اٹھارویں ترمیم کیوں ضروری ہے؟

پیر 4 مئی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

تاریخ پاکستان میں کئی ایسے موڑ بھی آئے جہاں ہم نے کچھ اچھے فیصلے کر کے اپنا مستقبل محفوظ تو بنا لیا لیکن بعض دفعہ ہم نے سنگین لاپرواہی کا مظاہرہ بھی کیا جس کے سنگین نتائج بھی بھگتنا پڑے ۔
جب مشرقی پاکستان ہمارا حصہ ہوا کرتا تھا۔کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر مشرقی پاکستان کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

بنیادی حقوق سے بھی محروم کئے رکھا ۔مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف آگ سلگ رہی تھی ۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم تھا ۔تمام تر اختیارات وفاق کے پاس تھے ۔صدر ایوب خان اور پھر بعد میں یحیی خان کے مارشل لاء کا نفاذ رہا ۔

(جاری ہے)

جنھوں نے مشرقی پاکستان کو نظر انداز کئے رکھا ۔
یہ وہ وقت تھا جب صوبے وفاق کے محتاج ہوتے تھے ۔

اُن کے حقوق پر ڈاکا پڑتا تھا ۔اگر 1970 میں قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں ہو جاتا تو آج حالات مختلف ہوتے لیکن وفاق کے پاس اختیارات کی بدولت ایسا نہ ہوا اور قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ کی بجائے اسلام آباد میں ہی کیوں منعقد ہوا ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے جس سے قطعاً انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سیاسی اختلافات کی بنا پر ہی ایسا کیا گیا اور ڈھاکہ میں ہونے والا اجلاس منسوخ کر کے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا اور یہ بات بھی مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب تھی۔


پاکستان کے سیاست دانوں نے اِس ضرورت کو محسوس کیا اور موجودہ پاکستان میں اِس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک لمبے عرصے سے غور وفکر جاری تھا اور بلآخر 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے بہت سے اختیارات صوبوں کو ہی منتقل کر دئے گئے ۔یہ عظیم کارنامہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سر جاتا ہے ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد پاکستان ایک وفاقی ریاست بن گیا ۔

یہ بات ہرگز نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اِس ترمیم کے بعد صوبوں اور وفاق کے مابین مسائل حل ہو چکے ہیں اور اب صوبے بہتر طریقے سے اپنے وسائل کو استعمال کر کے اقدامات کر رہے ہیں بلکہ کچھ مسائل اب بھی موجود ہیں لیکن حالات میں بہت حد تک بہتری لائی جا چکی ہے ۔
ماضی میں اٹھارویں ترمیم سے پہلے بلوچستان میں کیا ہوتا رہا وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔

لیکن اُن کو حقوق دئے گئے اور آج کا بلوچستان پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہے ۔
لیکن موجودہ حکومت اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کا منصوبہ تیار کر رہی ہے اگر ایسا کیا تو سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کے مغربی صوبوں میں اِس طرح کے بہت سے مسائل ہیں جو صوبے حل کر سکتے ہیں ۔یہی وہ وجہ ہے کہ خان صاحب اٹھارویں ترمیم کے بہت بڑے حمایتی رہے ہیں ۔

اور وہ صوبوں کے پاس اختیارات سے بہت خوش بھی تھے۔ اور اٹھارویں ترمیم کے گُن گایا کرتے تھے ۔جب خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت تھی تو اُس وقت یہی اٹھارویں ترمیم ٹھیک اور اب آپ وزیراعظم ہیں تو یہ غلط کیسے ہو گئی؟ ۔یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ وفاق کو اخراجات کی مد میں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ اِس کا حل نہیں کہ آپ ترمیم میں دوبارہ ترمیم کر دیں بلکہ اِس کا سیاسی حل تلاش کیا جا سکتا ہے اور معاملات طے ہو سکتے ہیں ۔

جب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اقتدار میں تھیں تو وفاق میں دس سال اسی اٹھارویں ترمیم کے ساتھ گزارے کوئی رکاوٹ نہیں آنے دی ۔اور مسلم لیگ ن نے اپنی تمام تر توانائیاں پاکستان کی بہتری کے لئے وقف کئے رکھیں ۔
اب جب خان صاحب وزیراعظم بنے ہیں تو یہی ترمیم اِن کے لئے مسئلہ بن رہی ہے ۔اصل مسئلہ خان صاحب کو نہیں کچھ قوتوں کو ہے جنھیں یہ ترمیم کبھی ہضم نہیں ہوئی اور اب وہ خان صاحب کی موجودگی میں اِس سے فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں ۔


ترمیم کو ختم کرنے کے حوالے سے صوبوں میں خاص طور پر اپوزیشن میں بہت سے خدشات جنم لے چکے ہیں ۔سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے کل پریس کانفرنس کرتے ہوئے سخت الفاظ میں یہ کہا وہ لوگ ہمیں اٹھارویں ترمیم کے بارے میں بتائیں گے جنہیں آئین کی الف ب کا نہیں پتہ عمران خان مجھے بتا دیں آئین کے اندر آرٹیکل کتنے ہیں؟
اِس لئے اِن تمام معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ ہم جلد بازی میں ایک بار پھر سے ایسے سنگین غلطی کر بیٹھیں جو ہمیں سیاسی طور پر فائدہ تو دے سکتی ہے لیکن پاکستان کی بہتری کے لئے وہ قطعاً موزوں نہیں ہے ۔
یہ ترامیم وفاق اور صوبوں کو جوڑ کر مضبوط رکھنے کا ایک پل ہے جسے توڑنے سے سنگین نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :