یوم پاکستان اور حضرت صالح کی اونٹنی

ہفتہ 14 اگست 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

14 اگست 1947 سے لیکر آج 14 اگست 2021ء تک کا پاکستان کا سفر گزر گیا، اور آج اگر پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو قائداعظم محمد علی جناح کے گورنر جنرل عہدہ سے لیکر آج 74 سال بعد وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت کے درمیانی عرصہ تک اگرچہ پاکستان کے سیاست دانوں کو حکومت کرنے کا کم موقع ملا ، کیونکہ سیاست دانوں کی لوٹ مار کو روکنے یا اس پر قابو پانے کیلئے زیادہ عرصہ فوج کے مارشل لازء نے ہی ملکی باگ دوڑ سنبھالے رکھی، پھر بھی ان سیاست دانوں کے محدود عرصہ دور حکومت میں2 ملکی سیاسی پارٹیوں نے 3/3 مرتبہ اپنی اپنی باری لیتے ہوئے اپنے اپنے دور حکومت میں کرپشن اور لوٹ مار کے وہ وہ ریکارڈ بنا ڈالے کہ اب کرپشن اور لوٹ مار ہمارے پیارے ملک پاکستان کی سیاسی لیڈروں کے علاوہ ملک کے اکثر محکموں میں کام کرنے والے چھوٹے عہدہ کے ملازموں سے لیکر اسی محکمہ کے ہیڈتک کی رگوں میں سرایت کر چکی ہے۔

(جاری ہے)

اور اس وقت عالم یہ ہے کہ اگر ملک کے کسی بھی محکمہ میں اگر آپ کو کوئی کام ہے تو اپنے جائز کام کیلئے بھی بغیر رشوت یا قائد اعظم کی تصویر والے بڑے نوٹوں کے بغیر آپ کا کام ہونا ناممکن ہے،اور ہر قسم کا ناجائز کام تو خیر سے ہونا ہی ہے،ہر کام کا ایک ریٹ طے شدہ ہے۔ہمارے پاکستانی معاشرے میں ہر انسان کی نظر میں سب سے زیادہ وہی محکمہ کرپٹ ہے جس کا اس انسان سے واسطہ پڑا ہو، کسی انسان کواگر پولیس جائز و ناجائز پکڑ لے تو بس اس کی کم بختی شروع ہو جاتی ہے، اور اس کی نظر میں پولیس ہی سب سے زیادہ کرپٹ ہے۔

کسی کو صحت کے معاملے پر اگر خدانخواستہ ہسپتال میں ڈاکٹر سے لیکر کمپونڈر تک کسی سے کوئی کام ہو تو اسے جس طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے ، کہ اللہ کی پناہ، تعلیمی شعبہ میں اگر کسی کو کوئی بھی کام ہو تو وہ یہی سوچتا ہے کہ جتنی کرپشن تعلیمی اداروں اور محکمہ تعلیم میں پائی جاتی ہے اس کی کوئی مثال نہیں۔ اسی طرح واپڈا، واسا،بلڈنگ، موٹر رجسٹرین اینڈ ٹیکنیشن، بینک اور سب سے بڑھ کر عدلیہ میں بھی وہ کچھ داستانیں سننے کو ملتی ہیں کہ کسی بھی انسان کے چودہ طبق روشن ہو جائیں۔

پاکستانی عدلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی بھی کیس کو عدالت میں لڑنے کیلئے وکیل ہائر کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں یہ بھی سہولت موجود ہے کہ آپ وکیل کے ساتھ ساتھ جج کو بھی ہائر کر سکتے ہیں اور اپنی مرضی کا فیصلہ کروا سکتے ہیں۔ آج سے چار دہائیوں پہلے تک اسی کرپشن کا آغاز پرچی سسٹم سے شروع ہوا، پہلے پہل کوئی بھی بااختیار بندہ کسی اپنے دوست رشتہ دار کو پرچی لکھ کر دیتا اور اسی پرچی کے اوپر اس کا کام ہو جایا کرتا تھا ، اس کے بعد کا دور ٹیلی فون کا آیا جب پرچی کو چھوڑ کر دور جدید کی ایجاد ٹیلی فون کا سہارا لیا جاتا اور اقربا پروری کرتے ہوئے کوئی آفیسریا بااختیارآدمی اپنے زیر اثر کام کرنے والے سے اپنے عزیز واقارب کے کام کروا لئے کرتے تھے، یہی اقرباء پروری بڑھتے بڑھتے نوٹوں کی صورت اختیار کر گئی جس میں سائل کا کام اسی صورت میں ہوتا جب وہ اپنے کام کیلئے کام کرنیوالے کو مٹھائی کے پیسے دیا کرتے۔

اسی مٹھائی کو کھاتے کھاتے کئی لوگ بدہضمی کا شکار ہوئے،'' اور سے زیادہ اور'' کی لالچ میں ایسی ڈگر پر چل نکلے کہ اب مہنگائی اوراپنی ایک نا ختم ہونیوالی پیٹ کی آگ کو بجھانے کیلئے نوٹوں کا سہارا ہی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور اس مٹھائی کے نام پر ناجائز کمائی سے کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کرتے۔ بلکہ کھلے عام مٹھائی طلب کرتے ہیں اور پھر اس کو جمع کرتے کرتے پورے دن کے آخر پر اسی ڈیپارٹمنٹ میں موجود دوسرے کام کرنیوالوں میں برابر برابر تقسیم بھی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، کیونکہ اس ناجائز کمائی کے'' تلاب میں سب ننگے ہیں'' کے مصدق پر عمل پیرا ہیں،اور اس تلاب میں بھرپور ڈبکیاں لگاتے اس معاشرے کو کوئی فکر نہیں کہ اس قسم کی تمام حرکات پر ملک کی عزت و وقار کو کیا فرق پڑ رہا ہے، وہ تو اپنے ذہن میں یہی سوچتے دکھائی دیتے ہیں کہ آج کی دیہاڑی لگی کہ نہیں۔

چھوٹے عہدوں پر کام کرنیوالے افراد کے حصے میں تو اتنا ہی مٹھائی کا حصہ آتا ہے جتنا وہ ایک روز میں ہی کھائی پی جاتے ہیں اور پھر اگلی صبح ایک نئے جوش و جذبے سے جاگتے ہیں اور اپنے نئے دن کی دیہاڑی کے چکر میں گھر سے نکل پڑتے ہیں لیکن بڑے بڑے سیاست دان اور بیورو کریٹس کی دیہاڑیاں بھی بڑی بڑی ہوتی ہیں جو لمبے لمبے ہاتھ مارتے ہوئے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے جا رہے ہیں اور کوئی بھی ان کو پوچھنے والا نہیں۔

اس ساری کرپشن کی کہانی کو جتنا بھی سوچتے اور لکھتے جاؤ ، یہ ختم ہونے والا نہیں کیونکہ اسکرپشن کی کتاب کے کسی بھی ورق کو پلٹو اس میں کرپشن اور لوٹ مار کی ایک سے ایک نئی غضب کہانی چھپی ہے۔پیارے پاکستان کی 74 ویں سالگرہ کے موقع پر جناب اشفاق احمد بابا جی کی ایک کتاب زاویہ میں حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے سبق آموز واقعہ کا مفہوم اپنے الفاظ میں لکھنا چاہ رہا تھا،اسے ضرور پڑھیں اور پاکستان کی قدر کریں۔


موجودہ عہد کے نہایت معتبر ملک اردن میں قبل مسیح اور جہالت کے دور میں ایک ثمود نامی قوم آباد تھی جو اس دور کی بہت ترقی یافتہ اور امیر قوم تھی، انہوں نے اپنے علاقوں میں موجود پتھریلے اور چٹیل پہاڑوں کو ہتھوڑوں اورآہنی اوزاروں کی مدد سے کاٹ کاٹ کر بہترین محل تعمیر کئے، اس تعمیر میں انہوں نے بڑے بڑے بت بھی تراشے جن کی وہ قوم پوجا کیا کرتے اور بے شمار دولت کی ریل پیل نے ان کواس قدر تکبر میں مبتلا کر دیا کہ وہ قوم بگڑتے بگڑتے بے راہ ہو گئی۔

ا س پر اللہ تعالٰی نے حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر مقرر کرتے ہوئے ان کو اس قوم کی اصلاح کیلئے بھیجا۔ جب حضرت صالح علیہ السلام ان غرور و تکبر میں ناک ناک ڈوبی قوم کے پاس گئے اور اللہ کا پیغام پہنچانا چاہا تو پہلے تو وہ مکمل طور پر انکاری ہو گئے اوراس کا جواز یہ پیش کیا کہ تم پتہ نہیں کہاں سے آ گئے ہو ، نا تم ہماری طرح امیر و کبیر ہو اور نا تمہارا لباس ہمارے علاقے کی شان و شوکت کے مطابق امیرانہ ہے، تم تو ایک عام آدمی دکھتے ہو۔

ہم کیسے مان لیں کہ تمہیں اللہ نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، ہماری ایک شرط ہے کہ کوئی معجزہ کرکے دکھاؤ تو پھرہم سوچ سکتے ہیں کہ شائد تمہیں اللہ نے ہی بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہیں کیا معجزہ دیکھنا ہے، آپ لوگ خود ہی فیصلہ کر کے بتاؤ، لیکن اتنا خیال رکھنا کہ اگراللہ کے فضل سے میں نے وہ معجزہ کرکے دکھا دیا تو تم کو ہر صورت اللہ تعالٰی پر ایمان لانا پڑے گا، اور اگر تم نے معجزہ دیکھنے کے بعد بھی اللہ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا تو اللہ تعالٰی تم پر اپنا عذاب لائے گا، جس سے تم نیست و نابود ہو جاؤ گے۔

انہوں نے اس پر اقرار کرتے ہوئے حضرت صالح علیہ السلام سے کہا کہ آپ سامنے پہاڑ سے ایسا کرشمہ کر کے دکھائیں کہ وہاں سے ایک اعلٰی نسل کی اونٹنی پیدا ہو اور ہمارے قبیلے میں اترے اور یہاں ہمارے گاؤں میں رہے،ان جاہل سرداروں نے سوچا کہ سامنے پتھریلے پہاڑ پر نا تو کوئی ہریالی ہے اور نا آبادی یہ اونٹنی کہاں سے آئیگی۔ چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی کہ یا اللہ اس قوم کو راہ راست پر لانے کیلئے معجزہ دکھانے کی ضرورت ہے۔

میرے اللہ سامنے پہاڑ سے ایک اعلٰی نسل کی اونٹنی بھیج دے تاکہ یہ تجھ پر ایمان لے آئیں۔ اللہ کا کرنا ایسا ہی ہوا اور ایک اعلٰی نسل کی اونٹنی برآمد ہو گئی اور اس نے ثمود قوم کے قبیلے میں اپنا قیام کیا۔ حضرت صالح علیہ السلام نے قبیلہ کے سردار سے کہا کہ یہ اونٹنی آج سے اس قبیلے میں اللہ تعالٰی کی جانب سے بھیجی جانیوالی مہمان کے طور پر رہے گی لہٰذا اسے کسی قسم کی تکلیف نا ہو۔

قبیلے میں موجود جو پانی کا کنواں ہے اس کنویں سے جس روز اونٹنی پانی پئے گی تو اس پورے دن قبیلے کا کوئی دوسرا بندہ یا عورت حتیٰ کہ جانور بھی پانی نہیں پی سکے گا۔ قبیلے کے سردار نے حامی بھر لی اور ایسے ہی ہوا کہ جس روز اونٹنی پانی پیتی تو کوئی دوسرا جاندار پانی نہیں پی سکتا تھا، لیکن کچھ ہفتوں میں ہی اسی قبیلے کے ایک شخص پر شیطان نے اپنا وار کیا اور اسے اکسایا کہ پانی پینا چاہئے، اس اکسانے کے خیال نے اسے مجبور کیا کہ قبیلے کے دوسرے شخص کو بھی اپنے ساتھ ملائے اور اس شیطانی سازش میں شامل ہوتے ہوتے پورے قبیلے کے کئی دوسرے لوگ شامل ہو گئے اور اللہ تعالٰی کی بھیجی ہوئی مہمان اونٹنی کی بے ادبی کرتے ہوئے اللہ تعالٰی کے حکم سے انکاری ہو گئے۔

ان بے ہدایت لوگوں نے اس اونٹنی کی ٹانگیں ہی کاٹ ڈالیں تاکہ یہ اگلے روز پانی کے کنویں پر ہی نا جا سکے۔اس بے ادبی پر حضرت صالح علی السلام نے بستی والوں سے فرمایا کہ آپ نے اللہ کی مہمان اونٹنی کا احترام نہیں کیا اس پر اب اللہ تمہارے قبیلے پر تین روز کے اندر اندر عذاب نازل فرمائے گا، اور وہاں سے چلے گئے، اگلے روز اس بستی کے سارے لوگوں کے ہونٹ نیلے ہوئے اور اس سے اگلے ہی دن ان کے چہرے سرخ ہو گئے اور آخر میں سارا جسم کالا ہو گیا اور باری باری ساری قوم منہ کے بل جاگری اور اس عذاب الہٰی سے کوئی بھی نا بچ سکا کیونکہ اس قوم نے اللہ تعالٰی کی طرف سے بھیجی جانیوالی مہمان اونٹنی کا عزت و احترام نہیں کیا۔

اب اس قوم کے محل اور بت اردن میں موجود تو ہیں لیکن ثمود قوم کا نام لیوا کوئی نہیں ۔ اسی تحریر کو جاری رکھتے ہوئے بابا جی اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ یہ پاکستان بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے حضرت صالح کی اونٹنی کی طرح ہمیں معجزہ و تحفہ کے طور27 رمضان شب قدر پر دیا گیا ہے جس کی قدر کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ ہم پاکستانی اس وقت بہت بے خیال ہو گئے ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والے اسے نوچ نوچ کر کھاتے رہے ہیں اور کھا رہے ہیں۔

یہ پاکستان جغرافیائی حقیقت نہیں بلکہ ایک معجزہ کے طور پر اللہ تعالٰی نے جیسے قوم ثمود پر اونٹنی کی شکل میں پیدا کیا تھا اور وہ قوم اسے عزت و احترام سے قاصر رہی جس کے بدلے میں اللہ تعالٰی نے اسے عذاب سے دوچار کیا۔ اگر ہم لوگ پاکستان کو حضرت صالح کی اونٹنی سمجھنا چھوڑ دیں گے تو خدا نخواستہ نا ہم رہیں گے، نا ہماری یادیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک پاکستانیوں نے قوم ثمود کی طرح اس معجزہ کے ساتھ وہی رویہ روا رکھا ہوا ہے جو اس قوم نے اونٹنی کے ساتھ کیا تھا۔

ساوتھ ایسٹ ایشیا اور دوسرے دنیا بھر کے ممالک یہ سمجھنا چھوڑ دیں کہ پاکستان صرف ایک چھوٹا سا، معمولی سا جغرافیائی ملک ہے، یہ تو حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی طرح اللہ تعالٰی کا عطا کردہ تحفہ ہے۔اس کا ادب و احترام ہم سب پر واجب ہے۔ جس جس نے بھی اس ملک کو نوچا ہے اسے وہ لوٹا ہوا سارا مال واپس دینے کا وقت آ چکا ہے۔ اب تک پاکستانیوں سے جو جو کوتاہیاں ہوئی ہیں اس کی اللہ کے حضور معافی مانگتے رہو۔

یاد رکھئے ۔۔! جو بھی سیاست دان یا بے ادب و ناہنجار قسم کا بندہ پاکستان کے خلاف غلط باتیں کرتا ہوا دیکھیں یا قائد اعظم محمد علی جناح جیسی عظیم شخصیت میں کیڑے نکالتا ہوا دیکھیں تویقین کر لیں اس کی بہت جلد پکڑ ہونیولی ہے، اس کی شخصیت کو غور سے دیکھئے گا تو وہ بندہ لازمی لینے والوں میں سے ہو گا، دینے والوں میں سے نہیں ہو گا۔ میرے محب وطن پاکستانیوں شاد رہو آباد رہو ۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :