تنگ نظری،بغض یا اسلام دوستی۔۔۔۔۔

ہفتہ 25 جولائی 2020

Shafqat Rasheed

شفقت رشید

وطن عزیز پاکستان کئی اقلیت و اکثریت اقوام و مذائب کا ملک ہے۔۔یہاں ہمیشہ ہی یہ کہا جاتا رہا کہ مذہب کو سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال نہ کیا جائے لیکن بدقسمتی سے ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ سیاست کے لیے ہر دور میں مذہبی کارڈ کھیلا گیا اور کوئی نہ کوئی طبقہ اس کا حصہ بنتا رہا۔۔۔۔
اسے بدقسمتی کہا جائے یا ہماری کم علمی لیکن سوشل میڈیا کے استعمال کے بعد مذہبی انتہا پسندی میں مزید اضافہ ہوا ہر شخص صرف اپنے مذہب کے دفاع اور دوسرے مذائب کو پچھاڑنے میں اس حد تک چلا جاتا ہے کہ اسے صرف اپنا آپ ہی درست لگتا ہے باقی سب غلط۔

۔۔
ایسا ہی کچھ گزشتہ دنوں دیکھنے کو ملا بات اسلام آباد میں مندر سے شروع ہوئی تو اک بحث چل نکلی ابھی یہ بحث رکنے نہ پائی تھی کہ خواجہ آصف لیگی رہنما نے پارلیمنٹ میں بات کرتے ہوئے اظہار کیا کہ سب مذائب برابر ہیں کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔

(جاری ہے)

۔
یہ بیان نہ تو غیر آئینی تھا نہ غیر اخلاقی۔۔۔
فرق صرف یہ تھا کہ انہوں نے 1973 کے آئین کے مطابق بات کی تھی جس کے مطابق پاکستان کا ہر شہری،ہر مذہب ریاست کے لیے مساویانہ حقوق رکھتے ہیں۔

اور جمہوری ممالک میں ہوتا بھی ایسا ہی ہے ۔۔
لیکن ہمارے ایک سیاسی طبقے نے اس بیان کا خوب فائدہ اٹھایا اور سوشل میڈیا پر اک طوفان برپا ہو گیا۔۔۔خواجہ آصف سے متعلق انتہائی نامناسب الفاظ استعمال کیے گئے اور معافی کا مطالبہ کیا گیا۔۔اس پر بھی ایک طبقہ کو سکون نہ ہوا اور اسلام کی اہمیت کم ہو جانے کے کارڈ کو خوب کھیلا گیا۔۔۔
لیکن کچھ سوالات معافی کا مطالبہ کرنے والوں اور اسلام دوستی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے لیے۔

۔۔۔۔
 اگر اتنا ہی اسلام خطرے میں ہے کہ ایک مندر بننے سے اسلام کو نقصان ہو جائے گا تو آپ کے اندر کا مسلمان تب کہاں تھا جب زمین الاٹ کی گئی جب رقم حکومتی خزانے سے ادا کی گئی؟؟؟
ہماری خواہش تو یہ ہے کہ انڈیا کے ہر شہر میں مسجد ہونی چاہیے واشنگٹن اور ڈنمارک میں مساجد ہونی چاہیے لیکن پاکستان میں مندر نہیں بننا چاہیے کیوں؟؟؟؟
آج سے سال قبل ہی ہے اربوں روپے کی لاگت سے کرتار پور گردوارہ تعمیر کیا گیا حکومتی خزانے سے تب آپ کے اندر کا مسلمان کہاں سویا تھا یا سکھوں سے مذہبی شراکت داری ہے۔

۔تب معافی کے مطالبات کیوں نہ کیے گئے ؟؟؟؟؟
کسی دوسرے کی عبادت گاہ کو قبول نہ کرنا یا اسکی بے حرمتی  اگر انڈیا کا ہندو یا مودی کرے تو وہ شدت پسند بتایا جائے کہ جو ہم کر رہے ہیں یہ کون سی پسندی ہے شدت پسندی،خود پسندی یا انتہاپسندی؟؟؟؟؟
حکومت پر تنقید میں نے بھی کی لیکن اس حد تک کہ مندر کی اسلام آباد میں ضرورت نہیں یہاں ہندو آبادی صرف 1٪ ہے اور  جہاں ہندو برادری آباد ہے بے شک بنائیں۔

۔۔
دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر مندر اور گردوارے کے لیے سرکار اخرجات کرتی ہے تو مساجد کے لیے بھی بجٹ مختص کیے جانے چاہیے۔۔۔
یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔۔۔
لیکن خواجہ آصف کے بیان پر جن لوگوں کا اندر کا مسلمان ایکدم جاگ گیا اور ان کو اسلام کی اہمیت کم ہوتی نظر آئی ۔۔۔۔کیا یہ اسلام دوستی ہے یا صرف خواجہ آصف سے سیاسی بغض؟؟؟؟؟
اک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ نے فرمایا کہ اپنے ماں باپ کو گالی نہ دیا کرو۔

۔۔
اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ کوئی کیونکر اپنے والدین کو گالی دے گا؟؟؟
تو آپ(ص ع) نے فرمایا جب تم کسی دوسرے کے والدین کو گالی دو گے تو جواب میں وہ آپ کے والدین کو گالی دے گا گویا تم اپنے والدین کی گالی کی وجہ بنے ہو۔۔۔یہ ایک تاکیدی حدیث ہے۔۔بلکل اسی طرح آئے دن ہم مزمت کر رہے ہوتے ہیں کہ فلاں نے صحابہ کرام رضوان کی گستاخی کر دی،فلاں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کر دی۔

۔۔۔
اب سوال یہ ہے کہ جب ہم کسی دوسرے مذہب کا احترام کرنے کو تیار نہیں تو دوسروں سے کیوں یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مذہب اور مقدسات کا احترام کریں گے؟؟؟؟؟؟
بدقسمتی نے ہمارا دامن نہ چھوڑا اور مملکت خدا داد میں یہ رسم چل نکلی ہے کہ بغیر کوئی تحقیق کیے یہاں ہر شخص دوسروں پر فتوے صادر کرنے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔۔۔
اگر کسی مولوی یا اسلام سے متعلق کسی نے کوئی جملہ بول دیا تو فوراً کفر کے فتوے صادر کر دے جاتے ہیں بلکے جنم الاٹمنٹ کی رسیدیں بھی جاری کر دی جاتی ہیں۔

۔۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ہمارے ذہنوں کو اس طرح مفلوج کر دیا گیا ہے کہ کسی جنرل کے متعلق بات کر دو تو ملکی سلامتی خطرے میں ہو جاتی ہے،کسی جج کے کرتوتوں پر بات کر لو تو توہین عدالت لگ جاتی ہے۔
لیکن خیر یہ اسلام دوستی ہے تنگ نظری ہے یا بغض ہے کہ خواجہ آصف ائینی حدود میں بات کرے تب بھی کافر لیکن وہی بات کسی دوسری جماعت یا گروہ کا فرد کرے تو سارے کامل مسلمان چپ کیوں؟؟؟؟؟
  میرے نزدیک خواجہ آصف کے یہ کہہ دینے سے کہ تمام مزاہب ریاست کے لیے برابر ہیں اتنا اسلام کو خطرہ نہیں ہے جتنا ان منافقین سے ہے جو نوجوان نسل کو اسلام سمجھنے کے بجائے انتہا پسندی،نفرت اور تنگ نظری کی بھٹی میں جھونک رہے ہیں۔

۔
ہمیں اگر صحیح اسلام دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے تو دوسروں کےلئے عزت و احترام کی گنجائش پیدا کرنی ہو گی؟؟؟
اگر ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ہماری اور ہمارے دین کی گستاخی نہ کرے تو دوسروں کو عزت دینا ہو گی۔۔اور مزہب کو سیاسی تناظر میں دیکھنا چھوڑنا ہو گا؟؟؟
ہمیں اس منافقت سے باہر نکلنا پڑے گا کہ اپنا غلط کرے نظریں چرا لیں اور دوسرا غلط کرے تو اس پر پوری طرح سیاسی کریڈٹ لیں؟؟؟؟؟
سوشل میڈیا پر چلنے والی ایسی مہمات کو روکنا ہو گا جہاں مزہب کی آڑ میں افراد کی کردار کشی کی جائے۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :