آپ کرونا سے چھپ نہیں سکتے۔۔۔

بدھ 18 مارچ 2020

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

سندھ کے صوبائی وزیر کے مطابق انہوں نے کرونا کے مریضوں کو ڈھونڈ کے ان کے گھروں سے نکالا۔ یہ ایک المیہ ہے۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جس کے اختتام پہ تباہی ہماری منتظر ہو گی۔
یاد رکھیے۔ آپ کرونا سے چھپ نہیں سکتے۔ اللہ نا کرئے کوئی اس وائرس کا شکار ہو جائے تو آپ کے پاس کوئی صورت نہیں کہ آپ اس سے چھپ سکیں۔ آپ جتنا دیر کریں گے نہ صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈالیں گے بلکہ دوسروں کی زندگیاں بھی داؤ پہ لگا دیں گے۔

جس فرد کو اس وائرس نے گھیر لیا ہے وہ خود کو بچانے کے چکر میں نا جانے کتنی زندگیوں کے چراغ گل کرنے کا سبب بن سکتا ہے اور دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستان اس وقت شرح اموات کے حوالے سے کم و بیش صفر ریٹنگ پہ ہے۔ اور یہاں تو دو مریض صحتیاب ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

امریکہ، برطانیہ، اٹلی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں اموات ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے لیے مشکل حالات صرف اس وجہ سے ہیں کہ یہاں ڈیٹا کا فقدان ہے۔

کچھ معلوم نہیں کتنے مریض ہیں اور کہاں کہاں ہیں۔ آپ اندازہ لگائیے کہ سندھ حکومت چیختی رہی کہ تفتان میں جتنے زائرین ہیں سندھ کے انہیں فوری سندھ روانہ کیا جائے۔ دعویٰ یہ تھا کہ تفتان بارڈر پہ قرنطینہ قائم کر دیا گیا ہے۔ اور اطلاعات یہ تھیں کہ وہاں زائرین کو رکھا گیا ہے۔ درمیان میں زائرین کی کچھ مشکلات پہ مبنی ویڈیوز زیر گردش رہیں ۔

سکھر پہنچتے ہی جب ان زائرین کا ٹیسٹ کیا گیا تو تیرہ افراد میں اس خطرناک وائرس کی تصدیق ہوئی اور آخری خبریں موصول ہونے تک تفتان سے آنے والے زائرین کی نصف تعداد کرونا وائرس کا شکار نکلی۔ آپ دیکھیے کہ ہم کیسے باتوں سے کامیابی کے مینار بنا دیتے ہیں۔ ہم نے کئی دن اس بات کا واویلا مچائے رکھا کہ کوئی مسلہ نہیں ہے اور بارڈر بند کرنے کے ساتھ واپس پہنچنے والے زائرین کو بھی قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔

لیکن سب دعوے ہی رہے۔ عرض تھی کہ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے آپ نے وہاں اگر حالات سے نظریں چرائیں تو ایک المیہ آپ کا منتظر ہو گا۔ کسی کے کان پہ جوں نہ رینگی اور حالات آپ کے سامنے ہیں۔
ہم ایسا کبوتر ہیں جو بلی کو آتا دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور تصور کر لیتا ہے کہ وہ محفوظ ہے۔ ہم نے سوچا سندھ حکومت کے ذمے ہے وہی کرئے۔ وفاقی حکومت کا کردار اس حوالے سے دیکھیے کہ ابھی تک نہ وزیر اعظم عوام کے سامنے آئے اور قومی سلامتی کونسل کا اجلاس کب بلایا گیا اس کی تاریخ بھی ملاحظہ کر لیجیے۔

وفاق کو مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن سندھ حکومت واویلا مچاتی رہی کہ وفاق مدد نہیں کر رہا۔ ہم ستو پی کے سوتے رہے کہ سب اچھا ہے۔ ہمارے کان کیوں کہ سب اچھا ہے سننے کے ہی عادی ہیں اس لیے ہم نے توجہ نہ دی۔ اور نتیجتاً پاکستان میں کرونا مریض سینکڑوں میں سامنے آ چکے ہیں۔ آپ ستم ظریقی دیکھیے کہ سندھ حکومت اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنا شروع ہوئی اور خوبی سے کردار نبھانا شروع ہو گئی۔

ایک عالمی وباء ہے جس سے کوئی ملک اکیلے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اسے ہم نے ایک صوبے کے کندھوں پہ چھوڑ دیا۔ یہ تو بھلا ہو مراد علی شاہ کا وہ سنجیدگی دکھا گئے۔ ورنہ اندازہ لگائیے کہ بحران کس نہج پہ آج ہوتا۔ ہم نے نا صرف تفتان بارڈر پہ معاملات کو بہتر انداز میں نہیں سلجھایا بلکہ ہم ائیرپورٹس پہ اقدامات کے حوالے سے بھی تاخیر کا شکار ہوئے۔

سندھ حکومت کہتی رہی کہ ائیرپورٹ پہ قرنطینہ بنانا وفاقی حکومت کا کام ہے کہ ائیرپورٹ وفاق کے زیر انتظام ہیں لیکن پوائنٹ سکورنگ سے آگے کچھ نہ ہو سکا۔ دنیا کے دیگر ممالک میں ہم نے دیکھا کہ لاک ڈاؤن ہوا۔ لوگوں کو گھروں تک محدود کر دیا گیا۔ حالات بدترین ہونا شروع ہو گئے۔ اس حوالے سے اللہ نہ کرئے کہ ہمارے ہاں لاک ڈاؤن کی سی صورت حال پیدا ہو گئی تو کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ پاکستانیوں کو گھروں میں کھانے پینے کی اشیاء فراہم کر سکیں۔

ہم گلہ عوام سے کرتے ہیں کہ وہ تعاون نہیں کر رہے۔ لیکن ہم نا جانے کیوں خود کو کرونا وائرس سے بندھ کبوتر کی طرح ڈیل کر رہے ہوں۔ جہاں جہاں قرنطینہ بنانے یا آئیسولیشن وارڈ کی نوید سنائی گئی وہاں وہاں کے حالات بھی رپورٹس سے سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ مریض بھاگ جاتے ہیں۔ تفتان پہ زائرین احتجاج کر کے مرکزی شاہراہ بند کر دیتے ہیں۔ اور ہم ٹوئیٹر پہ تعداد بتا رہے ہیں۔

جب چین میں وباء نے پوری طرح پنجے گاڑھ لیے تھے تو ہم نے اس بیماری کے ہمسائے کا کردار ادا کرتے ہوئے کیا ہنگامی اقدامات کیے؟ ہم مجموعی طور پر بے حسی کی ایسی چادر اوڑھ لیتے ہیں کہ جب تک سر پہ نہ پڑھ جائے تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ چین میں حالات معمول پہ آ رہے ہیں لیکن ابھی وباء پوری طرح ختم نہیں ہوئی لیکن صدر ووہان جیسے وباء کے مرکز شہر میں پہنچ جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں ہمارے وفاقی و صوبائی سربراہان سوائے مراد علی شاہ کے کتنے دورے ہسپتالوں کے کر چکے ہیں؟ کتنے ایسے لیڈر ہیں جو قرنطینہ کے انتظامات بنفس نفیس جا کے ملاحظہ کر چکے ہیں؟ خدارا کچھ عقل سے کام لیجیے اور خود کو کبوتر نہ سمجھیے۔ بلی تو اپنے پنجوں سے آپ کو چیرنے پھاڑنے کو سر پہ کھڑی ہے۔ معاشرے کا ہر طبقہ لطیفے بنانے میں مصروف ہو گیا لیکن حقیقی معنوں میں اس وباء کی طرف متوجہ نہ ہوا۔

اور جب معلوم ہوا کہ یہ تو سچ ہے کہ دنیا نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں تو پھر بھاگ دوڑ شروع ہوئی۔ خدا جانے نئے اور پرانے پاکستان میں فرق کیا تھا کہ اس وباء کے دوران بھی ہسپتالوں میں انتظامات کی قلعی کھلنا شروع ہو گئی ہے۔ اداروں کے درمیان فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ دیہات تو دور شہروں میں بھی معاملات کنٹرول میں نہیں آ رہے۔ دفعہ 144 نافذ تو کر دی لیکن ہمارے پاس اتنی اتھارٹی نہیں یا ہم اتھارٹی استعمال نہیں کرنا چاہتے کہ لوگ گھروں میں، گلیوں میں، دھڑا دھڑ اجتماعات کر رہے ہیں۔

ہم عوام کو آگاہی دینے میں ہی ناکام نظر آ رہے ہیں کہ جناب یہ سب آپ کی بہتری کے لیے کر رہے ہیں۔
پاکستانی عوام میں بطور مجموعی نظر انداز کرنے کا رویہ موجود ہے کہ اس وائرس کا شکار مریض بھاگ رہے ہیں۔ انہیں باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کرونا سے شائدعلاج کی مدد سے بچنا ممکن ہو جائے لیکن ایسے بھاگ کے اس سے جان چھڑانا ممکن نہیں ہے۔

وہ اس حقیقت کو سمجھ نہیں رہے کہ وہ قرنطینہ کا انکار کر کے نہ صرف اپنے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں بلکہ اپنے سے جڑے دیگر لوگوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کریں گے اور ملک کے خلاف بھی ان کا ایسا فیصلہ جائے گا۔
حکومت ہوں یا عوام دونوں یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ ہم کرونا سے چھپ جائیں گے۔ حکومت کی آنکھیں ابھی کھلی ہیں جب کہ عوام کی شائد ابھی تک کھل نہیں رہیں۔

ہم دیسی ٹوٹکوں سے اس کا حل ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔ اگر کسی جڑی بوٹی میں اس کا حل موجود ہو تو درخواست ہے کہ اسے چین، جاپان، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی بھی بھیج دیجیے گا کہ وہ بھی ہمارے شکر گزار ہوں گے۔ کاش ایسا ہو جاتا کہ ہم کوئی ایسی چادر اوڑھ سکتے کہ کرونا سے چھپ سکتے اور وہ ہمیں دیکھ نا سکتا۔ کاش بھاگ کے کسی ایسی جگہ پہنچ جاتے کہ جہاں سے ہمیں کرونا دیکھ نہ سکے۔ لیکن ایسا کوئی کاش نہیں ہو رہا اور ہمیں اس وباء کا مقابلہ، عقل و دانش سے ہی کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا حل یا راستہ نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :