''عوام ناخوش، شکایات کے انبار''

پیر 9 نومبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

حالیہ دنوں میں کسان اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پررہے۔احتجاج کرنے پر سینکڑوں گرفتار، پولیس سے تصادم، پتھراو، شیلنگ اور واٹر کینن کے قستعال سے لاہور کا علاقہ ٹھوکر نیاز بیگ میدان جنگ بنارہا۔ ساہیوال، وہاڑی میں بھی احتجاج ہوا۔بالآخر کسان اتحاد نے مذاکرات کامیاب ہونے پر دھرنا ختم کردیا۔سیکرٹری زراعت کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی گئی جو کسانوں کے تحفظات دور کریگی۔

وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت اور وزیر توانائی پنجاب ڈاکٹراختر ملک نے جائز مطالبات حل کروانے کی یقین دہانی کروادی۔ ادھر قائم مقام گورنر پنجاب چوہدری پرویز الہی نے بھی کسانوں کی دادرسی کے لیے انکے جائز مطالبات تسلیم کرنے کا مشورہ دیا۔انہوں نے قومی اور سندھ اسمبلی میں کسانوں کے حق میں مثبت آواز بلند ہونے کو خوش آئند قرار دیا۔

(جاری ہے)


پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) بھی کسانوں کی حمایت میں سامنے آگئیں۔

چوہدری منظوراحمد نے کہا کہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف تمام طبقات آج سڑکوں پر ہیں۔ پی پی پی کے رہنما کسانوں سے یکجہتی کے لیے مال روڈ پر چیئرنگ کراس بھی پہنچے۔
قارئین کرام! سیاست اور سیاسی وابستگیاں ایک طرف کلرک، ہیلتھ ورکرز،اساتذہ،ڈاکٹرز اورکسان سراپا احتجاج ہیں۔ عام آدمی کو حکومت سے شکایات ہیں۔اس دوران وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار بغیر پیشگی اطلاع کے اوکاڑہ اور دیپالپور تشریف لائیاور سہولت بازاروں کادورہ کیا۔

مقامی صحافی اور ضلعی انتظامیہ وزیراعلی کی آمد سے قطعابے خبرتھے۔عام شہری وزیراعلی کو بغیر پروٹوکول اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہوگئے۔توقع کے عین مطابق شہریوں نے چینی نہ ملنے، اشیاء کی کوالٹی کے انتہائی خراب ہونے اور دیگر درپیش مسائل سے متعلق شکایات کے انبار لگادئیے۔ شہریوں نے وزیراعلی کو مزیدبتایاکہ سہولت بازار تو لگائے گئے، لیکن یہاں توچینی ملتی ہی نہیں۔

افسروں سے شکایت کریں تو کہا جاتا ہے جو مل رہا ہے بس یہی لے لو ورنہ یہ بھی مہنگا ہوجائے گا۔ ایک شہری نے بتایا کہ اوکاڑہ میں اگر کوئی کام کروانا ہے تو ڈائریکٹ کسی افسر سے نہیں ملنے دیا جاتا۔ بزرگ شہری نے کہا کوئی سنتا ہی نہیں پیسے کے بغیر کام نہیں کرتا۔بھلے بیوروکریسی فوٹو سیشن سے اپنا کام چلاسکتی ہے مگر حکومت نہیں۔ عوامی نمائندوں کو توعام آدمی کے پاس جانا ہی پڑتا ہے۔

راقم الحروف نے گزشتہ کالم میں رپورٹس کی بنیاد پر بیوروکریسی کی حکومتی احکامات کی تعمیل میں عدم دلچسپی کا ذکر کیاتھا۔ حکومت بھی بیوروکریٹس کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے اورناقص کارکردگی سے قطعی مطمئن نہیں ہے۔عوام کی مشکلات کے ازالہ کے لیے فیصلہ تو بہرحال حکومت نے ہی کرنا ہے۔ اس حوالہ سے دیکھا جائے تو وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے اوکاڑہ کا سرپرائز دورہ کرکے بہترین قدم اٹھایا۔

طے شدہ پروگرام میں انتظامیہ اپنے من پسند صحافیوں اور پلانٹڈ بندے کھڑے کرکے سب اچھا کا تاثر دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے مگر جب حکومتی نمائندے خود عوام کے پاس جائیں گے تو ہی انہیں عوامی مسائل کا ادراک ہوگا۔سچ تو یہ ہے کہ بیوروکریٹس ہی نہیں برسر اقتدار جماعت کے نمائندے بھی حقائق چھپاتے ہیں۔وقت بدلنے پر یہ سیاسی پنچھی اڑنے میں بھی دیر نہیں لگاتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہوئی۔ اقتدار کے مزے لینے کے بعد بہت سارے سیاسی چہرے نواز لیگ میں چلے گئے اور بعد میں کچھ پی ٹی آئی بن گئے۔ بیوروکریسی کے ساتھ حکومت اپنی صفوں میں شامل ان کرداروں سے بھی خوب آگاہ رہے۔
اوکاڑہ میں ڈی سی عثمان علی کو اوایس ڈی بنانے کا وزیراعلی کا فیصلہ بروقت اور درست ہے۔اس طرح کے ایکشن سے بیوروکریسی خود کام کرنے پر مجبور ہوگی۔

بیوروکریٹس پر تمام ذمہ داری ڈالنا کافی نہیں انہیں کنٹرول کرنا بھی حکومت کا ہی کام ہے۔ اوکاڑہ میں پی ٹی آئی کے مقامی ٹکٹ ہولڈرز کی بھی سرزنش ضروری ہے۔ وزیراعلی یا وزراء کو پر تکلف ضیافت دینے کی بجائے انہیں اپنے ووٹرز کی آواز سننے کا پابند کیا جائے۔جب حکومت ناکام ہوتی ہے تو یہ عوام کے غضب سے بچنے کے لیے آخری وقت اپنی جماعت پر تمام ذمہ داری ڈال دیتے ہیں اورخود نئی راہ پر سفر شروع کردیتے ہیں۔

جب یہ اقتدار میں حصہ دار رہے تو کامیابی اور ناکامی کی ذمہ داری کیوں نہ قبول کریں۔ آخر ڈی سی اوکاڑہ فارغ تو مقامی ٹکٹ ہولڈر جو پی ٹی آئی کی نمائندگی کے ساتھ تاجروں کے بھی نمائندہ ہیں ذخیرہ اندوزی سے کیسے بری الزمہ ہوسکتے ہیں۔۔۔؟ آج پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن بھی مہنگائی سے پریشان ہیں وہ بھی اسی طرح متاثر ہیں جیسے عام آدمی مشکل میں ہے۔

عمران خان اگر حقیقی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو کارکنان کی سنیں یہ ٹکٹ ہولڈرزتو سرکاری افسران سے صرف ذاتی کام ہی نکلواتے ہیں۔ فوٹو سیشن اورسستی شہرت کے دلدادہ ہیں۔لہذا ستائش کرنے اور ضلعی انتظامیہ کے دم چھلے صحافی بھی ان مشکلات میں اضافہ کے ذمہ دارہیں۔
وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدارنے اوکاڑہ کا اچانک دورہ کرکے احسن قدم اٹھایا۔

اب یہ قدم رکنے نہیں چاہئیں۔راقم الحروف نے ان سطور میں انہیں مشکلات کا ذکر کیا جسکا مقصد سراسرعوام کی بہتری ہے۔اگرچہ ابن الوقت سیاسی لیڈرز اور بیوروکریسی کے لیے یہ حقائق اور انکا بیان قابل پسند امر نہیں۔ صحافت بھی سماج کی بہتری کے لیے کام کرنے کا نام ہے۔ سرکار کی ترجمانی یا وقت کے فرعون کی اطاعت صحافت نہیں ہوسکتی۔ صحافی تو صرف عام آدمی کی آواز بن سکتا ہے اس سے آگے ایکشن حکومت کا کام ہے۔


میری تحریروں کو سیاسی مخالفت قرار دے کر ایک حد تک نظر انداز تو کیا جاسکتا ہے مگرحقائق کو بدلا نہیں جاسکتا۔ حالات کو بدلنے کے لیے حقائق کا ماننا ضروری ہے۔ ہم نے اپنا فرض پورا کیا، وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے اپناکردار ادا کیا۔ عام آدمی نے حقائق سامنے رکھے۔ تمام مشکلات کا ازالہ اسی طرح ممکن ہے.
حکومت اپوزیشن کے مطالبات کو خاطر میں بے شک نہ لائے مگر عوامی خواہشات کا احترام تو لازم ہے۔ بیوروکریسی کو کنڑول کرے اور سیاسی جماعت کو سیاسی جماعت کی طرح چلائے۔ سیاست میں موجود بیوروکریٹ سٹائل کے ٹکٹ ہولڈروں کو چھوڑ کر کارکنان کو عزت دے۔ مہنگائی سے حکومت نے لڑنا ہے اگر ایسا نہ ہوا تو عام آدمی مہنگائی سے لڑتے لڑتے حکومت سے لڑنے پر مجبور ہوجائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :