"وفاقی بجٹ کا احوال"

ہفتہ 13 جون 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

کل وفاق کی طرف سے 2020- 2021 کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں حماد اطہر کی طرف سے پیش کیا گیا ۔ہر بجٹ سے پہلے غریب عوام کی نگاہیں بجٹ کی طرف ضرور ہوتی ہیں ۔کہ اِس بجٹ میں حکومت کی طرف سے اِن کے لئے کیا مراعات کا اعلان کیا جائے گا۔ایک سرکاری ملازم اِس سوچ میں ہوتا ہے کہ اُس کی ماہانہ تنخواہ میں کتنا اضافہ کیا جائے گا یعنی کہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو بجٹ سے خصوصی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ۔


کل کا بجٹ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ خسارے والا بجٹ تھا لیکن اِس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس بھی نہیں لگایا گیا اور بہت سی روزمرہ کی اشیاء ضروریات کی قیمتوں میں بھی معمولی کمی بھی ضرور دیکھنے میں آئی اِس کے ساتھ ساتھ کچھ چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ بھی کیا گیا۔

(جاری ہے)


دو شعبے کسی بھی ملک کے لئے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔صحت اور تعلیم کے شعبوں میں حکومت کی طرف سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت بھی نہیں دیکھی گئی اگرچہ یہ بات بھی ہے کہ یہ دونوں شعبے اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس ہیں اور اِن کا بجٹ صوبوں نے ہی تیار کرنا ہوتا ہے لیکن ایچ ای سی جیسے کچھ ادارے آج بھی وفاق کے کنٹرول میں ہیں اور اِس کے اخراجات کا ذمہ دار وفاق ہی ہے ۔

پاکستان کی تمام یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالجز ایچ ای سی کے ہی کنٹرول میں ہیں اور اِس بجٹ میں ایچ ای سی کے لئے64 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔اِس کے علاوہ اِس بجٹ میں پاکستان بھر میں کسی نئی یونیورسٹی یا میڈیکل کالج بنانے کے حوالے سے بھی کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا ورنہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بجٹ تقریر میں ہی اِس کا واضح اعلان کر دیا جاتا ہے۔

۔اِس کے علاوہ جدید تعلیم میں جدت اور حصول کے لئے صرف30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں یہ رقم کہاں لگے گی کیسے لگے گی کچھ پتا نہیں
۔صحت کا شعبہ بھی ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی نظرانداز کیا گیا ۔حالانکہ آجکل حالات مختلف ہیں صحت کے شعبے کو حکومتی سپورٹ کی بہت ضرورت تھی لیکن صحت کے شعبے کے تمام اخراجات پورے کرنے کے لئے 20 ارب سے کچھ زیادہ رقم مختص کی گئی ہے ۔


سب سے اہم بات جو قابلِ غور ہے اور اِس حوالے سے بحث و مباحثہ بھی جاری ہے کہ وفاق نے دفاعی بجٹ میں11 فیصد اضافہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے یعنی کہ دفاع کے بجٹ میں 137 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے ۔دفاعی بجٹ کو 1152 ارب روپے سے بڑھا کر 1289 ارب روپے کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے.لیکن دوسری طرف اِس بجٹ میں وفاق کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا یہ کہ کر کے ملکی معیشت کے حالات بہتر نہیں ۔


اور اِس بات پر بہت سے حلقوں میں تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ ایسا اُس وقت ہوا ہے جب کرونا وائرس کے پیشِ نظر بہت سے سرکاری ملازمین مشکلات کا شکار ہیں لیکن وہ یہ امید بھی لگائے بیٹھے تھے کہ اُن کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے گا کیونکہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں میں بھی غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے ۔بہت سے سرکاری ملازمین اِس بات کی بھی شکایت کر رہے ہیں کہ حکومت کی طرف سے اُن کے کنوینس الاؤنس کی مد میں بھی چار ہزار روپے تک کی ماہانہ کٹوتی کی گئی ہے یقیناً یہ عمل تشویش ناک ہے اِس، لئے اگر حکومت معیشت کی زبوحالی کا کہ کر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کر رہی تو ہمارے دفاع کے بجٹ میں بھی کم سے کم اضافہ کیاجاتا تاکہ معاملات بہتر رہتے اور یہ رقم دیگر عوامی منصوبوں کی بہتری کے لئے لگتی لیکن ایسا بھی نہیں کیا گیا ۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہر سال بجٹ میں صوبے ہمیشہ تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے وفاق کو ہی فالو کرتے ہیں خاص طور پر وہ صوبے جہاں صوبے اور وفاق میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہو۔اِس، لئے یہ بات بھی باعثِ تشویش ہے کہ پنجاب سمیت وہ صوبے جہاں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہے وہ بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کرینگے۔اگر کسی طریقے سے کر بھی دیا تو وہ بھی معمولی ہی ہوگا ۔


لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کی معاشی سرگرمیاں معمول سے کم ہوئی ہیں اِس وجہ سے ملک کی مجموعی پیداوار تقریباً 72 سالوں میں منفی میں رہے گی۔یہی وہ وجہ ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ خسارے والا بجٹ بھی ہے۔پاکستان کی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے مطابق ملک کی مجموعی قومی پیداوار بھی منفی 0.38 فیصد پر رہے گی۔۔اِس سے پہلے 1951- 52 کے مالی سال میں ملک کی مجموعی پیداوار منفی میں تھی ۔


حماد اطہر صاحب نے اپنی بجٹ تقریر میں کچھ غلط بیانیاں بھی کیں جس میں انھوں نے قرضوں کے حوالے سے غلط اعداد وشمار پیش کئے حالانکہ حکومت کی اپنی اکانومی سروے رپورٹ اِس بات کی گواہ ہے کہ کس حکومت نے کب اور کتنا قرضہ لیا لیکن بجٹ تقریر میں ہی موصوف حماد اطہر نے غلط اعداد وشمار ظاہر کر کے یہ تاثر ضرور دیا کہ آج جو یہ تاریخ کا سب سے بڑا خسارے والا بجٹ پیش کیا جا رہا ہے اِس میں سابق وزراء اعظم کی نالائقیاں بھی شامل ہیں حالانکہ ایسا بلکل بھی نہیں۔

جب حماد اطہر صاحب نے بجٹ پیش کیا تو اپنی تقریر میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے دس سالوں کے لیے گئے قرضوں میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ کر دیا۔اور کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو یہ قرضہ 31 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا تھا جس کا اظہار خان صاحب پہلے 27 اور کبھی 30 ہزار ارب روپے کہ چکے ہیں جبکہ حکومت کی اپنی اکانومی سروے رپورٹ کے مطابق دس سال ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی طرف کتنا قرضہ لیا گیا یہ سب حکومت کی اپنی رپورٹ میں واضح ہے ۔


جب ن لیگ کو حکومت ملی یعنی کہ 2013 میں تو ملکی قرضہ 14 ہزار ارب روپے تھا اور جب 2018 میں ن لیگ کی حکومت گئی تو یہ قرضہ نہ 27 ارب روپے تھا نہ ہی 30 اور نہ ہی 31 ارب روپے بلکہ یہ قرضہ 24 ہزار ارب روپے تھا۔یہ حکومت کے اپنے اعدادوشمار ہیں ۔۔
اور اب تحریکِ انصاف کی حکومت کے اپنے سروے کے مطابق 19 مہینوں میں ہی یہ قرضہ مارچ میں 35 ہزار دو سو ارب روپے تک پہنچ چکا ہے یعنی کہ صرف 19 ماہ میں ہی قرضے میں دس ہزار ارب روپے کا اضافہ کیا جا چکا ہے ۔

۔جب ملک میں قرضوں کے یہ اعداد وشمار ہوں۔ٹیکس کلیکشن کے حوالے سے بھی حالات حوصلہ افزاء نہ ہوں۔ملک میں ترقی کی رفتار بھی بہت مخدوش ہو۔ملک میں مہنگائی کا طوفان ہو۔ملکی جی ڈی پی کی شرح منفی میں ہو تو ہم اچھے بجٹ کی امید کیسے لگا سکتے ہیں ۔ظاہری سی بات ہے ملک کا بجٹ تاریخ کے سب سے زیادہ خسارے والا بجٹ تو کہلوائے گا ۔
یہ بجٹ جیسا بھی ہے کل پیش کر دیا گیا اور آج ملک کو اسی بجٹ کے مطابق چلانا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کہاں تک کامیابی سے اِس بجٹ پر عمل درآمد کرواتی ہے۔ یہ وقت بتائے گا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :