"مختاریا گل ودھ گئی اے"

جمعہ 30 اکتوبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان کی سیاست تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے ۔ایک طرح حکومت اور اتحادی، دوسری طرف اپوزیشن کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ جس میں پاکستان کی گیارہ بڑی اور چھوٹی جماعتیں بشمول پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن شامل ہیں ۔پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حکومت وقت کے ساتھ پاکستان کے مقتدر حلقے اتنی مضبوطی کے ساتھ جڑے رہے جتنے اب ہیں۔

بےشک اِس کی کئی وجوہات ہیں لیکن دوسری طرف اپوزیشن تن تنہا مقتدر حلقوں کی سپورٹ کے بغیر ہی تاریخ رقم کر رہی ہے ورنہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یہ بات دیکھنے کو ملی ہے کہ مقتدر حلقوں کا جھکاؤ اپوزیشن کی طرف ہی رہا ہے جس کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط وزیراعظم بھی کبھی اپنی مدت پوری نہ کر سکا ۔

(جاری ہے)

عمران خان صاحب بغیر کسی اکثریت کے اور کارکردگی نہ ہونے کے باوجود بھی دو سال بڑے آرام سے حکومت کرتے آئے ہیں لیکن اِس کی وجوہات بھی ہیں ایک تو اداروں کا مکمل ساتھ رہا اور دوسرا اداروں کے توسط سے اپوزیشن پر احتساب کا شکنجه کافی سخت رہا لیکن اب معاملات کسی اور طرف جا رہے ہیں ۔

حکومت کا احتساب کا نعرہ کافی کمزور ہو چکا ہے بلکہ حکومت کے لئے باعثِ ندامت بھی بن چکا ہے کیونکہ اپوزیشن کے بہت سے رہنماؤں کو نیب اور عدالتوں کی طرف سے کلین چٹ مل چکی ہے اور باقی کے دیگر رہنما بھی حسبِ روایت کچھ عرصہ بعد جیلوں سے باہر ہونگے۔ دوسری طرف اپوزیشن کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا چکا ہے ۔

اِس لیے حکومت اور مقتدر حلقوں کو اِس بات کا بخوبی ادراک ہو چکا ہے کہ مختاریا گل ودھ گئی اے،کیونکہ اپوزیشن کا بیانیہ حکومت اور مقتدر حلقوں میں کافی تشویش بھی پیدا کر رہا ہے ۔حکومت کے وزراء خاص طور پر وزیراعظم کافی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اِس کی بڑی وجہ اپوزیشن کی تحریک جو ابھی تک کامیاب رہی اور عوام میں حکومت اور مقتدر حلقوں کو لے کر جو بیانیہ بتایا جا رہا ہے جس نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ مختاریا گل واقعی ودھ گئی اے۔

اپوزیشن نے ابھی تک تین کامیاب بڑے جلسے کیے جو خیبر پختونخواہ کے علاوہ باقی صوبوں کے دارلخلافہ میں کیے گئے جس میں حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ تو واضح ہو ہی گئی لیکن دوسری طرف مقتدر حلقوں کے خلاف بنایا جانے والا بیانیہ بھی کافی زور پکڑ رہا ہے ۔یقیناً یہ بیانیہ مقتدر حلقوں کے لئے قطعی طور پر موضوع نہیں لیکن اپوزیشن کی کامیابی اِس بات کی نشاندہی ضرور کر رہی ہے کہ پاکستان کی عوام کی اکثریت موجودہ حکومت سے خوش نہیں ۔

کیونکہ جس طرح سے پاکستان کی عوام نے موجودہ حکومت سے امیدیں وابستہ کی تھیں وہ دم توڑ رہی ہیں ۔عوام میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے حکومت کو لانے کے ذمہ دار ہیں اور اِن ناکامیوں پر وہ بھی جواب دہ ہیں جس کی وجہ سے اداروں پر عوامی دباؤ بڑھے گا تو یقیناً وہ ادارے مجبور ہونگے کہ حکومت کو عوامی توقعات کے عین مطابق ہی دیکھا جائے کیونکہ حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے اور پاکستان کے حالات بھی بتدریج خراب ہو رہے ہیں ۔

یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر اپوزیشن میدان میں نکلی ہے اور حالات کی سنگینی سے بھرپور فائدہ بھی اُٹھا رہی ہے۔جو حکومت کے لئے واقعی پریشان کن بات ہے اور حکومت یہ جان چکی ہے کہ مختاریا گل ودھ گئی اے۔ یہ بات بھی بجا ہے کہ اپوزیشن کا مقصد ہی حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوتا ہے لیکن اگر حکومت اِن حالات میں اپوزیشن پر دباؤ ڈالتی ہے یا اداروں کے ذریعے نیب کے کیسز بنوا کر جیل میں ڈالتی ہے تو اِس حکومت کے لئے یہ بات قطعاً سود مند نہیں کیونکہ پاکستان میں احتساب کا عمل بھی بری طرح فلاپ ہو چکا ہے اور اب عوام کی اکثریت میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ حکومت احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے ۔

لیکن اگر حکومت اپوزیشن کو فری ہینڈ بھی دیتی ہے تو بھی یہ حکومت اور مقتدر حلقوں کے لئے موضوع نہیں ہوگا ۔اِس لیے مختاریا گل ودھ گئی اے ۔دوسری طرف حکومت کا ابھی بھی مکمل زور اپوزیشن کو دبانے اور نوازشریف کو واپس لانے پر ہی مرکوز ہے لیکن حکومت کی کارکردگی بھی عوامی توقعات کے بلکل برعکس ہے ۔اِسی لیے اپوزیشن آنے والے دنوں میں حکومت پر مزید دباؤ بھی بڑھانا چاہ رہی ہے جس کے حوالے سے لائحہ عمل بھی ترتیب دیا جا چکا ہے کہ کس طرح حکومت کو دباؤ میں لا کرعمران خان کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کی جا سکتی ہیں کیونکہ اِس بار گیارہ جماعتوں کا اتحاد حکومت اور مقتدر حلقوں کو سوچنے پر ضرور مجبور کر رہا ہے کہ مختاریا گل ودھ گئی اے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپوزیشن کا بیانیہ بھی اداروں کے لئے باعثِ تشویش بن رہا ہے اور یہ راستہ بھی آنے والے دنوں میں حکومت کے لئے ہی مشکلات کھڑی کر سکتا ہے اِس لیے اگر معاملات کو چلانا ہے یا عمران خان صاحب یہ چاہتے ہیں کہ وہ اور اُن کی حکومت مدت پوری کرے تو حکومت کو اپنی کارکردگی تو بہتر بنانا ہی ہو گی لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر بھی لانا ہو گا تاکہ معاملات خراب نہ ہوں اور بہت سے اداروں کی ساکھ بھی برقرار رہے ۔

کیونکہ اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حکومت کے ساتھ ساتھ مقتدر قوتوں کے لئےبھی باعثِ تشویش بن چکا ہے۔اِس لیے اب یہ حکومت خاص طور پر عمران خان کو چاہیے کہ وہ معاملات کو کس طرح دیکھتے ہیں ۔اگر خان صاحب نے یہی روش برقرار رکھی تو یقیناً یہ حکومت اور عمران خان صاحب کے لئے کسی صورت موضوع نہیں ہو گا کیونکہ حکومت کی کارکردگی عوام اور اداروں کو مجبور کرے گی کہ وہ عوامی رائے کو ملحوظ خاطر رکھیں ۔اِس لیے نیشنل ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے تاکہ معاملات کو بہتر طریقے سے دیکھ کر حل کیا جا سکے ورنہ حکومتی ہٹ دھرمی سے حکومت اپنا نقصان تو کرے گی ہی لیکن نقصان پاکستان کا بھی ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :