دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے'عادل' میں ہے

اتوار 18 اکتوبر 2020

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

سول بالادستی بمقابلہ عسکری بالا دستی کی کشمکش اک نئے موڑ پہ اس وقت پہنچی کہ جب نواز شریف نے کل کی تقریر میں اخیر کردی اور وہ سب کچھ کہ ڈالا کہ جس کے نتیجے میں اب وہ یا تو نئے طیب اردگان بن کے ابھرں گے یا ساری عمر لندن میں بیٹھے رہنے پہ مجبور کردیئے جائینگے ۔۔۔ واپس تو وہ اب اس لئے نہیں لائے جاسکتے کے گوجرانوالہ جلسے کے بعد  انہیں برطانیہ میں سیاسی پناہ پانے کا بہت مضبوط جواز میسر آجائے گا-   پیمرا کی عائد کردہ پابندی کے باعث انکی مذکرہ تقریر کسی ٹی وی چینل سے تو نشر نہیں کی جاسکی تاہم  ڈیجیٹل میڈیا اور نیٹ کی موجودگی میں یہ تقریر موبائلوں پہ اور کمپیوٹروں پہ دیکھے جانے سے نہیں روکی جاسکی- یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ آج کے قومی اخبارات میں سابق وزیراعظم کی گوجرانوالہ جلسے میں کی گئی تقریر کے بھی محض چند حصے ہی رپورٹ کئے گئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں آزادی صحافت کی حیثیت ایک نعرے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔

(جاری ہے)

۔۔۔  افسوسناک امریہ ہے کہ میڈیا نے ایک یہی نہیں کئی معاملات میں موجودہ حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور اپنے فرائض کو محض اپنے مالی مفادات کے تحفظ کی کوششوں تک محدود کرنے پہ ہی اکتفاء کرلیا ہے اور یوں از خود ہی آزادیٰ صحافت کو ایک تہمت میں بدل ڈالا ہے
حسب توقع اس بار گوجرانوالہ جلسے کی تقریر میں نواز شریف اور بھی زیادہ کھلے اور پہلی بار آرمی چیف جنرل باجوہ کا نام لے کر ان پہ خوب برسے اور ان پہ کئی سنگین الزامات لگائے اور عمرن خان کو لانے اور اسکے بعد ہونے والی بیڈ گؤرننس اور موجودہ بدترین مہنگائی کا ذمہ دار انہی کو قرار دیا - اپنی اس تقریر میں انہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو بھی نام لے کے لتاڑا اور اس صورتحال کی ذمہ داری میں انہیں بھی شریک ٹہرایا-  یاد رہے یہ وہی موصوف ہیں کہ جنہوں نے نہایت حیرت انگیز طور پہ اس وقت پنجاب رینجرز کے سربراہ کی حیثیت میں نومبر 2017 میں تحریک لبیک کا فیض آباد دھرنا ختم ہوتے وقت وہاں وردی میں پہنچکر مجمع میں رقوم کے لفافے کھلے عام تقسیم کئے تھےاور جس سے دنیا بھر میں پاکستان کے جمہوری نظام کی حیثیت اور امیج بری طرح مسخ ہوا تھا- اس معاملے پہ گزشتہ برس چھ فروری کوجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سرکردگی میں  سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے   اس  دھرنے میں رقوم کی تقسیم کا نوٹس لیتے ہوئے اس کے خلاف سو موٹو کیس کا وہ فیصلہ سنایا تھا کہ جس نے عسکری قیادت کو ہلا کے رکھ دیا تھا مگر ملک کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے دیئے گئے فیصلے پہ عملدرآمد تو کجا الٹا یہ فیصلہ دینے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی کے خلاف الزامات کے طومار سے لبریزایک ریفرنس بعجلت تمام دائر کرکے انہیں رسوا کرکے اپنے منصب سے ہٹا پھینکنے کی کاوشیں منظر عام پہ آگئیں
فروری 2019 میں دیئے گئے محولہ بالا فیصلے میں عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف وزری کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

اور اسکے علاہ عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔ مزید برآں عدالت نے آرمی چیف، اور بحری اور فضائی افواج کے سربراہان کو وزارتِ دفاع کے توسط سے حکم دیا تھا کہ وہ فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔

کیونکہ 'پاکستان کا آئین مسلح افواج کے ارکان کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں بشمول کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت سے روکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان وزارتِ دفاع اور افواج کے متعلقہ سربراہان کے ذریعے ان افراد کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے'۔  سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا کہا گیا تھاکہ'تمام خفیہ اداروں بشمول (آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی) اور پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کو اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ اظہار رائے کی آزادی کو سلب کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں (چینلز اور اخبارات) کی نشرواشاعت اور ترسیل میں مداخلت کا اختیار ہے'۔

فیصلے میں یہ بھی واضح طور پہ لکھا گیا کہ حکومت یا کوئی بھی خفیہ ادارہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتا۔
سپریم کورٹ کا یہ فصلہ درحقیقت سول بالادستی کا نقیب ہے اور گو کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور حکمران اتحاد میں شامل ایم کیو ایم اور عوامی مسلم لیگ کی جانب سے عدالت میں نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئی ہیں مگر اکثر ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا کہ سپریم کورٹ فیض آباد دھرنے کے خلاف مقدمے میں دیا گیا اپنا فیصلہ تبدیل کرے کیونکہ ماہرین قانون کے مطابق عدالتی تاریخ میں  زیادہ امکانات اس بات کے ہوتے ہیں کہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ واپس نہ لے یا اس میں ترمیم نہ کرے کیونکہ نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت بھی اسی بینچ نے کرنا ہوتی ہے جس سے فیصلہ دیا ہوتا ہے۔

اوربظاہر بلکہ یقینناً اسی لیئے یہ اپیل کنندگان اس کا جلد فیصلہ کرانے کے لیئے ہرگز بیتاب نہیں کم ازکم قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کوئی اقدام ہوجانے تک یا انکی ریٹائرمنٹ تک ۔۔۔ گو کہ نظرثانی کی اس اپیل میں ججوں کے قوائد وضوابط کا حوالہ دیتے ہوئے یہ جو کہا گیا ہے کہ فیض آباد دھرنے کا فیصلہ لکھنے والے جج سپریم کورٹ کے جج برقرار رہنے کے اہل نہیں رہے تو اس حربے کا خاص مقصد بھی یہی ہے کہ فیصلہ دینے والے بینچ کو اس پہ نظرثانی سے الگ ہٹایا جاسکے مگر اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ عدالت انکی خواہش پہ اپنی دیرینہ و مستحکم روایت کو ترک کردے
اس اپیل کے حوالے سے چند اور پہلو بھی لائق تؤجہ ہیں مثلاً یہ کہ ماہر قانون اور سابق فوجی افسر کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ حکمراں جماعت کے رہنماؤں کے علاوہ دیگر سیاست دانوں نے تو اپنی ساکھ بچانے کے لیے نظرثانی کی اپیل دائر کردی ہے لیکن فوج کی طرف سے اس عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر نہیں کی گئی۔

اُنھوں نے کہا کہ دھرنے سے متعلق عدالتی فیصلے میں وزارت دفاع اور فوج کے سربراہ سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاست میں حصہ لیا ہے۔ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ پوری قوم کی نظریں فیض آباد دھرنے اور اصغر خان کیس پر لگی ہوئی ہیں کہ کس طرح طاقتور حلقوں کے بارے میں عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

  ساری چیزیں ریکارڈ پر ہیں کہ فیض آباد دھرنے میں کسی شخص یا ادارے کا کیا کردار رہا ہے۔ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ فوج سے ریٹائر ہونے والے افسران کی نتظیم بھی اس بات کی منتظر ہے کہ کب ان دونوں مقدمات کے بارے میں عدالت عظمی کے فیصلے پر عمل درآمد ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات یقینی ہے کہ گوجرانوالہ کے جلسے میں کی کئی تقریر میں نواز شریف کا لہجہ رنگ لائے گا اور اس واضح خدشے کے پیش نظر کہ اس پوری سیاسی تحریک میں انکا یہ لب و لہجہ اور شدت اختیار کرسکتا ہے ، سیاسی حکومت اور عسکری قیادت دونوں ہی کچھ نہ کچھ مزید سخت اقدامات کرینگے ۔

۔ نواز شریف اور اورانکی صاحبزادی مریم نے جس طرح ریٹائرڈجنرل عاصم سلیم باجوہ کو نشانے پہ لے لیا ہے وہ بلا وجہ ہرگز نہیں ،، اس سے صاف ظاہر ہے کہ سول بالادستی کی اس جنگ میں جاری اعصابی کشمکش میں انہیں اک ٹیسٹ کیس بنایا گیا ہے اور اگر وہ  وزیراعظم کے معاون خصوصی کے منصب سے دستبرداری کے بعد اب سی پیک اتھارٹی کی چیئرمینی سے بھی دستکش ہوگئے تو صورتحال بڑی تیزی سے بدلنا شروع ہوجائے گی اور نواز شریف کا بیانیہ ناقابل مزاحمت حد تک طاقتور ہوسکتا ہے - لیکن ایک پہلو یہ بھی غور کرنے لائق ہے کہ گوجرانوالہ جلسے میں نوز شریف کے آتشین بیانیئے میں کھل کر انکی صاحبزادی مریم کے سوا کسی اور رہنماء نے انکا ساتھ نہیں دیا بلکہ محض روایتی اور رعایتی سا لب و لہجہ اپنانے تک محدود رہےاور اس طرز عمل مں اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ اگر انہیں من پسند آفر مل جائے تو وہ یکایک نواز شریف کو بائیں کا انڈیکیٹر دے کر بائیں سمت بھی مڑسکتے ہیں - اسی خدشے کو بھانپ کر قوی گمان یہ ہےکہ اب نواز شریف فیض آباد دھرنے کے فیصلے پہ عملدرآمد پہ شدت سے اصرار کرنا شروع کردینگے کیونکہ یہ فیصلہ تو ملک کی سب سے بڑی عدلت کا دیا ہوا ہے اور اسے یکسر مسترد یا  دائم نظرانداز کرنا کسی طرح بھی اور قطعی ممکن نہیں اور اسی فیصلے سے سول بالادستی کے بھولے بسرے خواب کو اپنی تعبیر مل سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :