اچھے دنوں کا آغاز

منگل 28 جولائی 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

مشکل وقت گزر گیا، اب اچھے دنوں کا آغازہوگا۔نئے پاکستان کی جدوجہد میں نظریاتی ساتھیوں کی بدولت کامیابی ملی۔ملک کو صحیح معنوں میں ریاست مدینہ بنانے کا کام جاری ہے۔ پرانے کارکنوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑا جائیگا۔وزیراعظم پاکستان عمران خان اور پارٹی عہدیدار زاہد حسین کاظمی کی ملاقات کے موقعہ یہ تسلی بخش بیان جاری ہوا۔


قارئین کرام! عید الاضحی کی آمد ہے اس لیے کوئی مایوس کن تجزیہ موزں نہیں مگر حقیقت اور حقائق سے چشم پوشی کو دانشمندی نہیں کہا جاسکتا۔اس دعااور خواہش کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں کہ تبدیلی سرکار کامیاب رہے۔اچھے دنوں کا آغاز ہو۔عمران خان ناکام رہا تو ہماری ناکامیوں کا تسلسل جاری رہے گا۔
پاکستان کا معاشی مرکز کراچی پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ اہم رہا ہے لیکن کراچی کے حوالہ سے حوصلہ افزا خبریں کم ہی دیکھنے اور سننے میں آتی ہیں۔

(جاری ہے)

ماضی میں لسانی فسادات، امن وامان کامسائل جبکہ آج حل طلب بنیادی مسائل پانی، بجلی، سیوریج، ٹرانسپورٹ، دیگر شہری سہولیات کے فقدان کی خبریں اور ان مسائل پر سیاست ہورہی ہے۔سیوریج کے ڈھکن نہ ہونے پر اس جگہ وزیراعلی سندھ کی تصاویر بناکر شہرت حاصل کرنے والے عالمگیر خان فکس اٹ این جی او سے سیاسی میدان میں آگئے۔ بزرگ سیاستدان قائم علی شاہ کی تذلیل کرکے ایک نوجوان تو سیاست میں انٹری دینے میں کامیاب رہا۔

تاہم سیوریج کے ڈھکن کا مسئلہ تاحال موجود ہے کہنے والے توکہتے ہیں کہ بعض دفعہ یہ ڈھکن چوری بھی کروائے جاتے رہے۔ کراچی کے کوڑا کرکٹ پر بھی خوب بیان بازی ہوئی۔ایم این اے علی زیدی نے
 کوڑا اٹھوانے کا اعلان کیا۔میڈیا پر بیانات کی بھرپور کوریج لیکن بس یہی تک۔۔ اس کے بعد علی زیدی منظر سے غائب۔
اچانک عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی لیکر بیانات کا نیا سلسلہ شروع، سانحہ بلدیہ ٹاون پر خاموشی۔

اب ایک دفعہ پھر علی زیدی کا کہنا ہے اہل کراچی سے وعدہ کرتا ہوں کہ اب خاموش نہیں بیٹھوں گا۔منظم تباہی کا معاملہ وزیر اعظم کے سامنے رکھوں گا۔وزیر اعظم عمران خان نے آئین کے مطابق صوبوں کوآزادی سے کام کرنے کا موقعہ دیا لیکن اس وقت کیا راستہ بچتا ہے جب صوبائی حکومت عوام کے مفادات پرہی ضرب شروع کردے۔ گویا اس سے قبل علی زیدی صرف سیاست ہی کررہے تھے اب کراچی کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔


2018ء کے الیکشن میں کراچی کیسیاسی اسٹیک ہولڈر تبدیل ہوئے۔پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی 14اور صوبائی اسمبلی کی 22سیٹیں حاصل کیں۔2013ء ایم کیو ایم نے کراچی سے 17سیٹیں جیتی تھیں۔ جماعت اسلامی، ایم کیو ایم کراچی کی نظامت پر فائز رہی۔ایم کیوایم پرویز مشرف کے ساتھ شریک اقتدار اور پی پی پی کے ساتھ بھی اتحادی رہے۔ اب وہ پی ٹی آئی کے ساتھ اقتدار میں ہیں۔

تمام مسائل کی ذمہ داری صرف پی پی پی پر عائد کرنا کیا کراچی کے ساتھ انصاف ہے۔سیاست کی حد تک تو موقعہ پرستی ہماری سیاسی روایت کا حصہ ہے مگر جب کراچی سے محبت کا دعوی کیا جائے اور اچھے دنوں کے آغاز کی امید دلوائی جائے تو پھر سیاست نہیں حقائق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے ساتھ کسی نے بھی انصاف نہیں کیا۔مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے لسانیت کی آگ لگائی گئی۔

کراچی کی عوامی طاقت سے مرکز کو سیاسی سہارا دیا گیامگر بدلے میں کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کسی نے کچھ نہ کیا۔
اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے لیے پنجاب کا بجٹ لاہور پر لگایا۔لاہور میں میڑو اور اورنج لائن جیسے منصوبے بنانے والوں نے لاہور سے 120کلومیڑ کے فاصلہ پر آباد شہر اوکاڑہ کے مسائل کو قابل غور بھی نہ سمجھا۔

لاہور کو بدلنے سے پنجاب کیا بدلتا۔۔۔۔؟ لاہور تو نہیں بدلا لیکن پنجاب کے حاکم ضروربدل گئے۔
سرائیکی خطہ کی محرومیوں پر سیاست کرنے والے سرائیکی صوبہ محاذ کے دوست پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔صوبہ کے قیام سے جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کی تعمیر پر مطمئن خطے کے نمائندے تمام وعدے یکسر بھول گے۔ عام آدمی کی محرومیاں تو کیا دور ہوتیں یہ خود کبھی اقتدار سے محروم نہیں ہوئے۔

۔یہ ہے پاکستان کی نظریاتی سیاست، یہ سدا بہار عوامی پی پی پی سے مسلم لیگ (ن) اب پی ٹی آئی سمیت ہر برسراقتدار پارٹی کاحصہ بنے رہے۔
کراچی کی بربادی کی ذمہ دار پی پی پی، بلوچستان کی پسماندگی بلوچ سرادوں کے سر، جبکہ کے پی کے میں حالات بھی دیگر صوبوں سے قطعی مختلف نہیں۔ کے پی کے نے مختلف سیاسی جماعتوں کو مینڈیٹ دیا مگر پشاور بھی کوئی مثالی شہر نہ بن سکا۔

پشاور سے لاہور اور کراچی سمیت تمام شہروں میں بنیادی مسائل حل طلب ہیں۔کراچی کا مسئلہ تو بہت حد تک سیاسی بھی ہے۔مسائل پر بات کرنے والے ان حقائق کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ عام پاکستانی پورے ملک سے روزگار کے لیے صرف کراچی کا رخ کرتا ہے۔ مگرجب وسائل کی بات ہوتی ہے تو تمام تر ذمہ داری صرف سندھ سرکار پر ڈال دی جاتی ہے- وفاق میں برسر اقتدار پارٹی کراچی کے لیے خصوصی پیکج دینے کی بجائے صوبائی حکومت پر تنقید ہی کو تعمیری سیاست سمجھتی ہے۔

ایسے میں کراچی کے حالات نہیں بدل سکتے۔جب تک کراچی بہتر نہیں ہوگا پاکستان ترقی کرہی نہیں سکتا۔ یہ مسائل جوں کے توں رہیں گے ذمہ داری کسی پر بھی ڈال دی جائے۔
اب اگر علی زیدی کراچی کے لیے حقیقت میں کچھ کرنا چاہتے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان بھی کراچی میں دلچسپی رکھتے ہیں تو صوبائی حکومت پر اعتراض کرنے کی پالیسی ترک کرکے سندھ سرکار کے ساتھ مل کر کام کرنے پر تیار ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :