
مسلم لیگ ن اور سندھ
منگل 3 نومبر 2015

شاہد سدھو
(جاری ہے)
اس کے بجائے اسکی پالیسی سندھ کے پیپلز پارٹی مخالف وڈیروں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کی رہی ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ یہ پالیسی بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ۲۰۱۳ کے الیکشن سے پہلے ممتاز بھٹو کی سندھ نیشنل فرنٹ کا مسلم لیگ ن میں باقاعدہ اور مرتضیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی کا رسمی ادغام بھی مسلم لیگ ن کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکا۔ دوسری طرف غوث علی شاہ اور لیاقت جتوئی جیسے بے شمار رہنما مسلم لیگ ن سے ”ناراض“ بھی ہیں۔ اپنے آبائی علاقوں تک سے بار بار شکست کھانے والے یہ ” ناراض“ رہنما جنکی رہنمائی پارٹی کو دو ٹکے کا فائدہ بھی نہیں پہنچا سکی ، وفاقی حکومت سے وزارتوں ، مشاورتوں کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے ۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے ہاتھ کافی حد تک بندھ چکے ہیں، اور اس کے لئے کسی بھی صوبے میں ماضی کی طرح کی مداخلت اور اپنے چہیتوں کو نوازنے کا راستہ بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود ممنون حسین کو صدر مملکت منتخب کرواکر اور مشاہداللہ خان، سلیم ضیاء، نہال ہاشمی اور راحیلہ مگسی کو سینیٹر منتخب کروا کر ماضی میں ثابت قدم رہنے والے رہنماوٴں کو نوازا گیا۔ مگر یہ لوگ بھی سندھ میں پارٹی کے سکڑتے ہوئے ووٹ بنک میں اضافہ نہیں کر سکے۔ کراچی میں بھی دھڑے بندیوں اور واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ ن بحیثیت ایک جماعت کے منظم نہ ہوسکی۔دوسری طرف مختلف مسلم لیگوں کے اتحاد اور انضمام کے ٹوپی ڈرامے بھی کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔ مسلم لیگ کے نام پر اگر سندھ میں کچھ نظر آتا ہے تو وہ پیر صاحب پگارا کی فنکشنل مسلم لیگ ہے۔ فنکشنل لیگ کا وجود بھی پیری مریدی کی وجہ سے ہی ہے۔ سانگھڑ، میرپور خاص، تھرپارکر، مٹیاری اور خیرپور کے اضلاع میں فنکشنل لیگ کا وجود اور ووٹ بنک نظر آتا ہے۔کراچی سمیت سندھ بھر میں مسلم لیگ ن کی تنطیمِ نو ناگزیر ہے۔ بہترین راستہ یہ ہے کہ سندھ میں بحیثیت پارٹی مسلم لیگ ن کو ختم کر دیا جائے اور فنکشنل مسلم لیگ کو ہی مسلم لیگ ن کا صوبائی ونگ تسلیم کر لیا جائے۔ فنکشنل لیگ پہلے ہی وفاقی کابینہ کا حِصہ ہے۔ ن لیگ کے تمام صوبائی دھڑے پیر صاحب پگارا کی زیرِ نگرانی آنے سے فنکشنل مسلم لیگ کے ایک مضبوط جماعت کی حیثیت اختیار کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس صورت میں موجودہ طرز کی انفرادی الیکشن مہم کے بجائے مسلم لیگ ایک جماعت کے طور پر الیکشن لڑے گی۔دیگر تمام صوبوں میں متبادل سیاسی جماعتیں مضبوط ہیں اور عوام کے پاس آپشن موجود ہیں، مگر سندھ میں، کراچی میں ایم کیو ایم اور اندرون سندھ پیپلز پارٹی کا کوئی قابلِ ذکر متبادل موجود نہیں۔ تحریکِ انصاف کراچی میں ایک متبادل سیاسی قوت بن کر ابھر رہی تھی مگر جناب عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے لئے جلد بازیوں اور پارٹی میں ہر قسم کا کچرہ بھر لینے کے بعد اب اس بات کا امکان کافی حد تک معدوم ہوچکا ہے۔مسلم لیگ کے منظم ہونے کی صورت میں کم از کم عوام کے پاس ایک آپشن تو موجود ہوگا اور پی پی پی اور ایم کیو ایم مخالف ووٹ کے بھی یکجا ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
شاہد سدھو کے کالمز
-
مشرقی پاکستان اور ایک بنگالی فوجی افسر کا نقطہ نظر
بدھ 15 دسمبر 2021
-
مشرقی پاکستان اور جنرل ایوب خان
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
مشرقی پاکستان اور اسکندر مرزا
منگل 7 دسمبر 2021
-
سیاسی حقیقت
ہفتہ 13 مارچ 2021
-
کون کتنا ٹیکس دیتا ہے
ہفتہ 6 مارچ 2021
-
جہان درشن
ہفتہ 27 فروری 2021
-
سقوطِ مشرقی پاکستان نا گزیر تھا؟
بدھ 16 دسمبر 2020
-
معجزے ہو رہے ہیں
جمعہ 4 دسمبر 2020
شاہد سدھو کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.