''مسائل، روزگار اور ترقی''

بدھ 14 اکتوبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

سیاسی رہنماوں کی طرف سے کراچی کے مسائل پر بیانات، الزام تراشی کا لامتناہی سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔حقائق پر مبنی ہو یا فرمائشی ایسی داستانیں سنائی جاتی ہیں کہ گمان ہوتا ہے صرف کراچی کے رہائشی ہی مسائل کا شکار ہیں۔باقی ماندہ پاکستان میں سب کچھ بہترین ہے۔ سیاست اور مفادات کو ایک طرف رکھ کر سوچیں تو اس حقیقت سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ کراچی کی موجودہ صورتحال میں بھی ملک بھر سے بسلسلہ روزگار ہجرت نہیں رکی۔

پنجاب، کے پی کے، بلوچستان، اے جے کے، جی بی سے ملازمت کے لیے لاکھوں پاکستانی کراچی میں مقیم ہیں۔ ایک لمحہ کے لیے حکمرانوں کی نااہلی، کرپشن سب کچھ درست بھی مان لیا جائے تب بھی کراچی پیکج کے اعلان کے ساتھ مسائل کی اصل وجہ شہر کی بڑھتی آبادی اور ملک کے دیگر علاقوں میں روزگار کی یقینی فراہمی پر بات کرنا ضروری ہے۔

(جاری ہے)


لاہور میں میڑو بس سروس کا آغاز یا اورنج لائن، چند پل یا انڈر پاس ترقی ہے تو اسکے باوجود روزگار کے لیے آبادی کا دباو صرف کراچی پر ہی اس قدر کیوں ہے۔

۔۔؟
پنجاب کے ہمارے سابق حکمران کاسمیٹک ترقی کے ذریعے ووٹ بنک تو بنانے میں کامیاب ہیں لیکن اس ترقی نے پنجاب کے مسائل بھی بڑھا دیئے ہیں۔ راولپنڈی، لاہور گوجرانولا، فیصل آباد جیسے بڑے شہروں میں روزگار کے مواقع تو موجود ہیں مگر باقی ماندہ پنجاب میں صورتحال کا کسی کو اندازہ بھی ہے۔۔۔؟ لاہور پر بھی آبادی کا دباو بڑھ رہا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت اس عزم کے ساتھ برسراقتدار آئی ہے کہ ترقی بلاتفریق ہوگی۔

پنجاب کا 80فی صد بجٹ اب لاہور پر نہیں لگے گا۔ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے جنوبی پنجاب کی تاجر اور صنعت کار برادری کو یقین دلایا ہے کہ جنوبی پنجاب میں خصوصی طور پر صنعت وتجارت کو فروغ دے کر روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں گے۔ مظفر گڑھ میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا انڈسڑیل زون بنانے کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ صنعتی زون کے قیام سے علاقے کی معاشی تقدیر بدل دینگے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صوبے کے پسماندہ علاقے اس وقت سب سے زیادہ صنعتی، تجارتی اور معاشی ترقی کے مستحق ہیں۔ ان علاقوں میں صنعت و تجارت کا بے پناہ پوٹینشل موجود ہے لیکن شومئی قسمت آج تک ماضی کی کسی حکومت نے ان علاقوں کی تعمیر وترقی اور اقتصادی خوشحالی پر توجہ نہیں دی۔ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ پسماندہ علاقوں کے محنت کش روزگار کے لیے ملک کے دوسرے خوشحال علاقوں کا رخ کرتے ہیں جس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 13خصوصی زونز کے قیام کا فیصلہ کیا ہے ان خصوصی زونزکے قیام سے نہ صرف ان علاقوں میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ اس سے پس ماندہ علاقوں میں عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے صنعتی زونز کے قیام کے لیے عملی اقدامات کا آغاز جلد کیا جائے تاکہ ان علاقوں کے لوگوں میں پائی جانے والی محرومی مایوسی اور بیروزگاری کا خاتمہ کیا جاسکے۔


قارئین کرام! مسلم لیگ (ن)کے سپوٹرز کراچی کے مقابلہ میں لاہور کی ترقی پر بہت ناز کرتے ہیں انکو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ترقی جو انکے نزدیک لاہور میں ہوئی کہیں اس شہر کو بھی کراچی نہ بنادے۔ لاہور ابھی کراچی کے مقابلہ میں نصف آبادی رکھتا ہے۔اندرون سندھ اگر پسماندگی ہے تو لاہور سے صرف 120کلومیڑ دور مین جی ٹی روڈ پر واقع ضلع اوکاڑہ جسکی آبادی 3200000ہے، بسلسلہ روزگار، تعلیم، طبی سہولیات کے لیے لاہور سے وابستہ ہے۔

فیصل آباد صرف 100کلومیڑ دور ہے یہ شہر آج بھی کسی بہترین سڑک سے لاہور یا فیصل آباد سے منسک نہیں۔ صورتحال پنجاب میں بھی قابل فخر نہیں۔پنجاب کے رہائشی آج بھی روزگار کے لیے کراچی جاتے ہیں۔ لاہور خانیوال موٹروے، یا لاہور سیالکوٹ، اوکاڑہ کی 32لاکھ کے استعمال میں نہیں۔یہ موٹرویز انکے لیے روزگار کے مواقع لے کر نہیں تعمیر
 ہوئیں۔1990ء سے موٹر وے کی تعمیر پر مجھے اعتراض رہا۔

بات موٹروے کی اہمیت کی نہیں ضرورت کی ہے۔ جب ریلوے ٹریک ڈبل نہیں، جی ٹی روڈ کی حالت بہتر نہیں تو کیا موٹروے ضروری تھی۔ کیا یہ سمجھیں کہ موٹرویز جنگی طیاروں کی سالانہ کارکردگی کی جانچ کے لیے بنائی گئی ہیں۔۔۔؟سیالکوٹ موٹروے پر ہونے والے واقعہ نے موٹر وے کی ضرورت ایک دفعہ پھر اجاگر کردی۔ گزشتہ تین دہائیوں سے اوکاڑہ میں صنعتی زون کے قیام کے لیے مسلم لیگی قیادت اور دوسرے حکمرانوں سے مطالبات کرتے آرہے ہیں۔

آج بھی ضلع کی چاروں ایم این اے نشستیں مسلم لیگ (ن)کے پاس ہیں۔ لیکن کوئی بڑا پروجیکٹ انکے کریڈیٹ پر نہیں۔ اوکاڑہ، ساہیوال، راجن پور، مظفر گڑھ، جھنگ، خانیوال، پاکپتن کے اضلاع بھی ترقی بھی لاہور اور پنجاب کی بہتری لیے ضروری ہے۔
میانوالی، بھکر، خوشاب، لودھراں، بہاولپور، ملتان اور لیہ میں سہولیات کی فراہمی بھی اتنی ہی اہم ہے جتنا لاہور کا حق ہے۔

یہ امر بھی قابل غور ہے پی ٹی آئی کو اکثریتی ووٹ بھی جنوبی پنجاب سے ہی ملا ہے۔مسلم لیگ (ن) کی ترقی صرف سڑکیں، جہاں تعمیر ہوئیں ن لیگ کو ووٹ بھی صرف انہی علاقوں سے ملے۔ اوکاڑہ کی عوام بھی لاہور کی ترقی سے مرغوب اچھے دنوں کی آس پر ٹرک کی بتی کے پیچھے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیتے آرہے ہیں۔ مگر اوکاڑہ سے مریض آج بھی لاہور ریفر کیے جاتے ہیں۔

120کلومیڑ کا یہ سفر 3گھنٹے پر محیط ہے۔ روزگار کے لیے بھائی پھیرو، پتوکی جانا پڑتا ہے۔ اوکاڑہ سے لاہور منتقلی اور پورے پاکستان سے کراچی کی طرف ہجرت اس رجحان کو روکنا ہوگا۔ مسائل کے حل اور ترقی سڑک کی تعمیر سے یا بس چلانے سے نہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے سے ہی ممکن ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت ہر ضلع کی سطح پر یونیورسٹی بنانے جارہی ہے۔ تمام اضلاع میں صنعتی زون کا قیام بھی ضروری ہے۔

کراچی پیکج کے ساتھ سندھ کے تمام اضلاع میں ترقی ضروری ہے۔کراچی لسانی طور پر بھی تقسیم ہے۔شہر قائد کا مینڈیٹ بھی ہمیشہ تقسیم رہا۔ لاہور تو ایک ہی جماعت کے پاس رہا۔ کراچی کے مسائل اتنے ہی پیچیدہ ہیں جتنی وہاں کثیر آبادی ہے۔ پنجاب اور لاہور کی ترقی کی ضمانت صرف پسماندہ علاقوں کی ترقی کے ساتھ ہی مشروط ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :