ریڈ لسٹ اور پی آئی اے کی اقربا پروری‎

منگل 13 اپریل 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

گزشتہ دنوں برطانیہ نے اچانک ایک حکومتی فیصلے کے تحت پاکستان کو سفری پابندیوں کی ریڈ لسٹ میں شامل کرلیا۔ اس وقت ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر بڑی شدت سے جاری ہے اور کورونا کیسز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، شاید اسی لیے برطانیہ نے پاکستان پر اس قسم کی پابندی لگائی ہے۔بظاہر تو برطانوی حکومت نے برطانوی قوم کو کسی نئے وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ اقدامات کیے ہیں،کیونکہ برطانیہ میں سفری پابندی والے ممالک کی ایک طویل فہرست ہے جس میں تقریباً 39 ممالک شامل ہیں،مگر پاکستان کو9 اپریل سے اس لسٹ میں شامل کیا جا رہا ہے۔

جو مسافر 9 اپریل کے بعد پاکستان سے سفر کریں گے، ان پر سخت پابندیوں کا اطلاق ہو گا اور بہت سے مسافر ان پابندیوں کی وجہ سے سفر نہیں کر سکیں گے۔

(جاری ہے)


پاکستانی نڑاد برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کیے جانے پر احتجاج کرتے ہوئے برطانوی سیکرٹری خارجہ ڈومینک راب کو خط لکھ کر استفسار کیا ہے کہ کس سائنسی تحقیق کے تحت برطانوی حکومت نے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کیا ہے، حالانکہ پاکستان میں کورونا کی شرح انڈیا، فرانس اور جرمنی کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔

ہر ایک لاکھ پر صرف 13 افراد کورونا کا شکار ہیں، خاص طور پر جنوبی افریقی کورونا وائرس جسے برطانیہ سمیت پوری دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک وائرس سمجھا جاتا ہے، اس کی موجودگی پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے باوجود برطانوی حکومت کا پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ سمجھ سے باہر ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے برطانوی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف شدید تنقید کی جا رہی ہے اور بہت سے برطانوی حلقوں کی جانب سے بھی اس کو سیاسی فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

حکومت برطانیہ پبلک ہیلتھ کا جو جواز کر پیش کر رہی ہے، اس کی وجہ سے پاکستان میں تقریباً چالیس ہزار پاکستانیوں کے سفری پلان کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
برطانوی حکومت کا یہ فیصلہ ا س وقت سامنے آیا جب ایک بڑی تعداد میں برٹش پاکستانی ایسٹر کی چھٹیوں پر پاکستان کے مختصر دورے پر آئے ہیں۔ برطانوی حکومت کے عجلت سے کیے گئے فیصلے کی وجہ سے بہت سے برطانوی شہری بھی خاصی مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں، جس کی بنا پر بہت سے برطانوی حلقے اپنی حکومت کے اس جواز کو تسلیم کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں برطانوی حکومت پر برطانوی نڑاد پاکستانی کمیونٹی کی طرف سے پریشر بڑھ جائے اور مزید پارلیمانی لیڈرز بھی اس پر آواز بلند کر یں۔

پاکستان کے وفاقی وزیر اسد عمر نے برطانوی حکومت کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے نظر ثانی کا مشورہ دیا ہے جو شاید ناکافی ہے، اس پر پاکستانی حکومت کو بھرپور انداز میں آواز بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دوسری جانب حکومت پاکستان نے پاکستان میں پھنسے برٹش پاکستانیوں اور دیگر پاکستانی مسافروں کو اس مشکل سے نکالنے کے لیے 9 اپریل سے پہلے پی آئی اے کی سپیشل پانچ پروازوں کا اہتمام کیا ہے، مگر ہمیشہ کی طرح وہی بد نظمی  شامل حال رہی، بہت سے ٹریول ایجنٹس نے الزام لگایا کہ پی آئی اے کے عملے نے زیادہ تر ٹکٹیں اپنے پاس رکھ لیں۔

حالت یہ ہے کہ یہ ٹکٹیں نہ تو مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لیے پیش کی گئیں اور نہ ہی کسی عام آدمی کو اس کا فائدہ ہوا، مسافر رلتے رہے، مگر کسی کی شنوائی نہ ہوئی، اگر کسی کو ٹکٹ عنایت ہوئی تو صرف اشرافیہ یا مافیا کو جو پاکستان میں ہر کام اپنے ایک اشارے سے کرنے کے قائل ہیں۔ شنید ہے کہ پی آئی اے کے علاوہ گلف ائیر، ورجن اٹلانٹک، برٹش ائیر ویز اور ترکش ائیر لائن کی سیٹیں محدود ہونے کی وجہ سے چالیس ہزار مسافر پھر بھی 9 اپریل سے قبل برطانیہ پہنچنے سے محروم ہو سکتے ہیں، کیونکہ پی آئی اے نے صرف 1700 کے قریب افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے خصوصی فلائیٹس کا انتظام کیا ہے جس سے عام آدمی کو تو بالکل بھی فائدہ نہیں ہوگا، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت عوامی خدمت کا راستہ صحیح معنوں میں دکھاتی، مگر یہاں تو وہی ہے ”چال بے ڈھنگی۔

جو پہلے تھی سو اب بھی ہے“۔
اداروں کی کارکردگی جو ہمیشہ سے ہی سوالیہ نشان رہی ہے، اب تبدیل ہونی چاہیے، تاکہ عوام اس سے فائدہ حاصل کرسکیں۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت عوامی خدمت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے پاکستان میں پھنسے مسافروں کو9 اپریل سے قبل برطانیہ پہنچانے کا انتظام کرے اور اس عمل میں نہ تو اقربا پروری ہونی چاہیے، نہ اشرافیہ کی من مانی اور نہ ہی پی آئی اے کی ظلم و زیادتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :