عوامی قیادت اورشعور لازم و ملزم

بدھ 15 دسمبر 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

دنیا کے مختلف ممالک میں جہاں جمہوریت قائم ہے وہاں مختلف تجربات ہوتے آ رہے ہیں۔لوگوں نے اپنی ضروریات اور روایات کے مطابق مختلف شکلوں میں جمہوری ڈھانچے مرتب کیے۔ اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق وقتاً فوقتاً ترامیم بھی ہوتی رہتی ہیں۔یہ لازم نہیں کسی ایک ملک میں کامیاب طرز عمل، جمہوریت اور سیاسی ڈھانچہ دوسرے ملک میں بھی کامیاب ہو۔


پاکستان میں جمہوریت قائم ہے۔ سیاسی جماعتیں فعال ہیں، کہنے کی حد تک عوامی قیادت موجود ہے۔ سب کچھ ہے لیکن مسائل کم نہیں ہو رہے۔عام آدمی ووٹ ڈالتا ہے مگر سیاسی نظام میں عملی طور پر شامل ہی نہیں۔ ووٹ ڈالنے کے پیمانے جمہوری معاشروں سے بہت مختلف ہیں۔
عام آدمی ووٹ ڈالنے کا اہل ہے لیکن الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں۔

(جاری ہے)

الیکشن کے وقت جو عوامی جوش وخروش دیکھنے میں آتا ہے حکومت کے قائم ہونے کے بعد مسائل اور پریشانیوں کے جال میں جکڑا نظر آتا ہے۔

وقت گزر جاتا یے اور پھر ایک دفعہ ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کرنے کے لیے آزاد ہوتا ہے۔
زندہ باد،مردہ باد، گالی گلوچ، دہشتگردی،ذاتی دشمنیاں، برادریاں، لسانی پہلو، وقتی فائدے فقط چند دنوں کے لیے بریابی کی فراوانی، حلوہ پوری، وعدے، دعوے اور الیکشن کا عمل مکمل ہوا۔ مگر مسائل مزید شدت سے عام آدمی کو قابو کر لیتے ہیں۔جمہوریت چلتی ہے حکومت قائم ہوتی ہے پھر بھی عام آدمی اپنی پوزیشن بہتر نہیں کر سکتا۔


عام آدمی فکری طور پر اس بات کو قبول کیے ہوئے ہے۔ سیاست میں شرکت صرف سرمایہ دار کا حق ہے۔ یہ سوچ کیوں نہ فروغ پائے جب نظام ہی اس طریقہ کار پر قائم جہاں دولت پہلا اور آخری معیار ہے۔
ایک صحیح تعلیم یافتہ اور پر خلوص کارکن ایسے انتخابی عمل میں حصہ لینے کی جرأت نہیں کرسکتا جہاں محض دولت کے زور پر روایتی سیاستدان قومی و صوبائی اسمبلیوں تک پہنچ جاتے ہوں۔


وطن عزیز میں عوام ووٹ تو ڈالتے ہیں لیکن عوامی قیادت کے لیے مخصوص طبقہ ہی سرگرم رہتا ہے اور قیادت کا اہل سمجھا جاتا ہے۔ اس نامکمل جہموریت میں عوام انتخابی نظام کا حصہ تو ہیں لیکن حکومت میں شریک نہیں۔ حکومت میں شراکت انتخابی کامیابی سے ممکن ہے۔ یوں رائج جہموری طریقہ الیکشن صرف سرمایہ دار کا کھیل ہے۔ پڑھا لکھا باشعور پاکستانی سیاسی جماعت میں فیصلہ کن پوزیشن بھی حاصل نہیں کر سکتا۔

ایسے میں سیاسی جماعت کا نظریاتی فعال ورکر ٹکٹ لیکر الیکشن کے عمل میں کامیاب رہے اس کی خواہش ہی کی جاسکتی ہے مگر عملی طور پر ایسا ممکن نہیں۔
پاکستان میں 1985 کے غیر جماعتی الیکشن کے نتیجہ میں نظریات کی جگہ دھن دولت سیاست میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گئی۔ سیاسی جماعتوں میں سرمایہ دار غالب آگئے۔سرمایہ دارانہ سیاست کی کامیابی کی سب سے بڑی مثال شریف خاندان کا پاکستان میں مضبوط ہونا ہے۔

شریف خاندان کے مدِمقابل بھی نظریات کی جگہ سرمایہ دار ہی نمایاں ہوئے۔ نظریاتی سیاست کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ نوازشریف کی صورت میں پاکستان کی نامکمل جمہوریت نے ایسی مثال قائم کی جسکی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ نواز شریف یا تو حکمران ہونگے یا ملک سے باہر، اس کے باوجود مقبول لیڈر، اب تو انکی صاحبزادی نے نواز شریف کو ہی نظریہ قرار دے دیا۔

کسی جمہوری معاشرہ میں ایک شخص کی ذات نظریہ بن جائے ایسا کبھی نہیں ہوا، لیکن پاکستان میں ہوتا ہے۔ نظریہ کے ساتھ وابستگی کے نتیجہ میں پھانسی اور سزائیں ہوتی ہیں، معاہدہ کے نتیجہ میں جلاوطنی یا سزا کے بعد بیرون ملک علاج کی سہولت دنیا کے کسی جمہوری معاشرہ میں اسکا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان میں جمہوریت کے پیش کردہ ڈھانچے میں جو تجربات ہوئے اسکا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ محض دولت کے زور پر مخصوص لوگ اسمبلوں میں گھس گے۔

جو اس کے بعد عوامی مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے مختلف طور طریقوں سے اپنے انتخابات پر کروڑوں کی خرچ کی ہوئی رقم اکٹھی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اسمبلیاں تجارتی اور کاروباری اداروں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔اس لیے ایسی عوامی قیادت میں مسائل سے نپٹنے کی خواہش اور صلاحیت بالکل نہیں ہوتی۔
قارئین کرام! آج پاکستان کی سیاست میں کرپشن کو موضوع بنا کر سیاسی میدان میں گرما گرمی ہے جبکہ اصل مسئلہ کرپشن نہیں نظریاتی فکر کا ناپید ہونا ہے۔

پارٹی پروگرام پر سیاست ہونے کی بجائے شخصیات کے بت پورے قد سے کھڑے ہیں۔ ہم شخصیات پرستی میں مشغول ہیں۔سیاسی قیادت کیایماندار ہونے اور کرپٹ ہونے کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔نظریاتی فکر کسی بھی سطح پر موضوعِ بحث نہیں۔ ایسے میں ماننا پڑتا ہے ہمارا مسئلہ اقتصادی نہیں فکری ہے۔ سمجھ لینا چاہیے کہ عوامی قیادت کا حصول جمہوری طریقہ سے ہی ممکن ہے جبکہ جمہوریت عوامی شعور سے مشروط ہے۔

شعور اور عوامی قیادت لازم و ملزوم ہیں۔تمام ترقی یافتہ بہترین جمہوری معاشرے شعور اور عوامی قیادت انہی دو بنیادی عناصر پر ہی قائم ہیں۔اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک متوازن سوچ کو اپنانا ضروری ہے۔ درمیانے طبقہ اور غریبوں کو اقتدار کے خواب دکھا کر جاگیردار اور سرمایہ داروں کو مسلط کرنے کی سیاسی روایت کو ختم کرنا ہوگا۔اپنے عزائم میں مخلض ہو کر بے خطر آتش نمرود میں کود پڑیں، بعض لوگوں کی انگلیوں اور گالیوں کی پرواہ نہ کریں۔ نظریہ کو لیکر آگے پڑھیں گے تو گالیاں دینے اور پتھر مارنے والوں کو خود اپنی سیاست بچانے کے لالے پڑجائیں گے۔ شعور کی بلندی سے ہی عوامی قیادت میسر آسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :