شرم تم کو مگر نہیں آتی……!‎

جمعہ 25 دسمبر 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

وطن عزیز کی بے شمار دکھ بھری داستانوں میں سے ایک جڑانوالہ کے ارسلان حیدر کی ہے کہ جب وہ فیکٹری کی ملازمت سے نکالے جانے پر پریشان حال، خالی جیب، خالی آنکھوں اور خالی ہا تھ گھر کی دہلیز پر پہنچا تو اپنے بیمار بھائی، جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا اپنے خاندان والوں، بالخصوص اپنے غریب بھائی سے اپنی زندگی کے بجھتے ہوئے چراغ کی آخری لو کے لئے علاج کا تیل ڈالنے کی بھیک ما نگ رہا تھا۔

اس کی حالت زار دیکھ کر ارسلان نیم پاگل سا ہوگیا اوراس کے علاج کی فکر چھوڑ کر کسی اور ہی سوچ میں مبتلا ہو گیا۔ ارسلان رو رو کر اپنے اکلوتے بھائی سے التجا کرتے ہوئے کہنے لگا: ”میرے بھائی ابھی مت مرنا، میرے پاس تو کفن دفن کے بھی پیسے نہیں ہیں“ …کیا اس حقیقت پر خون کے آنسو بہانے کو دل نہیں چاہتا، کیا یہ وطن عزیز کے ہر غریب اور سفید پوش گھرانے کی داستان نہیں، کیا یہ ہر اس طبقے کی داستان نہیں جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، کیا یہ ہر اس شخص کی کہانی نہیں جو دو وقت کی روٹی کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے،کیا یہ ہر اس خاندان کا دُکھ نہیں جن کے گھروں میں بیٹیاں جہیز نہ ہونے کے باعث ساری زندگی سروں میں چاندی سجائے بیٹھی رہتی ہیں،مگر ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا… ارسلان حیدر کے یہ الفاظ نشتر بن کر میرے سینے کو چیر رہے ہیں اور ہر ذی شعور انسان کے دِل میں کانٹے کی طرح پیوست ہونگے،ہر اس شخص کو اس حادثے کا شدید افسوس ہوگا جس نے اس کو محض ایک حادثہ تصور نہیں کیابلکہ اس کے برعکس اسے ایک قومی المیہ کے طور پر محسوس کیا ہوگا…اسلامی فلاحی ریاست میں ہر روز کسی نہ کسی ارسلان حیدر کو ان حالات سے گزرنا پڑتا ہے، ہر روز کسی نہ کسی کوچے میں میتیں بے گورو کفن چندے کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں اور سرد خانے کی زینت بنیں ہماری قومیت اور انسانیت پر نوحہ کناں ہیں یا پھر ہماری بے حسی اور لاچاری کی تصویر بنی ہمیں منہ چڑا رہی ہیں۔

(جاری ہے)


ہم کس طرح کے لوگ ہیں،کس طرح کے مسلمان ہیں، کس طرح کے انسان ہیں کہ اپنے کندھوں پر کئی جنازے قبروں کے سپرد کرنے کے باوجود کبھی رک کر یہ نہیں سوچتے کہ اس جنازے کا کفن دفن کیسے ہوا ہوگا، اس کا انتظام کیسے اور کس نے کیا ہوگا؟ کیا خاندان والوں کے پاس اتنا سرمایہ بھی ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں بغیر کسی پریشانی کے اس ذمہ داری سے سبک دوش ہو سکیں یا پھر یہ ذمہ داری بھی انہی لواحقین کی ہے جن کے گھر میں سا نحہ پیش آیا ہے؟ ذرا سوچئے کہ کیا ہم نے اپنا کفن دفن خود کرنا ہے، کیا ہمیں معلوم ہے کہ ہم کب، کہاں اور کیسے اس جہان فانی سے کوچ کر جائیں گئے؟…اگر نہیں تو یقین جانئے کہ ہم سب ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور خدا کے بعد ہم ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے دکھوں کا مداوا کریں گے، ایک دوسرے کے زخموں پر مرہم رکھیں گے، ایک دوسرے کا دُکھ درد بانٹیں گے، مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے، مگر ہم تو زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کرنے کی حرص میں اس قدر کھو چکے ہیں کہ اپنا مرنا یکسر بھول بیٹھے ہیں۔


مساجد اور فلاحی ادارے کسی حد تک اس کام کو انجام دے رہے ہیں، مگر سوال یہ نہیں کہ مردوں کا کفن دفن کون کرے گا؟ اصل سوال یہ ہے کہ اس ریاست مدینہ میں اس طرح کے افراد اور خاندانوں کا پُرسانِ حال کوئی کیوں نہیں ہے، کیوں غریب دو وقت کی روٹی اور علاج کو ترس رہے ہیں، کیوں ان کو اپنے علاج کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں، کوئی تو ان حکمرانوں سے پوچھے کہ کیوں؟آخر کیوں؟ ابھی تک اس ملک میں درپیش روزمرہ کے مسائل، مثلاً ڈینگی جیسے مرض کے علاج کی سہولتیں عوام کو میسر نہیں، ہر سال کئی افراد علاج کی سہولتوں کے بغیر ہی اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور ہزاروں افراد ہر سال ہسپتالوں میں زیر علاج ہوتے ہیں، آخرکیوں وقت پر سپرے نہیں کیا جاتا، آخرباؤلے کتے کے کاٹنے کی ویکسین ہسپتالوں میں کیوں موجود نہیں ہے، آخر کب تک یہ ڈرامہ اسی طرح چلتا رہے گا، کب تک لوگ یونہی لقمہٴ اجل بنتے رہیں گے، کیا حکمرانوں کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہے؟…مَیں پو چھتا ہوں کہ محکمہ اوقاف کہاں سو رہا ہے، محکمہ صحت کہاں مگن ہے؟ کیوں عوام کو ان محکموں سے کسی بھی قسم کی سہولت میسر نہیں۔

جب بھی ان کی مدد کی ضرورت پڑ جائے تو عوام کو اس قدر کٹھن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے کہ یا تو مریض علاج کے بغیر ہی لقمہٴ اجل بن جاتا ہے یا پھر اس کی لاش سرد خانے کی زینت بنی بے یارومددگار اس نظام مملکت کو آخری سلام پیش کر رہی ہوتی ہے اور اس مسیحا کی آمد کی طلب گار ہوتی ہے جو اس کو سفر آخرت پر روانہ کر سکے۔
اب حال ہی میں کرونا وائرس کے حملے کے بعد پاکستانی طلبہ چین میں حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔

ہر روز حکومتی نمائندے ٹی وی پر آ کر ان کو تسلی دیتے ہیں اور ایک لائن جو شاید انہوں نے ٹرمپ سے سیکھی ہے، جو وہ ابھی تک پاکستان اور ہندوستان کے معاملے پر استعمال کرتے ہیں کہ ہم حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مشیر صحت بھی بار بار اسی لائن کو دوہرا رہے ہیں اور دوسری طرف ان بچوں اور بچیوں کو اس قدر مشکلات کا سامنا ہے کہ ان کا پاکستانی سفارت خانے سے کوئی فون بھی نہیں سنتا۔

آپ کے پاس کم از کم اتنی اخلاقی جرات تو ہونی چاہئے کہ آپ ان کی شکایات سن کر ان کو تسلی تو دیں، پھر ان کے مسائل اگر خود حل نہیں کر سکتے تو ان کو چینی حکام کے ذریعے ہی حل کروا دیں۔ان کو اس طرح لاوارث تو نہ چھوڑیں۔ کیا یہی نیا پاکستان ہے، کیا یہی اوورسیز پاکستانیوں کی قدر اور قیمت ہے، کیا یہی زندہ قوموں کا شیوا ہے کہ مشکل حالات میں اپنے شہریوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیں۔


میں مان لیتا ہوں کہ ہمارے پاس علاج و معالجے کی سہولتیں چین کے مقابلے میں کم ہیں، مگر کیا غیرت بھی ان سے کم ہے؟ کیا ان کا فون سننے اور ان کی چینی حکومت کے ذریعے امداد بھی ممکن نہیں؟ خدا را ملی غیرت کو جگائیں اور ان پاکستانیوں کی جس حد تک مدد ہو سکتی ہے کریں ورنہ خدا کو کیا منہ دکھا ئیں گے؟… ان پاکستانیوں سے ہاتھ جوڑ کر معذرت چاہتا ہوں جو اپنے آپ کو چین میں تنہا اور بے یارو مددگار محسوس کر رہے ہیں۔

ان سے گزارش کرتا ہوں کہ خدا پر بھروسہ رکھیں، یقین جانیں وہ آپ کو کبھی حکومت پاکستان کی طرح تنہا نہیں چھوڑے گا۔ وہ بڑا کار ساز ہے۔ آپ کی مدد ضرور کرے گا۔ میں یہاں پی آئی اے کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی تمام تر کمیوں کے باوجود انہوں نے عرصہ دراز سے ملک سے باہر وفات پا جانے والے پاکستانیوں کی میتوں کو مفت ملک عزیز میں پہنچانے کا ذمہ لیا اور وہ بخوبی اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔

کیا پی آئی اے کی طرح دوسرے متعلقہ ادارے اپنے کام کو بخوبی انجام نہیں دے سکتے؟حکومت کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود ابھی تک کسی بھی محکمے کی کوئی خاطر خواہ کارکردگی نظر نہیں آرہی۔
وہی چال بے ڈھنگی ہے،جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے،ان اداروں کو پی آئی اے سے سبق حاصل کرنا چاہئے، غریب و بے سہارا افراد کو اس مشکل سے آزاد کر انا چاہئے کہ وہ علاج اور پھر تدفین کے اخراجات کے لئے بے یارومددگار در در کی خاک چھاننے پر مجبور نہ ہوجائیں، محکمہ صحت کو اس چیز کا سخت نوٹس لینا چاہئے کہ غریب عوام کا علاج یقینی بنایا جائے، ہیلتھ کارڈ ایک اچھا عمل ہے مگر اس کو سو فیصد عوام تک پہنچانا اور ہسپتالوں کے انتظامات کو درست کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے،نیز محکمہ اوقاف کو ان مجبور و لاچار افراد کے لئے 24 گھنٹے کی سروس شروع کرنی چاہئے۔

اس سے بڑھ کر ہسپتال انتظامیہ کے پاس تدفین کے لئے خصوصی فنڈز ہونے چاہئیں جو محکمہ اوقاف کی طرف سے ان کے پاس موجود ہوں کہ وہ میت کو لواحقین کے حوالے کرتے وقت تدفین کے اخراجات بھی حق دار خاندان کو ادا کریں۔ یہاں تو گنگا ہی اُلٹی بہتی ہے،اخراجات دینا تو کیا ہسپتال کا بل ادا نہ کرنے پر میت لواحقین کے حوالے نہیں کی جاتی۔
ان اخراجات کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ ہر مجبور و بے سہارا خاندانوں کو مستقل پیکیج دے تاکہ بے چارے، مزدوروں، غریبوں،یتیموں کو ایسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

کوئی اور ارسلان حیدر اپنے پیاروں کی جدائی کے غم کو بھول کر ان کی تدفین کے لئے رقم کا انتظام نہ ہونے کے غم میں مبتلا نہ ہوجائے۔ یہاں ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد بسنے والے غریب اور سفید پوش لوگوں کا خیال رکھیں، جس حد تک بھی ممکن ہو ان کی مدد کریں تاکہ ایک صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکے، کسی کو اپنی پریشانی لے کر آپ کے پاس نہ آنا پڑے، کسی کو صدا بلند کرنے سے پہلے ہی دے دیا جائے اور ایسے دیا جائے کہ دوسرے ہاتھ کو پتا نہ چلے تاکہ اس کی عزت نفس بھی قائم رہے اور خدا بھی ہم سے راضی ہوجائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :