آکاس بیل

ہفتہ 9 اکتوبر 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پیارے آپکے پاس اب تک قوت نہیں، اگر قوت ہوتی تو ہم تم کے چکر میں نہ پڑتے۔اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہتے۔شخص بن کر نہیں شخصیت بن کر سامنے آتے۔ قوت ہمیشہ ارادے سے ملتی ہے خواہشات سے نہیں۔زندگی کوئی سوشل ایپ نہیں جس میں من پسند ایڈ اور اختلاف رکھنے والے ریموو کرلیے۔ حقیقی زندگی میں مختلف الخیال انسانوں کے ساتھ ہی جینا پڑتا ہے۔

کسی کو ہم خیال بنانے کے لیے ظاہری وضع قطع سے متاثر نہیں کیا جاسکتا۔ شکل نہیں عمل ذہنوں کو متاثر کرتاہے۔اور قافلے ایسے ہی نہیں بن جاتے اسکے لیے ایمانداری سے دوستوں کو ساتھ لیکر چلنا پڑتا ہے۔سیڑھی چڑھ کر اوپر جا کر بیٹھ جانے سے کامیابی نہیں ملتی سفر جاری رکھنا ضروری ہے۔سفر ایک روز میں نہیں کٹ جاتا کیونکہ ہم ایکپسریس وے پر نہیں کھڑے زندگی کیراستوں میں بہت موڑ آتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہم میڑو سٹی کے مکین ہیں۔یہاں بولنے کے لیے اوصاف کا ہونا بھی ضروری ہے۔اوصاف کو پہچانیں پھر آگے بڑھیں۔ صرف علم دین نام رکھ لینے سے علم نہیں آجاتا اور دین داری بھی مکمل نہیں ہوسکتی۔حقیقی کامیابی کے لییجدوجہد کرنا لازم ہے۔جدوجہد تبھی کامیاب ہوتی ہے جب نظریہ پاس ہو اورنظریہ کی اہمیت سے نظریاتی ہی آگاہ ہوتے ہیں ابن الوقت نہیں۔ وقت بھی ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔

کسی ایک کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے پورے معاشرے کو نہیں۔ من گھڑت جواز سے چند احباب کو مطمئن کیا جاسکتا ہے مگرسب کو نہیں۔
افکار اور نظریہ ہی حقیقی قوت ہے جس کے پاس نظریہ نہیں وہ قوت کے ہونے کا دعوی کرے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ منافقانہ روش پر کاربند ہے۔منافقانہ روش کسی بھی طرز زندگی کو پھلنے پھولنے نہیں دیتی۔ معاملہ فرد واحد تک نہیں رہتا سب کے لیے ذلت اور رسوائی مقدر بن جاتی ہے۔

اس روش پر کاربند افراد کو اپنی تذلیل، ذلت اور رسوائی کا احساس نہیں۔مقام اور رتبے کی خواہش رکھنا، اپنی خواہشات کو مقدم سمجھنا اوربندھے بندھائے طرز عمل سے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔بلاشبہ خواہشات پر پابندی نہیں اقتدار، طاقت اور شہرت کی خواہشات کی تکمیل کے لیے مروجہ اور غیر مروجہ طریقوں سے کوشش ہمارے معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں۔لیکن گزرے وقت کے ساتھ ناعاقبت اندیش، مفاد پرست گماشتوں کی لسٹ طویل ہوتی جارہی ہے۔

زوال پذیری کا سفر جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔
منافقانہ روش کو تسلیم کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں۔کفر کا نظام پھل پھول سکتا ہے لیکن منافقت کا نہیں۔نظام کی ترقی کے امکانات معاشرہ میں موجود رجحانات کی مطابقت سے پیدا ہوتے ہیں۔جدوجہد اور کیفیت کے لیے واضح لائحہ عمل ضروری ہے۔

آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ ہمیشہ خراب ہی رہتا ہے۔ اس نظام کو چلانے کی کوشش ہی منافقانہ روش ہے۔ ہمیں واضح لائن لینی ہی ہے۔ سیاسی نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی، اسلام کو مکمل اپنانا ہے یا سیکولر طرز کی زندگیاں اختیار کرنی ہیں۔سیاست میں اپنے مقاصد کے لیے مذہب کا استمعال اب بھارت کو بھی تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔ ہم یہاں واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم سیکولر یا مذہبی بنیاد پر کسی بھی سوچ کی حمایت نہیں کر رہے۔

مقصد صرف اتنا ہے کہ فیصلہ ضرور کرلیں آگے کیسے بڑھنا ہے۔ منافقانہ روش کو ہر ضرورت چھوڑنا ضروری ہے۔ قومی معاملات سے لیکر ذاتی سطح تک اس روش کو بہر طور رد کرنا ضروری ہے۔ آکاس بیل خود تو پھل پھولتی ہے لیکن جس پر چڑھتی ہے اسکی بربادی کا سامان پیدا کرتی ہے اور اس بیل کی جڑھیں بھی نہیں ہوتیں۔آکاس بیل کے مصداق ایسے کرداروں کو مسترد کرنا ضروری ہے تاکہ ہم حقیقی قوت بن کر آگے بڑھ سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :