ملکی سیاست میں فیصلہ کن موڑ‎

منگل 30 مارچ 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

ملکی سیاست میں سیاسی پارہ کچھ عرصہ سے کافی بلند ہے، کیونکہ پی ڈی ایم نے سیاست کو ایک نئی جہت پر ڈال دیا ہے، جس کا مستقبل کچھ بھی ہو، مگر اس نے اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا ہے۔آصف علی زرداری جو بہت زیر ک سیاست دان ہیں اور مفاہمت کے بادشاہ تصور کئے جاتے ہیں،انہوں نے اسمبلیوں سے استعفے نہ دینے کا اصولی موقف اختیار کیا ہے،جو بحیثیت ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کے ان کا حق ہے ان کے فیصلے سے صاف ظاہر ہے کہ وہ سندھ کی حکمرانی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

ان کے خیال میں اسمبلی کے اندر رہ کر مفاہمت کی سیاست کرنا زیادہ اچھا رہے گا، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں سیاسی جماعتیں عملی جدوجہد کے بعد ہی کامیاب ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

اس میں بھی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کی قربانیاں لازوال ہیں مگران حالات میں بھی شاید یہی بہتر ہوتا کہ اگر پیپلز پارٹی سندھ تک سکڑ کر رہ جانے کی بجائے ملکی سطح پر سیاست میں ایک بار پھر قدم رکھنے کا موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتی۔

بہرکیف دیکھیے حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ یہ اتحاد حالات اور وقت کی ضرورت کے مطابق مختلف شکلیں بھی اختیار کرتے رہتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کا مل کر مشترکہ جدوجہد کا پہلا اصول ایک دوسرے کی عزتِ نفس کا خیال رکھناہے اس کے بعد باقی معاملات بطریق احسن چلائے جا سکتے ہیں۔


اب اگر اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کو ہی آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیں تو ان تلخیوں کا نتیجہ کبھی مثبت نہیں نکلے گا اس سارے گورکھ دھندے نے جہاں بہت سے حیران کن مراحل طے کئے ہیں وہاں اس ساری صورت حال کو  مریم نواز نے بہت ہی تجربہ کار سیاست دان کی طرح نبھایا ہے۔ وہ خود کو ایک لیڈر کی حیثیت سے منوانے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکی ہیں۔ مریم نواز نے مسلم لیگ (ن)کے بے جان جسم میں دوبارہ قوت پیدا کر دی ہے۔

دوسری طرف بلاول بھٹوزرداری کے امتحان کا وقت بھی شروع ہو چکا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کو کس سمت میں لے جاتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے ان کی ملاقات شاید کسی نئے باب کا آغاز ہو لیکن بد قسمتی سے صورتحال اس کے برعکس ہے۔ جماعت اسلامی کا اتحاد مسلم لیگ سے ماضی میں زیادہ موثر رہا ہے اور مسلم لیگ (ن) میں ایک مقناطیسیت تو ہمیشہ سے موجود رہی ہے اسی لئے گزشتہ اتحاد ہمیشہ مسلم لیگ (ن) کے گرد ہی بنتے اور چلتے رہے ہیں۔


بغور جائزہ لیں تو اس وقت ملکی سیاست ایک نیا موڑ اختیار کر چکی ہے، ایک طرف نو جماعتیں اکٹھی جدوجہد کرنے کے لئے ہر قربانی دینے کو بے قرار ہیں تو دوسری طرف حکومت ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ اب پی ڈی ایم کو اپنی تنظیم نو کرنی ہے  جس کا عندیہ مولانا فضل  الرحمن نے مریم نواز سے حالیہ ملاقات کے بعد بھی دیا ہے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ وہ جلد لانگ مارچ کرنے جا رہے ہیں جس میں منفی ون کا فارمولا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ تازہ دم ہو کر عید کے بعد لانگ مارچ کریں گے۔سوال یہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کو منفی کر کے پی ڈی ایم کی تشکیل نو کی جاتی ہے تو کیا پی ڈی ایم اسی طرح موثر طریقے سے جدوجہد کر سکے گی؟ پیپلز پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا پی ڈی ایم حکومت پر دباو ڈال کر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟ کیا اگلے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر مد مقابل ہوں گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہر پاکستانی جاننا چاہتا ہے،لیکن ان سوالات کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا، البتہ یہ بات طے ہے کہ ملکی ترقی کے لئے مضبوط اپوزیشن کا ہونابہت ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :