''پارلیمان ریاستی اداروں کی ماں''

جمعہ 25 دسمبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئررہنماسید خورشید شاہ نے سکھر احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ استعفے مسائل کا حل نہیں۔ ہم سب کو حالات کے تناظر میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پارلمینٹ تمام ریاستی اداروں کی ماں ہے، سب کو اس پلیٹ فارم پر آنا چاہیے۔
قارئین کرام! ملکی سیاست میں آج کل استعفوں کا بہت چرچا ہے۔

سوشل میڈیا پرتواستعفے بھی دیے جارہے ہیں۔ پی ڈی ایم فیصلہ کن راونڈ کھیلنے جارہی ہے۔دوسری طرف حکومت اپوزیشن کی اخلاقی حیثیت کو بھی تسلیم نہیں کرتی۔آئین اور قانون کی بات کریں تو پی ٹی آئی صرف اپنے مینڈیٹ کو ہی درست سمجھتی ہے۔تبدیلی سرکار اپوزیشن کوچور، ڈاکو اور غدار سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہیں۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر شبلی فراز کا کہنا ہے اپوزیشن آج ہی استعفے د ے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

حکومت ہربات کا ایک ہی جواب دیتی آرہی ہے آین آر او نہیں ملے گا۔ سیاسی کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ کوئی درمیانی راستہ نہیں جسکی طرف حکومت اور اپوزیشن بڑھ سکے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ استعفوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا توایسی سوچ قطعی طورپردرست نہیں۔پارلیمانی نظام میں پارلمینٹ کی حیثیت کو مانتے ہوئے ہی معاملات چلائے جا سکتے ہیں۔پارلیمان اپوزیشن اور حکومت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔


ناممکنات کوممکن بنانے کا نام ہی سیاست ہے اب اگر سیاسی قیادت اس بحران کا حل نہیں نکال سکی تو یہ اجتماعی نااہلی ہی سمجھی جائے گی۔ سیاست اور سیاستدان دونوں مزید بدنام ہونگے۔ سیاست میں عدم برداشت کے کلچر کے فروغ سے تباہی ہی آئے گی۔
ووٹ کو عزت دو اور احتساب کا بیانیہ آئین اور قانون کے تابع رہ کر ہی قابل قبول ہوسکتا ہے۔ سیاسی معاملات پارلیمان میں حل ہوں اور قانونی امورعدالتیں طے کریں تو ہی نظام چل سکتا ہے۔

تحریک سے حکومت کا خاتمہ یا اپنی عدالتیں لگاکر کسی کو چور ڈاکوکہنے سے وقتی کامیابی صرف نئی تباہی کا پیش خیمہ ہی ثابت ہوگی۔
حکومت کاخود فریبی پر مبنی اعتماد اور اپوزیشن کی تحریک فیصلہ کن معرکہ نہیں۔ ماضی میں اس طرح کی سیاست نے سیاسی استحکام قائم نہیں ہونے دیا۔ پی ٹی آئی کے دھرنا اور استعفے کی سیاست کو پارلیمان کے ذریعے ہی ختم کیا گیا۔

اس وقت کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور انکی جماعت نے بہت مثبت کردار ادا کیا۔ پی پی پی کو نواز شریف کی حکومت سے وہی شکایت تھی جو آج مسلم لیگ(ن)کو پی ٹی آئی سے ہے۔ آر-او الیکشن کہنے اور دھاندلی کے تمام تر الزامات عائد کرنے کے باوجود پی پی پی نے پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں دیاتھا۔ بلکہ پارلمینٹ کو مضبوط کیا۔ اس مثبت سیاست کو عمران خان نے گٹھ جوڑاورمک مکاکہا۔

ماضی میں بہتر سیاسی طرز عمل اختیار کیا گیا جسکے نتیجہ میں دو سابقہ آئینی ادوارمکمل ہوسکے۔ الزامات،اعتراضات، احتجاج اور سیاست ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ آج بھی ایسے ہی رویوں کی ضرورت ہے۔
حکومت مسلم لیگ (ن) سے ش نکالنے کی خواہش مند ہے۔ ممکن ہے ن سے ش نہ نکلے لیکن بہت سے اراکین ضرور الگ ہوسکتے ہیں۔ جے یو آئی (ف) سے ش تو نکل بھی آئی ہے۔مولانا محمد خان شیرانی نے مولانا فضل الرحمن کو سلیکٹڈ قرار دے دیا۔

جے یو آئی (ف) میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔
سیاسی کشیدگی بڑھنے کے ساتھ سیاسی جماعتوں میں اختلاف بھی بڑھیں گے۔ ن لیگ سے ق لیگ اور اس طرح کے گروپس کی تشکیل ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کو کمزور کرکیحکومت کو مضبوط کرنے کی پالیسی پرانی ہے۔ شہباز شریف نے پنجاب میں 2008کے بعد ق لیگ میں فارورڈ بلاک کے سہارے حکومت چلائی۔

سیاسی وابستگیوں کی تبدیلی اور جوڑ توڑ ملکی سیاست کے لیے کبھی بہتر ثابت نہیں ہوئے۔ نظام کی کمزروی کی سب سے بڑی وجہ لیڈر شپ کے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کی خواہش اور سیکنڈ لیڈر شپ کے مفاد ہی ہیں جو پارٹی کو کمزور کرتے ہیں۔عوام نے 5سال کے لیے حلقہ کی نمائندگی کا مینڈیٹ دیامگریہ استعفے اورپیٹریاٹ گروپس سیاست میں قابل ستائش روایات نہیں ہو سکتیں۔

اب ان روایات کو تبدیل کرنے کاوقت ہے۔ سیاسی اختلاف کے لیے سب سے بہتر فورم پارلمینٹ ہی ہے۔ سید خورشید شاہ نے پی ڈی ایم کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا استعفی پارٹی قیادت کے حوالہ کردیا مگر بہت پتے کی بات بھی کہہ گئے۔ پارلیمنٹ تمام ریاستی اداروں کی ماں ہے سب کو اس پلیٹ فارم پر آنا چائیے۔ سیاسی قیادت بلخصوص حکومت وقت کو ایک قدم آگے آنا چاہئے۔

حکومت نہیں نظام کو بہتر کریں۔سیاست میں تبدیلی بتدریج آتی ہے۔ کرپشن اور نظریات کا بیوپار سیاست سے تبھی ختم ہوگا جب سیاسی قیادت سنجیدہ رویہ اختیار کرے گی۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی کے پاس بہت سے غیر سیاسی ایم این ایز اور سینیٹرزموجود ہیں جو جذبات کے ہی تابع ہیں۔ سنجیدگی کو کمزوری اور اتفاق رائے کو مک مکا سمجھتے ہیں۔
سیاست کا کام بند گلی میں قید ہونا نہیں ہوتا بلکہ نئی راہیں تلاش کرنا ہے۔موجودہ صورتحال میں جو بات سید خورشید شاہ کی طرف سے آئی وہ حکومت کی طرف سے آنی چاہئے تھی۔ تماشہ بہت ہوا اب پارلمینٹ کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی اور پلیٹ فارم ہے تو بتائیے۔اہم معاملات کو پس پشت کرکے قوم کو غیر ضروری بحث میں ڈال کرصرف وقت ہی ضائع کیا جارہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :