کرونا اور جہالت

ہفتہ 16 مئی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان اُن بدقسمت ممالک میں شامل ہے جو وبائی مرض کے ساتھ ساتھ جہالت جیسی موذی مرض کا بھی مقابلہ کر رہا ہے۔اور یقیناً یہ زیادہ خطرناک بات ہے کیونکہ کرونا کا مقابلہ تو ہم کر سکتے ہیں اور ہم نے کیا لیکن جہالت سے ٹکڑاؤ بہت مشکل ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ جہالت جیسی موزی وائرس کا شکار ہیں جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
ہماری عوام کی اکثریت اب کرونا وائرس کو بلکل سنجیدہ نہیں لے رہی اور حال ہی میں کئی مواقعوں پر اِس کے واضح ثبوت بھی ملے ہیں کہ کس طرح اِس کو آسان لیا جا چکا ہے۔

مارچ کے مہینے میں جب کرونا وائرس کی وباء پاکستان کے مختلف علاقوں میں پھیل رہی تھی اور ساتھ خوف و ہراس بھی پھیل گیا کہ یہ جان لیوا مرض ناجانے کب تک پیچھا کرے گی۔وقت کے ساتھ ساتھ اِس طرح کے مختلف سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لئے مختلف قسم کی غلط بیانیاں شروع ہو گئیں۔

(جاری ہے)

کسی نے یہ کہا کہ گرمیوں کا موسم اس وائرس کی شدت میں کمی پیدا کرے گا یا یہ وائرس ختم ہو جائے گا تو کسی نے کہا کہ یہ یہودی لابی اور مغرب ممالک کی ایک سازش ہے اور بہت سے افراد اسے خان صاحب کی سیاسی چال تصور کر رہے تھے کہ خان صاحب نے صرف ایڈ لینے کے لئے یہ ساری کرونا کی گیم کھیلی اور اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

تو وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیلی کہ امریکہ نے اپنے سیاسی اور معاشی فوائد حاصل کرنے کے لئے یہ وائرس چین میں چھوڑا ہے جہاں سے اِس وائرس کا آغاز ہوا تھا لیکن یہ کہاوت اُلٹ ثابت ہوئی جب امریکہ میں ہزاروں، لاکھوں افراد اِس وائرس سے لقمہ اجل بن رہے ہیں تو اب یہ کہنے والوں کی کمی نہیں ہے کہ چائنہ نے اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے کے لئے اِس گیم کو رچایا ہے۔

یعنی کہ ہم میں ڈاکٹرز نجومی، ماہرِ معاشیات اور سیاسیات اور اِس جیسی کئی خوبیاں پائی جاتی ہیں جس کی بدولت ہم کسی چیز کا تصور کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔اور یہ سب اُس وقت غلط ثابت ہوتا ہے جب ہماری کہی ہوئی باتوں کے برعکس نتائج سامنے آئیں۔جیسا کہ کہا گیا کہ گرمی میں کرونا وائرس ختم ہو جاتا ہے جبکہ ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔
کرونا کے حوالے سے حکومت نے بہت سی ایس او پیز بھی بتا دی ہیں جس کے مطابق کرونا جیسے حالات میں ہم نے کیسے اور کس طرح اُن پر عمل درآمد یقینی بنانا ہے۔

اِن ایس او پیز پر کیسے اور کہاں تک عمل ہو رہا ہے یہ بہت بڑا سوال ہے.پاکستان ایک اسلامی ملک ہے یہاں اسلام کے حوالے سے لوگ اپنے عقائد پر پختہ یقین رکھتے ہیں اُن کو یہ یقین بھی ہے کہ کرونا وائرس کے معاملے میں اللہ ہی اُن کا وارث ہے اور وہی مددگار بھی۔اور جب وہ یہ کہنے اور سمجھنے کے بعد احتیاط سے بلکل قطع نظر ہو جاتے ہیں تو پھر ایسے لوگوں کو میں نے مختلف بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتے دیکھا ہے۔

اِس بات سے قطعاً انکار نہیں کیا سکتا کہ اسلام نے ہمیں احتیاط کے مختلف اصول بتائے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ جہاں کوئی بھی وباء پھیلی ہو وہاں سے مت گزرو اور وہاں سے کسی دوسرے علاقے کا رُخ مت کرو۔ تاکہ وباء کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔تو ہم آجکل کے حالات کے مطابق لاک ڈاؤن پر کس طرح عمل درآمد کر رہے ہیں یہ بھی ہم سب کو بخوبی اندازہ ہے۔

۔۔۔
ہم نے حکومتی احکامات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کس طرح مارکیٹوں، عبادت گاہوں اور مختلف تفریحی گاہوں کا رُخ کیا۔مجال ہے ہم میں سے کسی نے قومی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو نبھایا ہو۔ لیکن ہم ایسی باتوں اور خود کی ناکامیوں کو رتی برابر بھی نہیں دیکھتے۔اور اپنی ناکامیوں کی بھی ساری ذمہ داری حکومت وقت پر ڈال دیتے ہیں۔اِس بات میں بھی شک نہیں کہ حکومتِ وقت کی یہ اولین ترجیح ہونی چاہئے کہ وہ عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے اور ہر ممکن حد تک بہتری کے لئے اقدامات کرے۔

کرونا کے حوالے سے حکومتی ناکامیاں اور نااہلیاں اپنی جگہ لیکن کرونا کے پھیلاؤ میں ہم نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا۔پاکستان میں کرونا کی مجموعی صورتحال اِس وقت گھمبیر ہوتی جا رہی ہے اور متاثرہ کیسز کی تعداد تقریباً چالیس ہزار تک پہنچ چکی ہے اِن حالات میں حکومت کا لاک ڈاؤن کو کھولنا اور عوام کی طرف سے افسوس ناک رویہ کئی خدشات کو جنم دے رہا ہے کہ کس طرح ہم نے اِن حالات کے باوجود لاک ڈاؤن کو مکمل طور پر کھول دیا اور عوام معمول کے مطابق بازاروں میں عید کی شاپنگ کرنے میں مصروف ہے یقیناً یہ تمام صورتحال خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے کہ اگر حالات کو سنجیدگی سے نہ دیکھا گیا تو حالات اُس نیج پر بھی پہنچ سکتے ہیں کہ ہمارے ہسپتال کم اور کرونا کے مریض زیادہ ہو جائیں۔

کیونکہ کرونا کے حوالے سے اتنی غلط فہمیاں جنم لے چکی ہیں کہ حقائق اور جھوٹ میں فرق کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔لوگ بجائے احتیاط کرنے کے دیسی ساختہ ٹوٹکوں اور کہاوتوں پر عمل پیرا ہیں۔اِس لئے یہ کہنا بالکل بھی غلط نہیں کہ جہالت کا وائرس کرونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہو چکا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :