''ملتا ہی نہیں خوشئہ گندم کہ جلاوں''

بدھ 2 دسمبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا شرط اول ہے۔اس کیلیے ترجیحات کا تعین،جامع پروگرام اور پالیسیوں میں تسلسل کا ہونا لازم ہے۔جس خطہ میں بھی ترقی ہوئی وہاں مستحکم سیاسی نظام کے ساتھ فعال قیادت اور پالیسی سازاداروں کا کردار کلیدی ہے۔ ستم ظریفی وطن عزیز میں سیاسی نظام روز آفرینش سے ہی بے یقینی سے دوچار رہا۔

سیاست محض سیاسی نعروں کے گرد گھومتی آرہی ہے۔ مارشل لا، جمہوریت اور اقتدار کی میوزیکل چئیر کاکھیل جاری رہا۔قیام پاکستان کے 26سال بعد ارض پاک کو متفقہ آئین نصیب ہوا۔ اس سے قبل پاکستان دولخت بھی ہوچکا تھا۔جمہوری سفر کے شروع ہوتے ہی 1977ء میں مارشل لا آگیا۔ 1970ء کی نیشنلائز پالیسی ختم، پھر نجکاری شروع ہوئی۔ اسکے ساتھ سیاست میں کرپشن کی ایسی بازگشت سنائی دی کہ یہ آواز آج تک دھیمی نہیں ہوئی۔

(جاری ہے)

جہاں سیاست میں برداشت کارویہ پروان نہ چڑھ سکا وہی معیشت کو بھی استحکام نصیب نہ ہوا۔ آج 73سال ہونے کو آئے ہواکے رخ کے ساتھ ترجیحات بدلتی رہیں اور نت نئے تجربے ہوئے۔ ترقی کے محض دعوے ہی سننے کوملے۔کیا کیجئے کہ دلفریب نعروں سے سیاست تو چمک سکتی ہے مگر معیشت بہتر نہیں ہوسکتی۔
قارئین کرام!گزشتہ چھ دہائیوں میں مجموعی معیشت کے بارے ورلڈ بنک نے اعداوشمار جاری کیے جن کے مطابق خدمات کے شعبہ میں12.8فیصد،صنعتی شعبہ میں 1.6فیصد اور زرعی شعبہ میں14.4فیصد کمی ہوئی۔

1960کی دہائی میں خدمات کا شعبہ مجموعی قومی معیشت میں 44.5فیصد، صنعت17.7فیصد اور زراعت کا حصہ 37.8فیصد تھا۔ 1970ء کی دہائی میں خدمات کے شعبہ میں 4.1فیصد، صنعتی شعبہ میں 2.9فیصد اضافہ ہوا۔تاہم زرعی شعبہ 7فیصد کم ہوا۔ 1980ء کی دہائی میں خدمات اور صنعت کے شعبوں میں بالترتیب 5فیصد اور 0.2 فیصد اضافہ ہوا جبکہ زرعی شعبہ کا حصہ مزید 5فیصد کم ہوا۔1990ء سے 1999تک خدمات اور صنعت کے شعبہ میں ترقی ہوئی مگر زرعی شعبہ میں کمی کا سلسلہ جاری رہا۔

2000کی دہائی میں زراعت کے ساتھ صنعتی شعبہ میں بھی کمی ہوئی۔صنعت کا شعبہ19.1فیصد اورزراعت کا حصہ 23فیصد تک سکڑگیا۔ رواں دہائی میں 2010سے 2019تک خدمات کا شعبہ کاحصہ 57.3فیصد،صنعتی شعبہ کاحصہ19.3فیصد اور زرعی شعبہ کا حصہ 12.8فیصد ہوگیا۔ اس طرح مجموعی قومی معیشت میں خدمات کے شعبہ میں 12.8فیصد، صنعتی شعبہ میں 1.6فیصد اضافہ جبکہ زرعی شعبہ میں 14.4فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔


زرعی شعبہ کا حصہ ملکی معیشت میں سکڑتا جارہا ہے اور ہمارے پالیسی ساز صنعتی ترقی کے لیے پالیسی سازی کے ساتھ مراعات کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ سبسڈی، امدادی پیکج سب تدابیر بے سود دکھائی دیتی ہیں۔ دوسری طرف زرعی شعبہ مسلسل نظر انداز ہے۔ زراعت کمزور ہوگی تو اس سے وابستہ صنعت بھی ترقی نہیں کر سکتی۔ اس حقیقت کے باوجودزراعت کی بہتری کے لیے حکومتیں عملی اقدامات اٹھانے پر تیار نہ
 ہوئیں۔

زرعی شعبہ کے مسائل جوں کے توں ہیں۔کسانوں کی حالت روز بروز خراب سے خراب تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ فی ایکڑ پیداوار عالمی سطح پر کم ہونے کے ساتھ ہمارازرعی رقبہ بھی کم ہورہا ہے۔کسانوں کو اجناس کی بہتر قیمتیں نہیں ملتیں، کھاد، بیج اور بجلی سب کچھ مہنگا ہے ان حالات میں زرعی شعبہ میں ترقی مکمن ہی نہیں۔ کسان بدحال ہو تو ملک کیسے خوشحال ہوسکتا ہے۔

۔۔؟ صنعتکار تو ہمیشہ حکومتوں میں شامل رہے۔ اثرو رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ جبکہ کسان صرف سڑکوں پراحتجاج ہی کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں کاسمیٹک ترقی کے لیے میڈیا بھی حقیقی مسائل اجاگر نہیں کررہا۔ سیاست دان سیاست اور اقتدار کے چکر میں مصروف رہتے ہیں۔
پاکستان میں دفاعی پیداوار میں خودکفالت قابل تعریف ہے مگر زرعی پیداوار میں ہم پستی کی طرف گامزن ہیں۔

سبسڈی اور موٹرویز، اورنج لائن، میڑو بس و دیگر ترقی کی علامات قرار دیے جانے والے منصوبہ جات سے ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا گیا۔ فوڈ سیکیورٹی کا چیلنج آج بھی درپیش ہے۔
بھارتی پنجاب اور ہمارے پنجاب کی مٹی، آب وہوااور دیگر عوامل ایک جیسے ہیں اسکے باوجود فی ایکڑ پیداوار میں فرق ہے۔ اسکی بنیادی وجہ بے حسی، ناقص پالیسیاں اور غیر مناسب رویے ہی ہیں۔

آب وہوا، زرخیز زمین اور دیگر قدرتی عوامل کے لحاظ سے پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے۔لیکن بدقسمتی سے کسان خوشحال نہیں۔ زرعی پیداوار کے ساتھ دودھ کی پیداوار اور مویشی پالنے میں بھی بہترین صورتحال ہونے کے باوجود زراعت سے وابستہ افراد پریشان ہیں۔ غیر ملکی کمپنیاں غریب کسانوں سے دودھ خرید کر خوب منافع کمارہے ہیں جبکہ کسان بدحال کا بدحال ہے۔


معاشی ماہرین مانتے ہیں کہ بھارت کے مقابلہ میں پاکستان کی زرعی کارکردگی ناقص رہی تو کیا وجہ ہے اس کے باوجود بہتری کا سفر شروع نہیں ہوسکا۔۔؟
 کھیت سے منڈی تک سڑکوں کی تعمیر کی بجائے خالی موٹرویز کی تعمیر کو ضروری سمجھا گیا۔ یہ سب ووٹ کا چکر ہے۔ دیہی علاقہ جات میں ترقی کے ثمرات پہنچانے کے بغیر بااثر سیاسی شخصیات کے زریعے ووٹ مل جاتے ہیں اس لیے کہنے اور دکھانے کے لیے کچھ کرنا ضروری نہیں۔

پنجاب کاضلع اوکاڑہ جو ملک بھر میں مویشیوں کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست ہے یہاں اینیمل یونیورسٹی تعمیر نہیں ہوئی سب لاہور کے لیے ہی مخصوص ہے۔ زرعی پیداوار کے لحاظ سے اوکاڑہ آلو، مکئی اور چاول کی پیداوار میں بھی ممتاز حیثیت رکھتا ہے لیکن زرعی تحقیقاتی ادارے اور تعلیمی ادارے یہاں قائم نہیں کی گئے۔ ہم لاہور کی میڑو بس اور اورنج لائن سے ہی خوش ہیں۔

زرعی پیداوار کے حوالہ سے ترقی کی ضروریات کو مدنظر ہی نہیں رکھاجاتا۔
ترقی کے دعوں کی بجائے آج ہمیں ضرورت ہے کہ کسان ایمپاورمنٹ اور پروٹیکشن کی معیاری بیج اور کھاد کی فراہمی کی، زرعی ادویات، آسان قرضے، فصلوں کی انشورنس اوراجناس کی مناسب قیمت کی اگر ہم ترقی چاہتے ہیں تو حکومت کو اس طرف توجہ دینا ہی ہوگی۔کورونا وائرس سے دنیا بھر میں زندگی متاثر ہوئی لیکن زرعی شعبہ واحد ایسا ہے جہاں لاک ڈاون کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دنیا کی انڈسٹری بند بھی رہے تو زرعی شعبہ چلتا رہتا ہے۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو زراعت ہی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔خوشئہ گندم اگے گا تو غریب کا چولہا جلے گا، چولہا جلے گا تو صنعت کا پہیہ بھی چلے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :