''وزیراعظم،دفترخارجہ الگ الگ''

پیر 17 اگست 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان کے موجودہ مسائل میں معیشت اور خارجہ تعلقات سرفہرست ہیں۔ہماری معاشی صورت حال میں نشیب و فراز آتے رہے ہیں۔آج بھی معشیت کے بہتر ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔امید کی جاسکتی ہے آنے والے وقت میں حالات بہتر ہونگے۔ داخلی اور خارجی امن معشیت کی بہتری کا ضامن ہے۔
وطن عزیز جس خطہ میں واقعہ ہے، اسکا امن مسئلہ کشمیر کے حل سے جوڑا ہے۔

کشمیر ایک ایسا تنازعہ ہے جو نہرو اور لیاقت علی خان کے دور میں حل ہوجانا چاہیے تھا۔مگربدقسمتی سے یہ مسئلہ تاحال حل طلب ہے۔1948ء۔ 1965ء۔ 1971ء میں دونوں ممالک کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں، مذکرات بھی، ثالثی کی باتیں مگر کشمیریوں کو حق خودارادیت نہیں ملا۔ کشمیر آج بھی فلیش پوائنٹ ہے۔
مسئلہ کشمیر کا ایک ہی حل ہے اور وہ حل ہے۔

(جاری ہے)

۔۔ مذاکرات، یہی آخری آپشن ہے۔

بھارت اس آپشن کو استعمال کرنے پر تیار نہیں۔بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے لے لیے عالمی حمایت ضروری ہے۔ آج پاکستان کے دوست ممالک کشمیر کے مسئلہ پر تعاون پر ماضی کی طرح تیار نظر نہیں آتے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ہماری محبتوں کا صلہ بھارت میں سرمایہ کاری کرکے، او آئی سی میں بھارت کے بطور مبصر شرکت کو یقینی بنانے کے ساتھ کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا۔

اس سے بڑی سفارتی ناکامی کیا ہوگی۔ جبکہ مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کشمیر کے مذاکرات میں نیند میں بھی غلطی نہیں کر سکتا۔ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے سب سے متحرک وزیر جارجہ تھے، خارجہ پالیسی اور کردار کی مہارت نے بھٹو کو پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر بنادیا۔

بھٹو کا سورج عالمی افق پر چمکا۔ اس لیڈر کا سحر آج بھی قائم ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر پاکستان کی بات سنی جاتی تھی۔ افسوس آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور کہاں کھڑے ہونگے۔۔؟
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہناہے کہ ''دفتر خارجہ کام کرتا تو دنیا کشمیر پر ہماری بات سنتی، برکینا فاسونے امریکہ کے خلاف قرار منظور کروالی۔کیا ہمارا اتنا بھی وزن نہیں۔

۔؟ کشمیر کے بیانیہ پر وزیراعظم اور دفتر خارجہ الگ الگ نظر آتے ہیں۔دفتر خارجہ اور دیگر ادارے اگر وزیر اعظم کے بیانیے کو اپنالیتے تو آج حالات مختلف ہوتے''۔اسلام آباد میں کشمیر سے متعلق فن پاروں کی نمائش سے خطاب میں انہوں نے کہا عمران خان نے اکیلے اپنی کوششوں سے کشمیر پر پورا بیانیہ بدلا۔ مسئلہ کشمیر سے سفارتکاری میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔


قارئین کرام! وفاقی وزیر نے جو کچھ کہا یہ کشمیر پر سفارتی ناکامی کا اعتراف ہے۔ اس طرح کی بات اگر اپوزیشن کی طرف سے کی جاتی تو حکومت اس کو مخالفت قرار دیتی اور حقیقت کا اعتراف نہ کرتی۔ اب کوئی وجہ نہیں وزرات خارجہ اس صورت حال کو تسلیم نہ کرے۔ اندورن ملک تمام سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیر پر متحد ہیں۔شیریں مزاری کے مطابق دفتر خارجہ اور دیگر اداروں نے انہیں مایوس کیا۔

5اگست 2019ء کو جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حثیت کو ختم کرکے اسے ریاست کی یونین ٹیر ٹیری بنایا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا پاکستان اور کشمیری کسی خام خیالی میں نہ رہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کے لیے کوئی ہار لیکر کھڑا نہیں ہوگا۔یہ احساس ناکامی تھا یا حقائق کا ادراک۔۔۔؟ شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا تھا مسلم امہ کے محافظوں کے اپنے مفادات ہیں۔


پی ٹی آئی کی حکومت نے صرف ایک کام کیا ناکام خارجہ پالیسی کا ڈھول سر عام بجایا۔
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔
ہم کب اپنی ناکام خارجہ پالیسی اور اندرون ملک سیاسی پالیسیوں کا جائزہ لیں گے۔حکومت کب پارلیمنٹ کے ذریعے فیصلہ سازی اور اپوزیشن کو حقیقت سے آگاہ کرکے ساتھ چلنے کی دعوت دے گی۔ اپوزیشن اگر قومی ذمہ داری کے احساس کے تحت تعاون کی بات کرتی ہے تو حکومت میں شامل مراد سعید جیسے جذباتی، سیاسی نابالغ اورشہباز گل جیسے غیر منتخب مشیر این آراوکے مطالبہ کا الزام اپوزیشن پرلگا کرماحول کوخراب کردیتے ہیں۔


قومی قیادت مل بیٹھے،اپوزیشن کو ریاستی پالیسی سے آگاہ کرے تو بہتر فیصلے ہوسکیں۔ جبکہ پاکستان میں پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کا عمل دخل محض رونق شونق لگانے تک رہ گیا ہے۔ مراد سعید اور قادر پٹیل اسمبلی میں خطاب کرکے سیشن مکمل کردیتے ہیں بس یہی خطاب خبریں اور سرخیاں بنتے ہیں۔ موجودہ حکومت خود ہی بحران پیدا کرتی ہے اور خود ہی واویلا کرتی ہے۔

اپوزیشن میں تو اتنی سکت ہی نہیں کہ حکومت کے لیے مشکل پیدا کرے یہ کام مراد سعید اور شہباز گل جیسے کردار ادا کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کسی حد تک درست کہا دفتر خارجہ موثر کردار ادا کرنے میں ناکام ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی وزیراعظم پاکستان بننے کے بھی خواہش مند ہیں۔ سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لیے سیاسی ایجنڈا بھی خارجہ پالیسی کو متاثر کرتا ہے۔

یہی غلطی وزیر اعظم عمران خان کر رہے ہیں وہ تن تنہا سب کچھ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اپوزیشن کے خلاف سربکف ہیں۔ سیاسی تعاون اور اتفاق رائے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ سابقہ حکومتیں مسئلہ کشمیر کو آئندہ آنے والی حکومتوں کے لیے چھوڑتی رہیں۔ مگر اب کشمیر میں بھارت کے 5اگست 2019ء کے اقدامات کے بعد ایسا کرنا بھی آسان نہیں۔ بھارت کو من مانی کرنے کے لیے وقت نہیں دیا جاسکتا۔

عالمی سطح پر موثر سفارتی کوششیں ناگزیر ہیں۔کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کے ساتھ پنجاب(خالصتان)،ناگالینڈ، منی پور، تری پورہ،میگھالایہ، میزورام، آسام سمیت شمال مشرقی بھارت میں آزادی کی تحریکیں جاری ہیں۔اب بھارت کا ایک وفاق کے تحت متحد رہنا آسان نہیں۔ اس کے ساتھ مودی سرکار نے سیکولر بھارت کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا ہے۔

بھارت اپنے مسائل میں خود ہی بری طرح پھنس چکا ہے۔ پاکستان ایسے میں عالمی سطح پر بہتر سفارت کاری کے زریعے مودی کے بھارت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرے۔ بھارت تقسیم ہوگا مگر خارجہ پالیسی کے حوالہ سے ہمیں بہرطور متحد ہونا ہے۔ وزیراعظم اور دفتر خارجہ سمیت تمام سیاسی طاقتوں کو ایک متفقہ پالیسی پر متفق اور متحرک کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :