عیدالاضحی اور ہماری برائے نام SOPs

ہفتہ 18 جولائی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

سال 2020ء میں کرونا وبا کیوجہ سے جہاں دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں بُری طرح متاثر ہوئی ہیں وہیں پاکستانی معیشت کی کمر بھی ٹوٹ گئی ہے ۔ ملک کے مختلف شعبے مثلاً انڈسٹری ، تجارت، سیاحت، ہوابازی پہلے ہی زوال کا شکار تھے جبکہ کرونا کیوجہ سے یہ سب کچھ بالکل دھڑام سے زمین پر گر گیا ہے ۔ابھی پچھلے 40-30دنوں کے دوران ملک میں کرونا کیوجہ سے اموات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے جس میں روزانہ اموات ڈبل ڈیجیٹس (double digits)میں ہوئی ہیں اور نئے مریضوں کی تعداد بھی ہزاروں میں رہی ہے ۔

حکومت اِس وبا میں اضافے کی وجہ عیدالفطر کے موقع پر لاک ڈاؤن میں کی جانیوالی نرمی اور عوام کیطرف سے بد احتیاطی اور غیر محتاط رویہ بتاتی ہے۔اِس لیے اِس مرتبہ عیدالاضحی کے موقع پر حکومت پہلے سے کچھ زیادہ محتاط نظر آرہی ہے اِس لیے پہلے سے ہی عید کے لیے کچھ SOPsمرتب کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

آئندہ آنیوالے دنوں میں کرونا وبا پر قابو پانے کا دارومدار اِس عیدالاضحی کے موقع پر SOPsپر عمل درآمد سے منسلک ہے ،اگر عوام سنجیدگی سے اِن SOPsپر عمل کرپاتے ہیں اور حکومت بھی اِن ہدایات پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کرواپاتی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ کرونا وبا پر قابو پا لیا جائے گا بصورت ِدیگر ہمیں مذید تین ،چار ہزار لوگوں کی قربانی دینی پڑ سکتی ہے۔

میں اِس تحریر میں عوام اور حکومت کے سامنے چند گزارشات رکھنا چاہتا ہوں جن پر عمل درآمد کر کے میں سمجھتا ہوں کہ کرونا وبا کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اِس ضمن میں میری پہلی گزارش ہے کہ حکومت لوگوں کو اِس بات کی ترغیب دے کہ وہ عید کے موقع پر میل جول میں کمی اور سماجی فاصلوں کا خیا ل رکھیں ، غیر ضروری طور پر باہر اور ہجوم والی جگہوں میں نہ جائیں۔

عید پر ایکدوسرے کیساتھ مصافحہ کرنے سے اجتناب کریں۔ماسک کا استعمال لازمی کریں ، اور ہاتھوں کو بار بار صابن سے دھوئیں۔ حکومت اِن ہدایات کا بڑے واضح طور پر پرچار کرے، تشہیری مہم چلائے، بازاروں ، گلی کوچوں ، عید گاہوں اور مویشی منڈیوں میں بینرز اور پوسٹرز آویزاں کریں۔ جہا ں تک ممکن ہو سکے اِن ہدایات پر عمل کروانے کے لیے law enforcementکو استعمال بھی کرے۔


عیدالاضحی پر کرونا وبا کے پیشِ نظر علماء کرام کی مشاورت سے لوگوں کو گھروں پر ہی نمازِعید ادا کرنے کی ہدایات جاری کی جا سکتی ہیں ، اِس وبا کے کی وجہ سے لوگوں کو گھروں پر ہی نمازِعید ادا کرنی چاہیے اور بڑے بڑے اجتماعات سے پر ہیز کرنا چاہیے۔ میری ناقص رائے کیمطابق ہمارے دین میں یہ گنجائش موجود ہے کہ کسی وبا کی وجہ سے علماء کرام کی مشاورت سے عبادات میں کمی بیشی یا اُنکے طریقہ ادائیگی میں حالات کے پیشِ نظر تبدیلی کی جا سکے۔

حکومت اِس مقصد کے لیے عید کی نماز کے اوقات میں ٹیلی ویژن چینلز اور انٹر نیٹ کے ذریعے نمازِعید کی امامت نشر کرنے کا بندوبست کرے، حکومت لوگوں کو قائل کرے کہ وہ ٹی وی چینلز پر نشر کی گئی امامت کیساتھ ہی گھروں پر رہتے ہوئے نمازِعید ادا کریں ۔اِس پر مذید یہ کہ ٹی وی چینلز پر نمازِعید کی امامت دو مختلف اوقات (مثلاً سات بجے اور آٹھ بجے) میں نشر کی جائے تاکہ لوگ اپنی آسانی کیمطابق کسی ایک امامت میں شامل ہو سکیں، اور گھر پر ہی نمازِ عید ادا کر لیں۔

لیکن مجھے خدشہ ہے کہ یہ شاید ہمارے پاکستان جیسے ملک میں ممکن نہ ہو سکے، جہاں حکومت اور قانون بڑا ہی کمزور دکھائی دیتا ہے اور صرف غریب اور پسے ہوئے طبقات ہی اِس کی گرفت میں آتے ہیں ۔ میں اپنے قارئین کے نوٹس میں یہ چیز لانا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنے شہر میں چند ایک دینی مدارس کو نوٹ کیا ہے اور میں نے وہا ں دیکھا کہ مدرسوں میں بچوں کی تعلیم جاری ہے ۔

حکومت نے جہاں سکولز، کالجزاور یونیورسٹیاں بند کر رکھی ہیں لیکن حکومت کی رِٹ دینی مدارس پر کارگر نہیں ہے اور وہاں SOPsکا خیال رکھے بغیر ہی بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے۔ اِسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں دینی طبقہ بڑا ہی طاقتور ہے اور حکومت کی رِٹ اِن پر نہیں چل پاتی۔
اِس مرتبہ اور آئندہ کے لیے حکومت کو چاہیے کہ قربانی کا انتظام کرنیوالے ادارے(مثلاً ایدھی فاؤنڈیشن، شوکت خانم اور دیگر وغیرہ) جو خود سے قربانی کا جانور خرید کر ذبح کرتے ہیں اور اِس کا گوشت متعلقہ لوگوں(صارفین)تک پہنچاتے ہیں ،اِس طرح کے اداروں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

اِس سے ایک طرف تو عام لوگوں کے لیے قربانی کا جانور خریدنا،اُسے گھر رکھنے کی پریشانی سے بچا جا سکتا ہے وہیں دوسری طرف قربانی کے جانوروں کی آلائیشوں کو ٹھکانے لگانے ، اور جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونیوالی مختلف بیماریوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔اور مذید کہ کہ یہ چیز پاکستان میں ایک نئی طرح کا بزنس ٹرینڈ بھی متعارف کرواسکتی ہے ، جس سے شہروں میں لوگوں کو بآسانی قربانی کا گوشت میسر آسکے گا۔


عیدلاضحی پر SOPsسے متعلق میری آخری گزارش یہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ گلی محلوں میں قربانی کی اجازت کسی صورت نہ دی جائے ، عید کے جانور ذبح کرنے کی اجازت صرف اور صرف شہروں سے باہر خاص مقامات (مذبحہ خانوں)پر ہی دی جانی چاہیے جہاں جانور ذبح کیے جانے چاہیں ، لوگ وہاں جائیں اوراُنہیں وہاں سے صرف وہاں سے گوشت لانی کی اجازت ہو۔گلی محلوں میں جانوروں کی قربانی کیوجہ سے جگہ جگہ آلائیشیں اور گندگی پھیلتی ہے جو بعد میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ گلی ، محلوں میں قربانی کی اجازت نہ دے کر گلی محلوں کوصاف رکھنے میں مدد دے۔شکریہ !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :