''عہدحاضراور سیاست''

منگل 29 دسمبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستانی سیاست میں مدوجزر نئی بات نہیں۔قیام پاکستان سے لیکر آج تک سیاسی استحکام اور مضبوط حکومت ایک خواب ہی رہا۔اگرچہ قائد اعظم ایک مضبوط جمہوری فکر رکھتے تھے مگر اس کے برعکس وطن عزیز میں سیاسی قیادت نظریات کی بجائے مفادات کے لیے سرگرم ہوگئی۔منزل کا تعین اور حکمت عملی کبھی بھی حکمرانوں کی ترجیح ہی نہیں رہی۔
سیاسی جدوجہد میں عوام کی بات ضرور کی جاتی ہے لیکن مخصوص طبقات، خاندان، گروہ اور مسلک ہی کو مضبوط کیا جاتا ہے۔

سیاسی جماعتیں منشور اور نظریات کی بنیاد پر نہیں بلکہ شخصیات کے سہارے قائم ہیں۔بدلتے وقت کے ساتھ بااثر سیاسی، کاروباری اور ریٹایئرڈ سرکاری ملازمین اپنے مفاد کے لیے دوسری سیاسی پارٹیوں کا رخ اختیار کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔

(جاری ہے)

لہذا وفاداری، دیانتداری اور نظریاتی وابستگی کی قابل فخر مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔جمہور بھی کارکن بننے کی بجائے بچہ جمہورا محسوس ہوتا ہے۔

ہر طرف بس آوئے ہی آوئے، زندہ باد، دیکھو دیکھو کون آیا جیسے سیاسی نعروں ہی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ایسے ماحول میں ایک واضح قومی کردارتخلیق ہی نہیں پاسکتا۔
 ہر بارحکومت کی تبدیلی کے ساتھ نظریات کی تبدیلی اور نیا سیاسی بحران پیدا ہوجاتا ہے۔شومئی قسمت ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ایسا بھی نہیں کہ قائد اعظم کے بعد حقیقی سیاسی قیادت سامنے ہی نہیں آئی۔

قائد عوام کی صورت میں ذوالفقار علی بھٹو آفتاب جمہوریت بن کر سیاسی افق پرابھرے۔ لیکن پھر وہی سیاسی کھیل کھیلا گیا مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ نے جنرل ضیاء الحق کو سیاسی شطرنج کی بساط پر آگے کردیا۔ بھٹو کی پاپولر سیاسی لہر کے سامنے مذہبی جذبات سے لبریز عناصر اور سرمایہ دار سیاستدان سرگرم ہوئے۔ بھٹو کی منتخب حکومت ختم، عوامی راج کاخاتمہ اورمارشل لا آگیا۔


جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں بھٹو کے نظریات کی وارث بینظیر بھٹو کے مقابلہ میں نواز شریف کا کردار تخلیق ہوا۔چالیس سال سے جاری افغان جنگ کے نتیجہ میں سیاست میں دہشت گردی بھی شامل ہوگی بی بی کی سیاسی جدوجہد کا خاتمہ2007ء میں ایک دہشت گرد حملہ کی صورت میں ہوا۔ملکی سیاست میں ادھر ادھر سے آئے بااثر سیاسی شخصیات نے سیاست کو رخ ہی موڑ دیا۔


ن لیگ اور پی پی پی کے درمیان برپا ناگوار کشمکش سے پرویز مشرف کے سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی عمران خان کا ظہور ہوا۔2011کے بعد بااثر طبقہ پی ٹی آئی میں شامل ہونا شروع ہوا۔نواز شریف کو سیاست میں خود اپنے لیے نیاکردارمنتخب کرنا پڑا۔ اب آئین اور قانون کی بالادستی اورعوامی حکمرانی نوازشریف کی سیاست کا بظاہر مقصد ٹھہراجبکہ پی پی پی کی سیاست بھٹوہی کے نام پر جاری ہے۔

آج یہ دونوں پارٹیاں آئین کی بالادستی کے بنیادی نقطہ پہ متفق ہیں۔ضیاء الحق سے ناطہ توڑ کر نوازشریف کی بیٹی مریم نواز باجماعت 27 دسمبر کوبھٹو کی قبر پر موجود تھی۔پس تاریخ نے ثابت کردیا کہ ضیاء الحق تھا اور بھٹو ہے۔
حتی کہ آئین پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ضیاء الحق آئینی تاریخ کا حصہ بھی نہیں رہا۔ہزاروں کا مجمع لیکرفیصل مسجد کے باہر ضیاء الحق کا مشن پورا کرنے کے دعوے دار مسلم لیگ (ن) کے رہنما اب قائد عوام کے مزارگڑھی خدا بخش پر موجود ہیں۔

بھٹو تو آج بھی سیاست میں موجود ہے لیکن اسے جسمانی طور ختم کرنے والاخود معدوم ہوگیا۔یہ تاریخ کا سبق ہے طاقت نہیں نظریہ ہی انسان کو زندہ وجاوید رکھتا ہے۔سیاست تو جمہور سے ہے اور جمہور میں زندگانی صرف نظریات سے ہے۔
ان حقیقتوں کے عیاں ہونے کے باوجود آج بھی وطن عزیز میں پاور پالیٹکس جاری رہے۔ مگریہ پاور دائمی نہیں ہوسکتی کیونکہ بدلتے وقت کے ساتھ طاقت کے حصہ دارنئی منزل کی طرف چل پڑتیہیں۔

عہد رفتہ کی سیاست میں اپوزیشن پی ڈی ایم کے پیلٹ فارم سے پی ٹی آئی کے خلاف احتجاجی سیاست پر کمربستہ ہے۔ عمران خان کا سیاسی نظریہ صرف اپوزیشن کو چور ڈاکو اور کرپٹ کہنے تک ہی محدود ہے۔ سیاسی پروگرام اور جمہوریت کے استحکام کیلیے عملی اقدامات کا فقدان ہے۔ اوے توئے، لعن طعن پی ٹی آئی کی سیاست ہے۔تبدیلی سرکار اپوزیشن کو زیر کرنے کے لیے نطریہ ضرورت کو تھامے ہوئے ہے۔

وہی مردہ باد اور زندہ باد، احتجاجی ریلیاں دھرنے کچھ بھی تو نیا نہیں۔کونسا نیا پاکستان اور کہاں کی تبدیلی۔۔۔؟
اگر اب بھی قومی سیاسی پارٹیاں احساس ذمہ داری کو خاطر میں نہیں لاتیں تو پھر جمہوریت بے ثمر اور الیکشن محض انتظامی عمل ہی رہے گا۔خود پرستی اور خود غرضی کی سیاست کے ساتھ جمہوری استحکام ممکن ہی نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی قیادت زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے تصادم کی سیاست کی بجائے مذاکرات کی طرف آئے۔ اجتماعی رائے کا احترام ہی بہتری کی طرف بڑھنے کا نقطہ آغاز ہوسکتا ہے۔
موجودہ صورتحال سیاسی قیادت کی اہلیت کی آزمائش کا وقت ہے۔ اگلے چند روز میں اسکا فیصلہ ہوجائے گا کہ ہماری سیاسی قیادت ماضی سے کچھ سیکھ پائی ہے یا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :