کلثوم نواز کی آخری خواہش

جمعرات 9 ستمبر 2021

Saif Awan

سیف اعوان

نوازشریف کو 28جولائی 2017کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے نااہل قراردیا۔پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا بلیک لا ء ڈکشنری کی اثاثے سے متعلق تعریف پر درست انحصار کیا۔ ایک لمحے کے لیے اگر بلیک لاء ڈکشنری کی تعریف پر انحصار نہ بھی کیا جائے تو تنخواہ ہر طرح سے ان کا اثاثہ ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ پاناما لیکس کا کیس سپریم کورٹ نے ایک بار پہلے سننے سے انکار کردیا تھا۔

جماعت اسلامی کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے پاس وزیراعظم نوازشریف کی نا اہلی کی درخواست دائر کی گئی لیکن چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا یہ کیس سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا آپ متعلقہ فورم ”ایف آئی اے “سے رابطہ کریں۔دوسری بات پاناما لیکس میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز ہیں۔

(جاری ہے)

پاناما لیکس میں براہ راست وزیراعظم نوازشریف پر کوئی الزام نہیں تھااور جبکہ کیس دائر کرنے والے تمام فریق نے اپنے درخواستوں میں پاناما لیکس کی بنیاد پر وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قراردینے کی استدعا کی لیکن سپریم کورٹ نے ایک لمبے عرصے تک کیس سننے کے بعد نوازشریف کو اربوں کی جائیداد پر نہیں صرف بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل قراردے دیا۔

اس دوران نوازشریف ،مریم نوازاور ان کے داما صفدر اعوان راولپنڈی اڈیالہ جیل میں رہے۔وہاں بقول مریم نواز نوازشریف کو ہاٹ اٹیک بھی ہوا۔جس کی وجہ سے ان کو اسلام آباد کے پمز ہسپتال ہنگامی طور پر شفٹ کیا گیا۔پھر اسی دوران بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہو گیا ۔نوازشریف،مریم نواز اور صفدر اعوان پیرول پر رہا ہوتے ہیں ۔پھر کچھ عرصے بعد ان کی ضمانتیں ہوجاتی ہیں ۔

اچانک سے نیب نوازشریف پر نیا کیس بنادیتی ہے۔نوازشریف نیب لاہور کے آفس میں زیر حراست ہوتے ہیں ان کی رات دو بجے اچانک طبیعت خراب ہوتی ہے تو ان کو لاہور کے سروسز ہسپتال شفٹ کردیا جاتا ہے۔اسی رات کیپٹن صفدر کا بیان آتا ہے نیب آفس میں نوازشریف کو زہر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔نوازشریف کچھ عرصہ سروسز ہسپتال میں زیر علاج رہتے ہیں ۔پھر ڈاکٹرز اور موجودہ وزیراعظم عمران خان اپنے نمائندوں کے کہنے پر نوازشریف کو لندن علاج کیلئے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں ۔

28جولائی 2017سے 15اکتوبر 2020تک نوازشریف خود پر کنٹرول رکھتے ہیں پھر اچانک حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کے گوجرنوالہ جلسے میں مقتدر حلقوں پر ان کو نااہل قراردینے اور عمران خان کو وزیراعظم بنانے کا الزام لگادیتے ہیں ۔
میں پہلے آپکو کہانی کاپس منظر بتانا چاہتا تھا اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ چار سالوں میں مسلم لیگ(ن) کو توڑنے اور ختم کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی لیکن ہر کوشش ناکام رہی۔

مسلم لیگ (ن) آج بھی قائم ہے اور نوازشریف کا گراؤنڈ پر ووٹر اور سپوٹر جوں کا توں موجود ہے۔یہ ایک حقیقت ہے مسلم لیگ(ن) نوازشریف ہے اور نوازشریف مسلم لیگ(ن) ہے۔ اس حقیقت سے شہبازشریف اور حمزہ شہباز بھی انکار نہیں کرسکتے۔ان دونوں کے بھی معلوم ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو ووٹ صرف نوازشریف کے نام سے ملتا ہے۔اگر نوازشریف صبح اپنی جماعت شہبازشریف کے حوالے کرتے ہیں اور مریم نواز کو مستقل سائیڈ لائن کردیتے ہیں تو نہ مسلم لیگ(ن) رہے گی اور اس کا ووٹر اور سپوٹر رہے گا۔

شہبازشریف کامیاب ایڈمسٹریٹر ہو سکتے ہیں ۔شہبازشریف بہترین رابطہ کار ہوسکتے ہیں ۔شہبازشریف مشکلات سے نکلنے کے ماہر ہوسکتے ہیں لیکن شہبازشریف کبھی نوازشریف کی جگہ نہیں لے سکتے ۔اس حکومت کے تین سالوں میں اگر شہبازشریف دو بار جیل گئے تو مریم نواز بھی دو بار ہی جیل گئی ہیں ۔شہبازشریف اس وقت خودکو مسلم لیگ(ن) کے وزیراعظم کا مضبوط امیدوار سمجھ رہے ہیں ۔

دوسری جانب مریم نواز بھی پاکستان کی دوسری خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔مریم نواز بھی فی الحال نوازشریف کی طرح نااہل ہیں ۔ان کے وزیراعظم بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ نااہلی کی دیوار ہے۔پاکستان میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ۔یہاں کو رات کچھ فیصلے ہوتے ہیں اور صبح ہونے تک وہ فیصلے بدلے جاچکے ہوتے ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت مریم نواز کے ستارے لکی ہیں اور حالات و واقعات انہیں کا ساتھ دے رہے ہیں ۔یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ بیگم کلثوم نواز سے جب نوازشریف نے آخری بار ملاقات کی تھی تو انہوں نے نوازشریف سے اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا تھا کہ باؤ جی میری خواہش ہے کہ مریم نواز پاکستان کی وزیراعظم بنیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :