''شرم تم کو مگر نہیں آتی''

منگل 28 اپریل 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

الحمدللہ،نام کے مسلمانوں پر خدا کی خاص رحمت و برکت کا مہینہ ''رمضان'' اپنی رحمت نچھاور کرنے آن پہنچا۔ جونہی رمضان کا چاند نظر آتا ہے ''شیطان لعین'' کو بند کر دیا جاتا ہے۔
مگر افسوس شیطان کے جیالے کھلے رہ جاتے ہیں۔ جو منڈی کے تاجروں،غلہ منڈیوں کے مالکوں،اور عزت و آبرو لوٹنے والوں کی شکل میں ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
افسوس سد افسوس ابھی پچھلے دنوں میں رمضان شروع ہونے سے ایک دن پہلے ہمارے محلے میں ایک واقع بیتا۔

ایک شادی شدہ مرد نے پندرہ سالہ بچے کو جو رشتے میں اس مرد کا بھانجا تھا۔ حوس کا نشانہ بنا کر خود فرار ہو گیا۔
بالکل اسی طرح ایک دفعہ رمضان مبارک کے مہینے میں ایک ریپ کیس سننے کو ملا۔ یہی نہیں ایسے کئی سو کیس سننے کو ملتے ہیں۔

(جاری ہے)


اب سوچنے کی تو یہ بات ٹھہری،نارمل دنوں میں ہم جو بھی ''کالا چٹا'' کرتے ہیں اسکا سہرا شیطان لعین کے سر باندھتے ہیں۔

کہ جی ہم شیطان کے بہکاوے میں آ گئے تھے۔ اب رمضان میں جب شیطان بھی قید و بند ہے۔ تب کس نے تمہیں بہکایا؟ یوں تو اسلام کے سبھی مہینے ہی پاک ٹھہرے۔ عزت و احترام کرنے والے ٹھہرے۔ لیکن رمضان کی الگ بات ہے۔ لیکن افسوس ہم اس سب سے الگ تھلگ مہینے کو (گستاخی معاف) باقی سب سے کمتر جانتے ہیں۔
جتنی دھوکہ دہی جتنا فریب جتنی ڈنڈی ہم رمضان کے میہنے میں مارتے ہیں۔

شاید ہی کسی اور میہنے میں مارتے ہوں۔ ابھی لیموں کی مثال ہی لے لیں باقی سب چیزوں کو چھوڑ دیں۔ رمضان کی آمد ہوتے ہیں چالیس سے چار سو روپے کلو تک جا پہنچا۔
کیا یہ سر عام فریبی نہیں ؟ اگر پوچھا جائے تو یہ سادہ فریب ذہنیت یہی کہیں گے،ہم نے تو بس ایک صفر ہی بڑھائی ہے۔ اور اس صفر نے عوام کی صفر کر ڈالی۔
''کوئی تو نظر کرم ادھر بھی ہو''
کون خبر لے گا ان دھندہ خوروں کی؟ جو بھولی بھالی عوام کا خون چوس چوس کر پی رہے ہیں۔

کوئی تو ہو انھیں روکنے ٹوکنے والا۔ کوئی تو ہو انکی باگ کو ہاتھ میں لینے والا۔ کوئی تو قانون ان پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔
ابھی حال کی صورتحال پر نظر دوڑائیں،تو جہاں چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں بھپری نظر آتی ہیں۔ موت کا سایہ چار سو منڈلا رہا ہے کب کسی آ کر دبوچ لے کیا خبر۔
کم سے کم ایسے میں تو کسی کا بھلا کیئے جاؤ۔ کب تلک کھاؤ گے یہ حرام کی کمائی؟ آپکے بڑھائے ریٹس تو عوام پر ڈالر بڑھنے والے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

جوں جوں ڈالر بڑھتا ہے ہماری ملکی معیشت کم سے کم تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ بالکل ویسے ہی آپکے بڑھائے ریٹس ہماری بھولی بھالی عوام کو قرضوں کی پوٹلی سر پر اٹھانے پر محبور کیئے دیتی ہے۔ جسکا نتیجہ غریب کی غریبیت کا لیول اور نیچے چلا جاتا ہے۔
اگر ہم بات کریں اپنے لاک ڈاؤن کی یہاں تو ہم نے ڈھیٹ پن کی حد ہی کر دی۔ مجال ہے جو چند دن تو کیا چند پل ہی خود کو گھروں تک محصور رکھا ہو۔

بلکہ ہم تو یوں سمجھتے ہیں حکومت تو ہماری دشمن ٹھہری۔ آئے دن تاخیر ہی کرتی جا رہی لاک ڈاؤن میں۔ آئے دن بڑھوتری ہی ہوتی جا رہی ہے۔ سبھی ہمارے ہی کرموں اور عملوں کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم لاک ڈاؤن کو لاک ڈاؤن سمجھتے تو شاید اب تلک کورونا ختم ہو چکا ہوتا۔ مگر نہیں ہم تو ٹھہرے ماہا دانشمند۔
یہ تاخیر لاک ڈاؤن کی عدم امپلیمنٹیش کی وجہ سے ہو رہی۔ لاک ڈاؤن اسے نہیں کہتے،کہ دکانیں بند ہوں اور چہل قدمی جاری ہو۔ شٹرز بند ہوں پر اندر دکاندار گاہکوں کو سامان دے رہا ہو۔ باہر سے تو تالا ہو پر اندر سیلون والا گاہکوں کے بال کاٹ رہا ہو۔
جب تلک لاک ڈاؤن صحیح معنوں میں لاگو نہیں ہو گا۔ تب تلک لاک ڈاؤن بڑھے گا ہی کم نہیں ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :