"قربانیوں کی لازوال داستان"

ہفتہ 8 اگست 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

لے کر رہینگے پاکستان ،بن کے رہے گا پاکستان یہ وہ نعرہ تھا جو برصغیر کے ہر مسلمان کی زبان زدِ عام تھا,قائداعظم کی قیادت میں برصغیر کے مسلمان مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے تھے ۔ہر طرف آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں.وہ خواب جو اقبال نے دیکھا تھا قائدِاعظم نے اُسے حقیقت بنا دیا ۔باآخر چودہ اگست 1947کو پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا ۔

ہمارے بزرگوں کی قربانیاں اور اُن کا خون اِس دھرتی کی مٹی کو آج بھی زرخیز رکھے ہوئے ہے،
پاکستان کی خاطر تن من دھن قربان کرنے والے ہمارے آباو اجداد ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں ۔پاکستان کی تاریخ جو لازوال قربانیوں کا مجموعہ ہے ہمیشہ ہی سنہرے لفظوں میں ہی لکھی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، میں چائے ٹی سٹال پر بیٹھا چاہے کی چسکیوں میں مگن تھا کہ وہاں میری نظر ایک ادھیڑ عمر کے بزرگ پر پڑی، قریب جا کر سلام پیش کیا تو حال احوال پوچھنے کے بعد بزرگ نے اپنی دُکھ بھری داستان سنائی۔

(جاری ہے)

چاچا شریف دین جن کا نام تھا انہوں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان کو بنتے اور لاکھوں لوگوں کو ہجرت کرتے ہوئے بھی دیکھا اُن پر ہونے والے ظلم و ستم آج بھی چاچا شریف دین کو اچھے سے یاد تھے ۔
چاچا شریف دین نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا بیٹا جب پاکستان بنا تو میں اور میرا باقی خاندان ہجرت کی غرض سے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر اپنے نئے ملک کی طرف چل پڑے۔

چاچا جی نے بتایا کہ اُن کا گاؤں امرتسر کے قریب تھا جو اُس وقت کے متحدہ پنجاب اور آج کے انڈین پنجاب میں آتا ہے۔ہم نے جیسے ہی پاکستان بننے کااعلان سنا تو اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنے نئے دیس کو چل دیے۔ہم راستے میں ہی تھے تو سکھوں نے ہمیں روک لیا، سامان لوٹنے کے بعد میری دو جوان بہنوں سمیت گھر والوں کو قتل کر دیا میں اور میرا چھوٹا بھائی جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔

آخرکار ہم دو دن کا سفر کر کے چھپتے چھپاتے نارووال کے علاقے شکر گڑھ میں پناہ لینے میں کامیاب ہوئے ۔جہاں ہم نے پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں پناہ لے لی۔جو مہاجرین کے لئے آباد کیا گیا تھا۔ کھانا ملتا تو پیٹ کو دلاسا دینے کی غرض سے کھا لیتے ورنہ کئی راتیں بھوکے پیاسے سو کر گزاریں ۔
چاچا شریف دین نے کہا کہ ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ میرا چھوٹا بھائی ہیضے کی بیماری کی وجہ سے اللہ کو پیارا ہو گیا ۔

میں اب اکیلا تھا میرا اِس جہاں میں خدا کے سوا کچھ نہیں بچا تھا ۔میں نے خود کو خدا کے سپرد کر دیا وہی میری مدد کرنے والا تھا ۔
ایک دن پریشانی کی حالت میں درخت کی چھاؤں تلے بیٹھا تھا تو وہاں کے ایک سردار کی نظر مجھ پر پڑی اُس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میرا حال احوال پوچھنے کے بعد مجھے اپنے پاس اپنے ڈیرے پر ملازم رکھ لیا ۔میں نے چند سال وہاں کام کیا، میرا کھانا رہائش اُس سردار کے سپرد تھا جو ایک نیک صفت انسان تھا ۔


یہ وہ وقت تھا جب میں نے خود کو بہتر جانا، خدا کا فضل تھا اور میری ایک عورت سے شادی ہو گئی بیوی کے میکے فیصل آباد میں رہائش پذیر تھے تو ہم نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں رہائش اختیار کی ۔کچھ سال گزرے تھے تو بیگم بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں، میں اب گھر میں اکیلا تھا، اللہ تعالیٰ کے حکم سے اولاد بھی نہ ہوئی جو میرا سہارا بنتی کئی سال گزر گئے اور آج کے دن تک میں کسم پرسی کی زندگی گزار رہا ہوں ۔

کہیں سے کچھ ملے تو کھا لیتا ہوں اِس عمر میں کمانا بھی بہت مشکل ہے لیکن ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں ۔میں اِس بزرگ کی باتیں بڑے غور سے سُن رہا تھا ساتھ ساتھ ہم دونوں چائے کے مزے بھی لے رہے تھے ۔جب میں چاچا جی کی باتیں سُن رہا تھا تو مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں آزادی کے دور میں واپس چلا گیا ہوں ۔میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں اپنے اِن محسنوں کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ جن کی قربانیوں کی بدولت ہمیں پاکستان نصیب ہوا.
یہ کہانی تھی ایک خاندان کی جس نے اپنا سب کچھ پاکستان کے لئے لُٹا دیا ناجانے اِن جیسے اور کتنے ایسے خاندان ہونگے جنھوں نے ایسے ظلم سہے اور تکالیف برداشت کیں ۔

ہم خدا کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے جس نے ہمیں آزاد وطن میں پیدا کیا اور پاکستان جیسا اسلامی وطن دیا جو اسلام کے نام پر بنا ۔ہمیں قدر کرنی چاہیے اور پاکستان کی سلامتی و خوشحالی کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے اب ہم نوجوانوں کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہیں ۔ہمیں دن رات پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرنا چاہئے تاکہ وہ خواب جو اقبال اور جناح نے پاکستان کے لئے دیکھا تھا اُسے صحیح معنوں میں حقیقت کا روپ دے سکیں۔۔پاکستان زندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :