"گلگت بلتستان کا سیاسی دنگل"

جمعرات 19 نومبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

گلگت بلتستان کا علاقہ پاکستان کے عین شمال میں واقع ہے۔جہاں موسمی درجہ حرارت تو کافی سرد ہے لیکن سیاسی درجہ حرارت بہت گرم ہے ۔سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے یہ علاقہ پاکستان کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اِس لیے یہاں کےالیکشنز بھی پاکستان کی سیاست کے لئے اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ 2009 میں پیپلزپارٹی کی حکومت میں گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دی گئی اور وہاں قانون ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا گیا۔

اِس قانون ساز اسمبلی کی ٹوٹل تینتیس نشستیں ہیں جن میں 24 نشستوں پر براہِ راست الیکشن ہوتے ہیں اور پھر قانون ساز اسمبلی اکثریتی نشستوں کے ساتھ اپنا وزیراعلیٰ منتخب کرتی ہے باقی کی نو نشستوں میں 06خواتین، 02 ٹیکنوکریٹس اور ایک سیٹ پیشہ ور افراد کے لئے مختص ہے۔

(جاری ہے)

گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے پہلے وزیراعلیٰ مہدی شاہ تھے اور بعد میں جب مسلم لیگ کے دورِ حکومت میں 2015 میں الیکشن کروائے گئے تو مسلم لیگ وہاں سادہ اکثریت لینے میں کامیاب ہوئی اور حافظ حفیظ الرحمان وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ۔

آج گلگت بلتستان میں ایک بار پھر انتخابی دنگل سج چکا ہے جس کے مکمل انتخابی نتائج بھی آ چکے ہیں ۔ وفاق میں موجود حکومتی جماعت تحریک انصاف کی نشستیں باقی جماعتوں سے زیادہ ہیں، آزاد امیدواروں نے بھی اب کی بار میدان مارا ہے اور 07 آزاد امیدوار جیتنے میں کامیاب ہوئے۔تاریخ یہی بتاتی ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کے چانسز اُس کے زیادہ ہوتے ہیں جو مرکز میں حکومت میں ہوتا ہے اِس کی بہت سی وجوہات ہیں کیونکہ حکومتی ادارے اور حکومتی ایجنسیاں مکمل طور پر وفاقی حکومت کی پارٹی کو ہی سپورٹ کرتی ہیں ۔

لیکن اِس بار روایت سے ہٹ کر کانٹے کا مقابلہ دیکھنے کو ملا۔حکومت اور اپوزیشن جس میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے گلگت بلتستان میں خوب دنگل سجایا، بڑے بڑے جلسے کیے گئے، اور الیکشن رزلٹ کے مطابق پی ٹی آئی کو توقع کے مطابق زیادہ سیٹیں تو مل گئیں لیکن سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ماضی میں ایسا نہیں ہوا، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی الیکشن میں سادہ اکثریت حاصل کر چکی ہیں ۔

دھاندلی کے الزامات گلگت بلتستان کے الیکشن میں پہلے بھی لگائے گئے اور اِس بار شدت کے ساتھ لگائے گئے۔ ایک طرف حکومت اِسے اپنی جیت تصور کر رہی ہے اور حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کا بیانیہ اِس الیکشن کے بعد ناکام ہو گیا تو دوسری طرف اپوزیشن(پی ڈی ایم) کی جماعت مسلم لیگ ن اِسے نوازشریف کے بیانیے کی جیت تصور کر رہی ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی یہی بات کر رہے ہیں کہ اُن کا الیکشن چرایا گیا۔

اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ باقی پاکستان کے الیکشنز کی طرح گلگت بلتستان کے الیکشن کو بھی اپنی منشاء کے مطابق ہی رنگ دیا گیا کیونکہ پیپلزپارٹی کی پوزیشن گلگت بلتستان کے الیکشن میں کافی مضبوط رہی ہے، نہ صرف بلاول بھٹو نے بڑے بڑے جلسے کیے بلکہ اُن کے جلسوں میں لوگوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہوتی رہی اور یہی حال مریم نواز کا بھی تھا کیونکہ مریم نواز کے مطابق اُن کی جماعت گلگت بلتستان میں اچھی خاصی نشستیں سمیٹے گی لیکن ایسا نہیں ہوا، اُن کے حصے میں محض دو سیٹیں ہی آئیں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کے الیکشن میں ن لیگ کے کئی امیدواروں کو تحریک انصاف میں شامل کیا گیایا وہ شامل ہوئے، یقیناً وہ مضبوط امیدوار تھے۔

اِس بات کا اندازہ یہاں سے لگانا آسان ہوگا کہ تحریک انصاف کی نو جیتنے والی نشستوں میں سے چھ امیدواروں کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ رہا ہے اور وہ پچھلے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈر تھے، یعنی تحریک انصاف کی اپنی سیٹوں کی تعداد محض تین ہے اورباقی پارٹیوں سے لوٹوں کو ملا کر یہ تعداد نو تک پہنچی، اِس ساری صورتحال سے یہ واضح لگ رہا ہے کہ یہ الیکشن تحریک انصاف نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی جماعتیں ہی جیتی ہیں کیونکہ گلگت بلتستان کے ماضی کے الیکشنز کی نسبت اِس بار اپوزیشن کی جماعتوں کا پلڑا بھاری رہا ہے لیکن جوڑ توڑ کر کے وفاقی جماعت معمولی سی نشستیں زیادہ لینے میں کامیاب ہوئی،
وسائل کا بے دریغ استعمال اور اداروں کی سپورٹ کے بعد بھی پی ٹی آئی سادہ اکثریت بھی نہ لے سکی اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا کیونکہ 2009 کے الیکشنز میں پیپلز پارٹی کو 24 میں سے 14 نشستیں اور 2015 میں مسلم لیگ ن کو 24 میں سے 16 نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور اِس بار تحریک انصاف محض 09 نشستیں ہی حاصل کر سکی مطلب کہ تحریک انصاف کو سادہ اکثریت بھی نہ مل سکی۔

یقیناً یہ حکومتی حلقوں کے لئے باعثِ تشویش بات ہے نہ کہ باعثِ مسرت ۔کیونکہ گلگت بلتستان کے الیکشن میں اِس بار روایت سے ہٹ کر سیاسی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔جس طرح مریم نواز اور بلاول بھٹو نے الیکشن کمپین چلائی اور وفاق کی جماعت کو تمام تر وسائل بروئے کار لانے کے بعد سادہ اکثریت بھی نہ مل سکی تو یہ حکومت کی کامیابی سے زیادہ اپوزیشن کی جماعتوں کی کامیابی ہی تصور کی جاسکتی ہے ۔کیونکہ پی ٹی آئی کو وفاق اور پنجاب کی طرح یہاں بھی بیساکھیوں کے سہارے ہی حکومت کرنے کا موقع ملے گا اور عوام باقی پاکستان کی طرح یہاں بھی تبدیلی کا مزہ چکھے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :