مدینے کی ریاست اور کرپٹ عناصر

ہفتہ 31 جولائی 2021

Syed Shakeel Anwer

سید شکیل انور

بُرائی سے بچنے کی تین صورتیں ہیں ‘ آدمی یا تو اَلله تعالیٰ سے ڈرتا ہو یا اُس کا اخلاق بہت آعلیٰ ہو اور تیسری صورت یہ ہے کہ حکمران اپنی آنکھیں ہر وقت کھلی رکھتے ہوں اور مجرموں پر کڑی نظر رکھتے ہوں۔
ایک روز مَیں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہُوا کرپشن کے موضوع پر تبادلہ خیال کر رہا تھا کہ انگلستان سے آنے والے ایک صاحب سے جب مَیں نے پوچھا کہ وہاں کرپشن کیوں نہیں ہے تو وہ مسکراتے ہوے کہنے لگے کہ انگلستان تو دنیا کا سب سے بڑا کرپٹ ملک ہے۔

اُن صاحب کی بات سن کے صرف مَیں ہی نہیں ہنساتھا ‘ وہاں موجود سبھی لوگ قہقہے لگائے تھے ۔اُن صاحب کا استدلال تھا کہ جو ملک کرپشن کرنے والوں کو پناہ دے تو کیا وہ ملک کرپٹ نہیں کہلائے گا۔سوئیڈن سے آئے ہوے ایک صاحب نے فخریہ انداز میں کہا کہ اُن کا ملک جرائم کرنے والوں سے بہت حد تک پاک ہے۔

(جاری ہے)

ان صاحب نے کرپشن نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ بتلائی کہ وہاں کی خفیہ ایجنسیاں عقاب کی نظریں رکھتی ہیں اور وہاں کی پولیس جابجااور چوکس نظر آتی ہے چنانچہ وہاں کے لوگ غلط کام کرنے سے گریزاں رہتے ہیں ۔

پھر وہ مسکراتے ہوے کہنے لگے کہ پاکستان کے لوگ اَلله تعالیٰ سے ڈرتے ہیں جو اُن کی رگوں میں مستور ہے۔
دنیا بھر کے تمام ممالک تین ستونوں پر قائم ہوتے ہیں‘ مقننہ ‘ انتظامیہ اور عدلیہ جس میں عدلیہ کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔خصوصی طَور پر اسلامی عدالتیں نہ تو اِنتظامیہ کی مطیع ہوتی ہیں اَور نہ وہ مقننّہ کی کھینچی ہُوئی لکیروں پر چلتے رہنے کی پابند قرار دی جاسکتی ہیں۔

نظیر اَور نظریہ ضرورت یا نئی تعبیریعنی نظریہ مصلحت پر عملدرآمد کرتے ہُوے عدالت کو یہ دیکھنا لازم ہے کہ اُس کے فیصلوں سے کہیں اِنصاف کا وقار تو مجروح نہیں ہورہا ہے۔ عدالت کو یہ دیکھنا اسد ضروری ہے کہ مقنّننّہ کا بنایا جانے والا قانون اَپنی رُوح کے اِعتبار سے کتنا مُستحکم ہے۔مُنصفینِ عدالت کو یہ اِستحقاق اَزخود حاصل ہے کہ وہ آئین اَور قانون کو اِنصاف کے تابع رکھیں وہ محض اَکثریت کے بَل بُوتے پر بنائے ہُوے اُلٹے سیدھے قوانین کے نگہ نہ بان بن جائیں۔


قائدآعظم محمد علی جناح  نے نوزائیدہ ملک کی عوام سے خطاب کرتے ہوے فرمایا تھا کہ اقتدار کے ایوانوں میں اصولوں سے انحراف اور ملکی اداروں میں بددیانتی اگر ختم نہیں کی جائے گی تو ملک پستی سے نہیں نکل پائے گا۔قائد کے نزدیک رشوت کا لین دین زہر کھانے اور کھلانے کے مترادف تھا۔بڑی صاف بات ہے کہ قائد نے شاید غلط کہا تھااِس لیے ہم آں جناب کے فرامین پر عملدرآمد کرنے کے قائل نہ ہوے۔


قائدآعظم نے کیا کہا تھا اور کیا نہیں کہا تھا‘وہ چونکہ ہمارے درمیان اب موجود نہیں ہیں اِس لیے ہم اُن کی ساری باتوں کو فراموش کیے دیتے ہیں لیکن ہمارا دِین ڈیڑھ ہزار برس سے کہتا چلا آرہا ہے کہ جھوٹ مت بولو‘ کسی کامال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ۔کھانے پینے کی اشیا اور ضروریاتِ زندگی کے سامان میں ملاوٹ نہ کرو۔کسی کو فریب مت دو اور کسی کا دل مت دُکھاؤ ۔

کوئی شخص اگر کبھی تمہاری ذات کے حوالے سے کوئی خطا کر بیٹھے تو تم عفو و درگزر کردیا کرو۔اخلاقِ حسنہ کو اپنی زندگی کا شعار بنالو ۔ہم اِن باتوں کو قصّہ پارینہ سمجھتے ہیں۔
 بعض دنیا دار کہتے ہیں ” عقلمند وہی کہلاتا ہے جو بے وقوف کا مال کھاتا ہے “یا”’ے وقوف جب تک زندہ ہیں عقلمند بھوکا نہیں مرسکتا ہے“۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ بے شمار لوگوں نے اِس شاطرانہ سوچ کو عملی جامہ پہنا رکھا ہے۔

اِسی طرح ’ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ کی منطق کو صحیح تسلیم کرکے کچھ زورآوروں نے کمزوروں کے مال پر قبضہ جما رکھا ہے۔ کوئی کسی کی زمین پر ریچھ بن کر بیٹھ گیا ہے اور کوئی کسی کی نقدی چھین کرہڑپ کرگیا ہے۔ہم سب آدم اور حوا کی ہی اولادیں ہیں تاہم اُونچی اور نیچی ذات کا ڈھونگ رچا کر کوئی چودھری بن بیٹھا ہے ‘ کوئی خان کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے تو کوئی اپنے نام کے ساتھ سردار اور وڈیرا کا لاحقہ لگا کر مسرور دِکھائی دیتا ہے۔


اِسلام عورتوں کو محض مردوں کے دل بہلانے اور پیسہ کمانے کا ذریعہ بنانے کے بجائے انھیں گھر کی زینت بنانا چاہتا ہے ۔صد افسوس کہ یہ حقیت نہ تو مرد تسلیم کرنے کو تیّار ہیں اور نہ عورتیں ہی یقین رکھتی ہیں کہ بناؤ سنگھار کرکے سر راہ پھرنے والی یا شمع محفل بننے والی عورتیں خود بھی جہنم میں جائیں گی اور بد نیّت مردوں کو بھی اسی جہنم کا ایندھن بنائیں گی۔


زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی ہوس نے انسان کو نہ صرف یہ کہ اُسے جائز اور ناجائز کی تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیا ہے اور اُسے عذاب وثواب میں تفریق کرنے سے بھی روک رکھا ہے۔آج کا انسان اُس جانور یا چوپائے کی طرح ہوچکا ہے جو کھلے کھیت میں گھس آیا ہے اور ایک کھیت کے بعد دوسرے کھیت کو روندتا چلا جارہا ہے۔     
یہ اگرچہ رسوائی کی بات ہے لیکن کہے بغیر رہ بھی نہیں سکتا ہوں کہ ہمارے ملک کا کوئی ایک بھی سرکاری ادارہ ایسا باقی نہیں بچا ہے جہاں رشوت اور بددیانتی پنجہ جھاڑے اور منہ پھاڑے کھڑی نہ ہو۔


عدلیہ کے حوالے سے یہ خیال زبان زد خاص وعام ہے کہ ’ وکیل کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ کوئی جج ہی کرلیا جائے‘۔ کل کا یہ لطیفہ آج حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔کیا یہ کمالِ تعجب نہیں ہے کہ ملزموں کی ضمانتیں تو گھنٹوں میں منظور ہو جاتی ہیں لیکن فیصلے منوں مٹّی میں دباکر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔بسا اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مدعئی یعنی نالش کرنے والااور مدعا علیہ یعنی مقدمہ بھگتنے والا اپنے اپنے وکیلوں کے ساتھ خاک کی چادریں اوڑھ کر سوجاتے ہیں اور فیصلے عدالتوں میں معلّق ہی رہتے ہیں۔

کبھی کبھی یہ بھی دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ مقدمے سننے والے جج حضرات بھی دنیا سے مُنہ موڑ لیتے ہیں اورغریب مقدمہ کسی نئے جج کی راہ تکنے لگتا ہے۔
ہائے افسوس! پاکستان کی شکل میں قائدآعظم ایک ایسے ملک کی تشکیل چاہتے تھے جہاں قانون کی عملداری ہوگی ‘ جھوٹ اپنا منہ چھپاکر رخصت ہوجائے گی‘ رشوت اور بددیانتی کا قلعہ قمع کردیا جائے گا اور ہر طرف سچ کا راج ہوگا۔


انہوں نے رشوت اور بددیانتی کو زہر سے تعبیر کیا تھا۔    افسوس کہ وہ زہر جسے ہمارے قائد نے کھانے کے لیے منع کیا تھا‘ ہم آج وہی زہر چٹخارے لے لے کر کھارہے ہیں۔ ہم واقعئی حضرت آدم  اور حوّا کی اولادیں ہیں جنھیں اَلله تعالیٰ نے جو شے کھانے کے لیے منع فرمایا تھا انہوں نے وہی کھایا چنانچہ ہم بھی وہی کھا رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :