
جماعت اسلامی والوں سے معذرت مگر کچھ جراحت بھی ضروری ہے
جمعہ 26 مارچ 2021

سید عارف مصطفیٰ
(جاری ہے)
مجھے امید ہے کہ جماعت اسلامی اپنی سست رو تردید کی اس درجہ سستی سے اجراء کی وجہ سے بالضرور آگاہ کرنا پسند کرے گی کا جواب ضرور دے گی کیونکہ اس سے یہ شک بھی کیا جاسکتا ہے کہ جماعت جان بوجھ کے اس اقدام سے گریزاں اس لیئے رہی کیونکہ کافی دیر اس تذبذب میں رہی کہ کہیں اس سے پیپلز پارٹی ناراض نہ ہوجائے - ایک سوال اسی نسبت سے یہ بھی کرنا چاہتا ہوں کہ بلاول اورسراج ملاقات کی خبر دیتے ہوئے ایک نہیں کئی اخبارات میں یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ جماعت نے بلاول کے منانے پہ اپوزیشن لیڈر کی سیٹ کے لئے مریم کے مقابلے میں یوسف رضاء گیلانی کو ووٹ دینے کی حامی بھرلی ہے اور تاحال اس خبر کی کہیں سے بھی تردید نہیں آئی ہے۔۔۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ اقدام بھی اتنا ہی افسوسناک ہے کہ جتنی جعلی کلپ کی خبر ۔۔۔ اس سے جہاں سراج الحق ایک طرف وہ چھوٹی برائی کے مقابلے میں بڑی برائی کو ترجیح دے رہے ہیں وہیں یہ حقیقت بھی نظرانداز بھی کررہے ہیں کہ گیلانی اپنی بدعملی کے باعث سپریم کورٹ سے سزا یافتہ مجرم ہے اور یہی وہ شخص ہے کہ جسکی وزارت عظمیٰ کے دور میں اس نے اور اسکے بیٹوں نے قومی خزانے کو شیرمادر کی مانند ڈکارا تھا
یہاں ایک نظر جماعت کے ووٹ کی مبینہ حمایت پانے والے یوسف رضاگیلانی کے کارناموں پہ ڈال لینا مناسب ہے- ان حضرت نے اپنے دور میں سنت زرداری پہ عمل کرتے ہوئے اپنے بدعنوان بیٹوں کے ساتھ ملکر اس ملک کو اپنی مالی چراگاہ بنا ڈالا تھا -کون بھول سکتا ہے کہ ملک کے اٹھارویں وزیراعظم کے طور پر پہ چار برس اور ایک ماہ تک چلنے والے اپنے دور میں ہوئے رسوائے زمانہ حج کرپشن اسکینڈل کو جس میں اسکے لگائے ہوئے ٹاؤٹوں نے حاجیوں کو تک کو نہیں چھوڑا تھا اور جی بھر کے لوٹا تھا ،اسی کے دور میں انکے بیٹے کے ایک دوست زین سکھیر نامی انٹر پاس کو آئی ٹی آپریشنز جیسے اہم ادارے کا سربراہ لگا دیا تھا جس میں اس نے اربوں روپے لوٹ کھائے تھے ۔۔۔ اور اسی طرح انٹر پاس توقیر صادق کو آئل اینڈ گیس کارپوریشن ( اوگرا) اس کا چیئرمین تعینات کیا تھا جس نے تھوڑی سی مدت میں قومی خزانے کو کم از کم 12 ارب روپے کا چونا لگا دیا تھا - جی ہاں گیلانی ہی وہ شخص ہے جسکے دور میں وزیر تجارت امین فہیم کی سفارش پہ نیشنل انشورنس کارپوریشن کے چیئرمین کےعہدے پہ دبئی کے ایک نائٹ کلب کے مینیجر اکمل نیازی کو جو ایک انٹر پاس شخص فرد تھا اسے اس اہم کارپوریشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا جہاں اس نے آتے ہی اربوں روپے ڈکار لئے تھے
خود گیلانی صحاحب پہ یہ الزام ہے کہ انہوں نے طالبان سے مالی نوعیت کی ڈیل کرکے انہیں کروڑوں روپے کا چونا لگا دیا تھا جسکی پاداش میں اس کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کو اغواء کرلیا گیا تھا اور پھر بہت کچھ دے دلا کے اسے رہائی مل پائی تھی - یہی وہ ملعون حضرت ہیں کہ جنکے دور میں سنہ 2010میںسندھ میں بدترین سیلاب آیا اور ترکی کی وزیراعظم تانسو چلر نے اپنا بیش قیمت ہار بطور امداد حکومت کو بھیجا تو موصوف اسے گھر لے گئے اوراپنی بیگم فوزیہ گیلانی کو بطور تحفہ دے ڈالا اور جب انکی حکومت کے ختم ہونے کے کئی برس بعد اس ضمن میں انکشاف ہوا اور تحقیقات ہوئیں تو یہ چوری شدہ ہار برآمد ہوسکا - اسی طرح ریکارڈ کے مطابق یہ گیلانی ہی ملک کا وہ واحد وزیراعظم ہے کہ جس نے مسند سنبھالتے ہی ملتان میں اپنی ذاتی وسیع و عریض رہائش گاہ کے گرد سرکاری خزانے کے 10 کروڑ روپوں سے بہت بڑی مستحکم قلعہ بند قسم کی دیوار بنوائی تھی جس کی مالیت کا تخمینہ آج 30 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے
گیلانی کے اس پس منظر کی روشنی میں مجھے اور مجھ جیسے وطن عزیز کے نظریاتی محافظوں کو آخر کیوں یہ دکھ نہیں ہوگا کہ جماعت نے اسی بدعنوان گیلانی کی حمایت میں اپنے ووٹ کا فیصلہ کن وزن ڈالنے کا ارادہ کرلیا ہے جس کی خبر کئی اخبارات میں موجود ہے ۔۔۔ آخر کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ۔۔۔۔
اس اعلان سے پہلے سینیٹ میں چیئرمین کے الیکشن کے موقع پہ سراج الحق نے کسی فریق کو ووٹ نہ دینے اور غیرجانبدار رہنے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ بہت احسن تھا اور میرا دل چاہ رہا تھا اسکی تحسین کروں مگر میرا دماغ یہ کہ رہا تھا کہ چونکہ یہ معاملہ ایک ووٹ پہ منتج نہیں ہونا لہٰذا انکے اس ایک ووٹ کی زیادہ اہمیت نہیں ، بلکہ اصل اہمیت تو اپوزیشن لیڈر کے انتخاب مرحلے کی ہوگی کہ جب معلوم شدہ حقائق کی رو سے جماعت کو چھوڑ کردونوں فریقوں کے پاس ووٹوں کی تعداد مساوی ہوگی کیونکہ یہ انتخاب کھلے عام اور شو آف ہینڈز کے تحت ہونا ہے اور ایسے میں جماعت کا ووٹ فیصلہ کن ہوگا اور مجھے پورا خدشہ تھا کہ حسب روایت اہمفیصلوں کی صلاحٰت سے عاری امیر جماعت یہاں بھرپور ٹھوکر کھائینگے اور اس اعلان نے یہی ثابت بھی کیا ۔۔
چونکہ یہ تحریر طویل ہورہی ہے چنانچہ سراج الحق کے فیصلوں، جماعت کے ساتھ اپنے ماضی و حال کے رویئے اور تعلق اور متعلقہ امور پہ انشاء اللہ پھر دوسری تحریر بات ہوگی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید عارف مصطفیٰ کے کالمز
-
بعضے کتے تو بہت ہی کتے ہوتے ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ان کی مرتی سیاست کو پھر لاشوں اور تماشوںکی ضروت ہے۔۔۔
جمعہ 28 جنوری 2022
-
تازہ تمسخر آمیز صورتحال اور شرمیلا فاروقی کے شکوے۔۔۔
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
تازہ تمسخر آمیز صورتحال اور شرمیلا فاروقی کے شکوے۔۔۔
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
عدالت نے کیا پہلے درگزر نہیں دکھائی جو اب نہیں دکھاسکتی ۔۔۔؟؟
پیر 10 جنوری 2022
-
بجی ہیں خطرے کی گھنٹیاں نون لیگ سے زیادہ پی ٹی آئی کے لئے
بدھ 8 دسمبر 2021
-
لؤ جہاد بمقابلہ لؤ کرکٹ جہاد ۔۔۔۔
جمعہ 5 نومبر 2021
-
عمر شریف چلے گئے، جائے استاد خالی است
منگل 5 اکتوبر 2021
سید عارف مصطفیٰ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.