021

Saif Awan

سیف اعوان

آج سے تقریبا 420سال قبل برطانیہ پر ملکہ الزبتھ اول کا راج تھا۔ان دنوں برطانیہ خانہ جنگی کے بعد بامشکل سنبھل رہا تھا یہاں صرف تین فیصد مصنوعات تیار ہوتی تھیں۔جبکہ اس وقت برصغیر میں دنیا کی 25فیصد مصنوعات پیدا ہورہی تھیں اور برصغیر دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ان دنوں برصغیر پر مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کا راج تھا۔

ایک اندازے کے مطابق بادشاہ اکبر 13ارب ڈالر ،پاکستانی 22کھرب روپے کا مالک تھا۔اس لحاظ سے بادشاہ اکبر اس وقت دنیا کا امیر ترین بادشاہ تھا۔اس وقت دنیا کے بڑے بڑے ملک برصغیر کے ساتھ تجارت کرتے ہیں اس کیلئے تمام ممالک پہلے بادشاہ سے تجارت کیلئے اجازت نامہ لیتے تھے۔ان دنوں برطانیہ میں ایسی بہت سے چھوٹی کمپنیاں قائم ہوئی جو صرف برصغیر میں تجارت کی غرض سے بنائی گئی تھی۔

(جاری ہے)

ان میں ایسٹ انڈیا کمپنی بھی شامل تھی۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے 16دسمبر 1600کو ملکہ برطانیہ سے برصغیر میں تجارت کی اجازت مانگی۔ملکہ برطانیہ نے اس کمپنی کو برصغیر میں تجارت کی اجازت دے دی۔معاہدے کے مطابق اس کمپنی کو برصغیر میں صرف پندرہ سال تجارت کی اجازت دی گئی۔پھر یہ پندرہ سال کیسے تین صدیوں میں تبدیل ہوئے اور کس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر پر راج کیا اور لوٹ مار مچائی یہ کہانی بہت دردناک ہے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی سے پہلے برطانیہ کی ایک اور کمپنی بھی برصغیر میں مصالحہ جات کی تجارت کرنے آئی لیکن اس کو کامیابی نہ مل سکی۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی کئی سال برصغیر میں تجارت کرنے کی کوشش کی آخر کار ایسٹ انڈیا کمپنی کا جہاز کیپٹن ولیم کی قیادت میں 1608میں برصغیر پہنچا جہاں اس نے گجرات میں صورت کے علاقہ میں پڑاؤ ڈالا۔1605میں بادشاہ اکبر کا انتقال ہو گیا جب تک اکبر برصغیر کا بادشاہ رہا ہے اس نے کسی برطانیوی کمپنی کو اپنے ہاں تجارت کی اجازت نہ دی لیکن اکبر کے بعد اس کا جانشین جہانگیر برصغیر کا حکمران بنا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کو جہانگیر نے تجارت کی اجازت دی۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے شروع میں برصغیر کے ساحلی علاقوں کو ہی اپنے تجارتی مراکز بنایا ۔پہلی مرتبہ بادشاہ جہانگیر نے 1608کو ایسٹ انڈیا کمپنی کو صورت کے مقام پر تجارتی مرکز قائم کرنے کی اجازت دی پھر کچھ سال بعد بادشاہ جہانگیر نے کمپنی کو چند مزید جگہوں پر تجارتی مراکز قائم کرنے کی اجازت دے دی۔

صورت کے بعد کمپنی نے مدراس میں ایک اور تجارتی مرکز قائم کیا اس کے ساتھ وہاں ایک قلعہ بھی تیار کرلیا۔آہستہ آہستہ کمپنی نے برصغیر میں اپنے پاؤں مضبوط کرنا شروع کردیے۔کمپنی برصغیر میں چائے،نیل،پوٹاشیم اور کاٹن کی تجارت کرتی تھی۔ 1680تک کمپنی نے مدارس میں باقاعدہ اپنی ایک کالونی قائم کرلی تھی۔جبکہ 1645تک کمپنی کی کئی شہروں میں فیکٹریاں قائم ہو چکی تھیں۔

اس وقت انگریزوں کے ساتھ ساتھ برصغیر میں فرانسیسی،پرتگالی اور ولندیزی بھی تجارت کررہے تھے۔مدارس سے اسی میل دور فرانس نے بھی اپنا تجارتی مرکز قائم کرلیا تھا۔ان دنوں برطانیہ اور فرانس میں جنگ کے دوران برصغیر میں دونوں ملکوں میں تجارتی معاملات میں چپکلس شروع ہو گئی۔فرانس اور برطانیہ کے درمیان برصغیر میں بھی لڑائیاں ہونے لگی۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس افرادی قوت کم تھی لہذا اس نے بادشاہ سے اجازت لے کر برطانیہ سے مزید اسلحہ اور افرادی قوت منگوالی۔

کمپنی جیسے ہی مضبوط ہوئی انہوں نے پرتگالیوں ،ولندیزیوں اور فرانسیسیوں کا صفایا کرنا شروع کردیا اور ساحلی علاقوں پر اپنا قبضہ جمانا شروع کردیا۔کمپنی نے چنائی،ممبئی اور کلکتہ کی بندرگاہوں پر بھی قبضہ کرلیا۔کمپنی نے مضبوط ہوتے ہی مغل بادشاہ سے جنگ کا فیصلہ کرلیا۔مغلوں اور انگریزوں کے درمیان پہلی جنگ باقاعدہ 1686میں ہوئی جس کو ”جنگ چائلڈ“کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

اس وقت برصغیر میں اورنگزیب عالمگیر کی حکومت تھی۔اس کے پاس دنیا کے طاقتور ترین فوج تھی۔شاید جس کا اندازہ انگریزوں کو اس وقت نہیں ہو سکا تھا۔اس جنگ میں انگریزوں کی قیادت کمپنی کے ڈائریکٹر جوزیانہ چائلڈ نے شروع کی تھی۔اس جنگ میں انگریزوں کو عبرت ناک شکست ہوئی۔اس جنگ میں مغل فوج نے کمپنی کی فوج کو مکھیوں کی طرح مارا ۔جنگ کے بعد مغل بادشاہ عالمگیر نے کمپنی کی پانچ فیکٹریوں کو مکمل ختم کردیا۔

مغلوں سے صلح کیلئے برطانیہ نے ہر ممکنہ کوشش کی۔کچھ عرصے بعد عالمگیر بادشاہ کے دربار میں برطانیہ کے دو سفیر اس حالت میں پیش ہوئے کہ ان کے دونوں ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اوربادشاہ کے سامنے گوٹنوں کے بل لیٹے تھے۔لہذا بادشاہ نے کمپنی کو ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ جرمانہ اور جوزیانہ چائلڈ کی ملک بدری کے عوض معافی دے دی اور ان کو دوبارہ تجارت کی اجازت بھی دے دی۔جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :