سی آر ایس رپورٹ

منگل 13 اپریل 2021

Sami Ullah

سمیع اللہ

کانگریشنل ریسرچ رپورٹ ایک امریکی ادارہ ہے  جس میں کانگریس کمیٹیاں اور کانگریسی ممبران مشترکہ طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں ۔ یہ ادارہ ایک عرصے سے  کئی موضوعات پر اپنی تحقیقی رپورٹس شائع کررہا ہے۔ اس ادارے سے اب تک بنیادی بین الاقوامی مسائل اور ان کے حل سے متعلق ماہرانہ رائے کا اظہار ہوچکا ہے۔ اس کا براہ راست فائدہ امریکی کانگریس کو ہوتا ہے جسے قوانین بنانے میں معاونت ملتی  ہے ۔

سی آر ایس کشمیر اور افغانستان سے متعلق بھی  اپنی رپورٹس مرتب کرچکا ہے ۔ گزشتہ مہینے شائع ہونے والی اٹھارہ صفحات پر مشتمل رپورٹ "افغانستان :پس منظر اور امریکی پالیسی" افغانستان اور پاکستان  پر ایک اہم رپورٹ ہے جس میں امریکہ کی افغانستا ن میں موجودگی اور اس سلسلے میں امریکی  کامیابیاں اور ناکامیاں شامل ہیں ۔

(جاری ہے)

اس میں نئی امریکی انتطا میہ کیلئےافغانستان سے متعلق ایک سازگار اور مدد گار پالیسی بنانے کیلئےکافی مواد ہے ۔


اس رپورٹ کا ایک باب  علاقائی ڈائنامکس : پاکستان اور دوسرے ہمسائے پر مشتمل ہے ۔ یہ باب امریکی تحقیقاتی نقطہ نظر سے پاکستان کا افغانستا ن میں کردار اور اثر ورسوخ  ، اٖفغانستان کے پر امن حل اور افغانستان  کے امن میں پاکستان کی ناگزیر شرکت ،اور دوسرے ہمسایہ ممالک کے کردارسے متعلق ہے۔افغان خطے کی لوکیشن اور حکمت عملی میں ان  بیرونی طاقتوں کی شمولیت افغانستان کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔

پاکستان اس سلسلے میں سب سے اہم ہمسایہ ملک ہے جس کا کردار دہائیوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی افغان معاملات  اور اس خطے کی سب سے بڑی قوت افغان طالبان کے امو ر میں ایک پر اثر کردار ہے۔انٹرنیشنل بیانیے کی طرح اس رپورٹ میں بھی پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا افغان باغی گروپوں سے قائم تعلقات کا اظہار کیا گیا ہے جس کو عام طور پر منفی طور پر دکھایا جاتا ہے۔

حقانی نیٹ ورک سے تعلقات اس سلسلے میں سر فہرست ہیں۔پاکستان کو  بلواسطہ یا بلاواسطہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں منسوب کیا گیا ہے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے  کہ افغانستا ن میں امریکی  دخل اور خروج پاکستان کے بغیر ناممکن ہے۔لہذا پاکستان کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
اس رپورٹ کے ذریعے امریکہ نے افغانستان میں سمیٹی کامیابیوں پر پاکستان کےمددگار ساتھ پر  شکریہ بھی ادا کیا  ہے۔

رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان کی حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ افغانستان سے متعلق اپنا اپنا بیانیہ رکھتی ہیں ۔  پاکستانی قیادت پر امن افغانستان کی خواہاں ہے اور انٹرا افغان ڈائیلاگ کو ایک خوش آئندحل سمجھتی ہے۔لیکن اسلام آباد ایک کمزور اور غیر مستحکم افغانستان کو متحد اورمضبوط افغانستا ن کے مقابلے میں ترجیح دیتا ہے۔اس سلسلے  میں پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین اور ایک لمبی اور مشکل سرحد شامل ہے۔

یہ دونوں حقائق پاک افغان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا تے ہیں۔
اسی باب میں شامل افغان سرزمین پرپاکستان اور  بھارت کی اثر رو رسوخ اور پراکسی وار پر بھی بات کی گئی ہے۔بھارت کی افغانستان میں سفارتی موجودگی اور افغان ترقیاتی کاموں میں بڑی تعداد میں سرمایہ کاری پاکستان کے لیے ایک گھیراو کی حیثیت رکھتی ہے۔پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھارت کے بڑھتے ہوئے کردارکو شک کی نگاہ سے  دیکھتی ہے اور یہ عنصر پاکستان کے خارجہ محاذ میں ایک رکاوٹ ہے ۔

گزشتہ دہائی میں ہندوستان کی طرف سےافغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے  پاک افغان بارڈر کو غیر محفوظ رکھنے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دخل اندازی، دہشت گردی، عسکریت پسندوں کی  پشت پناہی ، پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی حمایت بمعہ مالی مدد، پاکستان کےبین الاقوامی دنیا میں اعتماد کو ٹھیس پہنچانے ، پاکستان کو بطور دہشت گرد ریاست ڈکلئیر کروانے، فیٹف کے ذریعے پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے  جیسے دیگر کئی بد امنی جیسے اقدامات شامل ہیں۔

ان سب کاروائیوں کا زندہ ثبوت کلبھوشن یادیو ہے جو خود ان کا اعتراف کرچکا ہے۔اور یورپی یونین کی ڈس انفو لیب کی رپورٹس نے بھارتی مکار چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔
افغانستا ن میں صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ روس ، ایران اور وسط ایشیائی ریاستیں بھی شامل حال ہیں۔روس اور ایران افغان شورش میں شراکت دار مخالف گروپوں کی مدد کرتے ہیں جو امریکہ کیلئے ہر گز قابل قبول نہیں۔

اس چیز کا اعتراف رپورٹ میں امریکی کمانڈروں کی طرف  سے بھی کیا گیا ہے کہ کس طرح روس اور ایران طالبان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کوامریکی ملٹری کے خلاف استعمال کر تے ہیں۔ دونوں ممالک 1990 کی دہائی کے آخر میں طالبان کی حکومت کی مخالفت کرتے رہے لیکن مبینہ طور پر وہ طالبان کو امریکہ کے مقابلے میں اپنے فائدے کیلئے مفید نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اس حوالے سے وسطی ایشیائی ریاستوں کا کردار نسبتا محدود ہےلیکن اس میں اضافہ ممکن ہے۔
اس باب کے آخر میں چین کا بھی ذکر موجود ہے کہ چینی امنگوں کے تناظر میں چین کے لیے بڑھتی ہوئی ترجیح کی نمائندگی افغانستان کر سکتا ہے۔ سی پیک پاکستان کے لیے تو مفید ہے ہی لیکن چین اپنے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں افغانستان کو بھی شامل کرنے کا خواہاں ہے ۔

چین اس سلسلے میں پاکستان کے افغانستان سے متعلق موقف کی حمایت کرتا ہے اور تنازعے کے پر امن حل پر زور بھی دیتا ہے۔یاد رہے کہ بھارت کو افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی اپنے ترقیاتی منصوبوں کی دوران تکمیل نکلنا پڑا اور اب چین ایران میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے منصوبوں کی شکل میں اپنےپر تول چکا ہے۔
رپورٹ کے آخر میں امریکی انتظامیہ اور پالیسی ساز قوتوں کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ امریکہ طالبان معاہدےاور اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کو افغانستان میں اپنی کامیابی کے تناظر میں پرکھیں۔

اور اس بات کی جانچ پڑتال بھی کریں کہ امریکی مفادات کواس معاہدےسے کیافائدے اور کیانقصان ہوسکتے ہیں اور افغانستا ن کس طرح امریکی حکمت عملی  کیلئے فٹ ہے  ۔سی آر ایس رپورٹ
(سمیع اللہ)
کانگریشنل ریسرچ رپورٹ ایک امریکی ادارہ ہے  جس میں کانگریس کمیٹیاں اور کانگریسی ممبران مشترکہ طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں ۔ یہ ادارہ ایک عرصے سے  کئی موضوعات پر اپنی تحقیقی رپورٹس شائع کررہا ہے۔

اس ادارے سے اب تک بنیادی بین الاقوامی مسائل اور ان کے حل سے متعلق ماہرانہ رائے کا اظہار ہوچکا ہے۔ اس کا براہ راست فائدہ امریکی کانگریس کو ہوتا ہے جسے قوانین بنانے میں معاونت ملتی  ہے ۔ سی آر ایس کشمیر اور افغانستان سے متعلق بھی  اپنی رپورٹس مرتب کرچکا ہے ۔ گزشتہ مہینے شائع ہونے والی اٹھارہ صفحات پر مشتمل رپورٹ "افغانستان :پس منظر اور امریکی پالیسی" افغانستان اور پاکستان  پر ایک اہم رپورٹ ہے جس میں امریکہ کی افغانستا ن میں موجودگی اور اس سلسلے میں امریکی  کامیابیاں اور ناکامیاں شامل ہیں ۔

اس میں نئی امریکی انتطا میہ کیلئےافغانستان سے متعلق ایک سازگار اور مدد گار پالیسی بنانے کیلئےکافی مواد ہے ۔
اس رپورٹ کا ایک باب  علاقائی ڈائنامکس : پاکستان اور دوسرے ہمسائے پر مشتمل ہے ۔ یہ باب امریکی تحقیقاتی نقطہ نظر سے پاکستان کا افغانستا ن میں کردار اور اثر ورسوخ  ، اٖفغانستان کے پر امن حل اور افغانستان  کے امن میں پاکستان کی ناگزیر شرکت ،اور دوسرے ہمسایہ ممالک کے کردارسے متعلق ہے۔

افغان خطے کی لوکیشن اور حکمت عملی میں ان  بیرونی طاقتوں کی شمولیت افغانستان کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔پاکستان اس سلسلے میں سب سے اہم ہمسایہ ملک ہے جس کا کردار دہائیوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی افغان معاملات  اور اس خطے کی سب سے بڑی قوت افغان طالبان کے امو ر میں ایک پر اثر کردار ہے۔انٹرنیشنل بیانیے کی طرح اس رپورٹ میں بھی پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا افغان باغی گروپوں سے قائم تعلقات کا اظہار کیا گیا ہے جس کو عام طور پر منفی طور پر دکھایا جاتا ہے۔

حقانی نیٹ ورک سے تعلقات اس سلسلے میں سر فہرست ہیں۔پاکستان کو  بلواسطہ یا بلاواسطہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں منسوب کیا گیا ہے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے  کہ افغانستا ن میں امریکی  دخل اور خروج پاکستان کے بغیر ناممکن ہے۔لہذا پاکستان کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
اس رپورٹ کے ذریعے امریکہ نے افغانستان میں سمیٹی کامیابیوں پر پاکستان کےمددگار ساتھ پر  شکریہ بھی ادا کیا  ہے۔

رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان کی حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ افغانستان سے متعلق اپنا اپنا بیانیہ رکھتی ہیں ۔  پاکستانی قیادت پر امن افغانستان کی خواہاں ہے اور انٹرا افغان ڈائیلاگ کو ایک خوش آئندحل سمجھتی ہے۔لیکن اسلام آباد ایک کمزور اور غیر مستحکم افغانستان کو متحد اورمضبوط افغانستا ن کے مقابلے میں ترجیح دیتا ہے۔اس سلسلے  میں پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین اور ایک لمبی اور مشکل سرحد شامل ہے۔

یہ دونوں حقائق پاک افغان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا تے ہیں۔
اسی باب میں شامل افغان سرزمین پرپاکستان اور  بھارت کی اثر رو رسوخ اور پراکسی وار پر بھی بات کی گئی ہے۔بھارت کی افغانستان میں سفارتی موجودگی اور افغان ترقیاتی کاموں میں بڑی تعداد میں سرمایہ کاری پاکستان کے لیے ایک گھیراو کی حیثیت رکھتی ہے۔پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھارت کے بڑھتے ہوئے کردارکو شک کی نگاہ سے  دیکھتی ہے اور یہ عنصر پاکستان کے خارجہ محاذ میں ایک رکاوٹ ہے ۔

گزشتہ دہائی میں ہندوستان کی طرف سےافغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے  پاک افغان بارڈر کو غیر محفوظ رکھنے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دخل اندازی، دہشت گردی، عسکریت پسندوں کی  پشت پناہی ، پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی حمایت بمعہ مالی مدد، پاکستان کےبین الاقوامی دنیا میں اعتماد کو ٹھیس پہنچانے ، پاکستان کو بطور دہشت گرد ریاست ڈکلئیر کروانے، فیٹف کے ذریعے پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے  جیسے دیگر کئی بد امنی جیسے اقدامات شامل ہیں۔

ان سب کاروائیوں کا زندہ ثبوت کلبھوشن یادیو ہے جو خود ان کا اعتراف کرچکا ہے۔اور یورپی یونین کی ڈس انفو لیب کی رپورٹس نے بھارتی مکار چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔
افغانستا ن میں صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ روس ، ایران اور وسط ایشیائی ریاستیں بھی شامل حال ہیں۔روس اور ایران افغان شورش میں شراکت دار مخالف گروپوں کی مدد کرتے ہیں جو امریکہ کیلئے ہر گز قابل قبول نہیں۔

اس چیز کا اعتراف رپورٹ میں امریکی کمانڈروں کی طرف  سے بھی کیا گیا ہے کہ کس طرح روس اور ایران طالبان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کوامریکی ملٹری کے خلاف استعمال کر تے ہیں۔ دونوں ممالک 1990 کی دہائی کے آخر میں طالبان کی حکومت کی مخالفت کرتے رہے لیکن مبینہ طور پر وہ طالبان کو امریکہ کے مقابلے میں اپنے فائدے کیلئے مفید نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اس حوالے سے وسطی ایشیائی ریاستوں کا کردار نسبتا محدود ہےلیکن اس میں اضافہ ممکن ہے۔
اس باب کے آخر میں چین کا بھی ذکر موجود ہے کہ چینی امنگوں کے تناظر میں چین کے لیے بڑھتی ہوئی ترجیح کی نمائندگی افغانستان کر سکتا ہے۔ سی پیک پاکستان کے لیے تو مفید ہے ہی لیکن چین اپنے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں افغانستان کو بھی شامل کرنے کا خواہاں ہے ۔

چین اس سلسلے میں پاکستان کے افغانستان سے متعلق موقف کی حمایت کرتا ہے اور تنازعے کے پر امن حل پر زور بھی دیتا ہے۔یاد رہے کہ بھارت کو افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی اپنے ترقیاتی منصوبوں کی دوران تکمیل نکلنا پڑا اور اب چین ایران میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے منصوبوں کی شکل میں اپنےپر تول چکا ہے۔
رپورٹ کے آخر میں امریکی انتظامیہ اور پالیسی ساز قوتوں کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ امریکہ طالبان معاہدےاور اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کو افغانستان میں اپنی کامیابی کے تناظر میں پرکھیں۔اور اس بات کی جانچ پڑتال بھی کریں کہ امریکی مفادات کواس معاہدےسے کیافائدے اور کیانقصان ہوسکتے ہیں اور افغانستا ن کس طرح امریکی حکمت عملی  کیلئے فٹ ہے  ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :