غریبوں کی آہ سے بچو

بدھ 31 اکتوبر 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

جاگیرداروں، سرمایہ داروں، حکمرانوں اور اشرافیہ کے دستر خوانوں پر تومن پسند اور خوش ذائقہ کھانوں کا منگل اور اتوار بازار ہر وقت اور ہر دن سجتاہے ۔کوئی بھی جاگیر دار ‘ سرمایہ دار ‘ خان ‘ نواب اور حکمران کھانے پینے سمیت کسی بھی چیز کی جونہی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو منٹوں اور سیکنڈوں میں ان کی وہ خواہش بھی پوری ہو جاتی ہے مگر دو وقت کی خشک روٹی پر گزارا کرنے والوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے ۔

جو لوگ روکھی سوکھی کھا کر مشکل سے گزارا کرتے ہیں جب ان سے وہ خشک روٹی بھی چھین لی جاتی ہے تو پھر ان غریبوں کے پاس ایڑھیاں رگڑنے ‘ تڑپنے ‘ چیخنے ‘چلانے ‘ بلبلانے اور بھوک سے بھلکنے کے علاوہ کوئی چار ہ باقی نہیں رہتا۔ شائد غریبوں کی اسی حالت زار کو دیکھ کر کسی شاعر نے کہا تھا کہ ۔

(جاری ہے)

۔جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی ۔۔اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو ۔

۔وطن عزیز میں ہر آنے اور جانے والے حکمرانوں نے ہمیشہ غریبوں کو نشانہ بنایا ‘ ملکی خزانے سے اپنے بڑے بڑے پیٹ اور سوئس بنکوں کے جہنم تو ہر کسی نے بھرے ۔۔قوم کے خون پسینے کی کمائی سے شوگر اور فلور ملیں بھی سب نے بنائیں۔سٹیل اور لوہے کے چنے بنانے والے کارخانے اور آف شور کمپنیاں بھی اکثر نے بنوائیں لیکن نواز شریف ‘ آصف علی زرداری اور پرویز مشرف سمیت دیگر آنے اور جانے والے حکمرانوں نے غریبوں کیلئے آج تک نہ کوئی کارخانہ لگایا ۔

۔نہ کوئی فیکٹری قائم کی اور نہ ہی کوئی شوگر اور فلور ملز بنائی ۔ اس ملک میں حکمرانوں کے گدھوں ‘ کتوں‘ گھوڑوں اور خچروں کو سیب کے مربے ‘ ڈبل روٹیاں‘ مٹن اور چکن تو منوں کے حساب سے کھلائے گئے مگر افسوس کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے اس بدقسمت ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لاکھوں اور کروڑوں غریبوں کو آج تک نہ تو آرام سے دو وقت کی روٹی مل سکی اور نہ ہی انہیں پیٹ بھر کر ایک وقت کا کھانا بھی کبھی نصیب ہو سکا ۔

اس ملک میں آنے والے حکمران کوئی شریف ہو ‘ کوئی زرداری ‘ کوئی پرویز یا کوئی خان ‘ ہر کسی نے فلاحی ریاست اور مدینے کی ریاست کا پرفریب نعرہ لگا کر اقتدار تو حاصل کیا لیکن حکمران بننے کے بعد کسی نے فلاحی اور مدینے والی ریاست بنانے والے نعرے کی طرف پھر مڑ کر بھی نہیں دیکھا ۔کیا کسی فلاحی یا مدینے والی ریاست میں کوئی غریب روٹی کے ایک ایک نوالے کو بھی تڑپ سکتا ہے ۔

۔؟کیا مدینے والی ریاست میں کبھی کسی غریب کے منہ سے روٹی کا نوالہ کبھی چھینا گیا ۔۔؟نواز شریف ‘ آصف علی زرداری ‘ اور پرویز مشرف جیسے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے تو ہمیں کوئی گلہ ہے نہ کوئی شکوہ۔۔ایسے حکمران اور سیاستدان تو اقتدار میں آتے ہی غریبوں سے سیاست کھیلنے اور سوئس بنکوں کے جہنم بھرنے کیلئے لیکن موجودہ وزیر اعظم عمران خان تو نواز شریف ‘ زرداری اور پرویز مشرف جیسے ان حکمرانوں سے اس لئے یکسر مختلف ہیں کہ یہ انصاف عام اور احتساب سرعام کا نعرہ لگاکر پاکستان کو مدینہ کی وہ ریاست بنانے کیلئے اقتدار میں آئے ہیں جس ریاست کے عوام نہیں حکمران خود یہ کہتے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے تو اس کی پوچھ حضرت عمر  سے ہو گی ۔

اس ریاست میں غریبوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ کبھی چھینا نہیں گیا بلکہ جہاں بھی کوئی غریب ‘ مجبور ‘ مفلس اور نادار نظر آیا اس کو سینے سے لگا کر اس کے منہ سے روٹی کا نوالہ ڈالا گیا ۔پھر یہ کیا ۔۔؟وزیر اعظم عمران خان اگر ملک کو مدینہ جیسی فلائی واسلامی ریاست بنانے آئے ہیں تو پھر غریبوں کے منہ سے روٹی کے وہ خشک نوالے جن پر غریب لوگ زندہ اور بمشکل زندگی گزار رہے ہیں ان کے چھیننے کا مطلب اور مقصد کیا ۔

۔؟کچھ دن پہلے ملک کے کسی کونے اور علاقے سے علی اصغر اعوان نامی کسی غریب کا ایک میسج آیا جس میں انہوں نے اپنی غربت ‘ تنگدستی اور لاچارگی کا ذکر کرتے ہوئے علی اصغر اعوان نے لکھا کہ حکومت کی جانب سے بے نظر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کچھ پیسے ملنے سے ہمیں سہارا ملتا تھا جس سے گھر کا چولہا جلتا اور ہمیں دو وقت کا کھانا نصیب ہوتاتھا مگر نہ جانے کس وجہ سے اب یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے یا پھر حکومت نے بند کر دیا ہے۔

جس کی وجہ سے گھر کا چولہا بجھ گیا ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے اب روٹی کے ایک ایک نوالے کیلئے تڑپنے لگے ہیں۔۔ بجلی کی رفتار سے بڑھتی مہنگائی ‘ غربت اور بیروز گاری کے باعث اس ملک میں غریب عوام کا جینا ہمیشہ محال رہاہے ‘ حکمرانوں کی تبدیلیوں سے بھی یہ زمین غریبوں پر تنگ سے تنگ ہو تی گئی ہے ۔ہر آنے والی نئی حکومت نے خزانہ خالی ہونے کا نعرہ لگا کر سب سے پہلے غریب عوام کو نشانہ بنایا ۔

لگتا ہے ملک کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کیلئے آنے والوں نے بھی تبدیلی کا آغازغریب عوام سے کر دیا ہے ۔شائد اسی وجہ سے غریبوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری بہت برے ہوں گے لیکن اپنی حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے غریبوں کو سہارا دینے کیلئے جو قدم انہوں نے اٹھایا ان کی تمام برائیوں پرآصف علی زرداری کاوہ ایک قدم بھاری بہت بھاری ہے ۔

اس پروگرام کے ذریعے نہ صرف ہزاروں اور لاکھوں غریبوں کو سہارا ملا بلکہ ہزاروں کو زندگی میں پہلی بار پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب ہوا ۔اسی پروگرام کی بدولت کئی گھروں میں بجھے چولہے بھی پھر سے جلے ۔اسی وجہ سے پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی مخالف سیاسی پارٹی ن لیگ کی جب سابق دورمیں حکومت آئی تواس نے بھی اس پروگرام کو جاری وساری رکھا ۔اس پروگرام کے ذریعے اب غریبوں کی مدد اور انہیں سہارا دینے کا سلسلہ کیوں بند ہوا ہے اس کاہمیں فی الھال کوئی علم نہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کو فوری طور پر اس کا نوٹس لے کر ہزاروں ولاکھوں خاندانوں کو فاقہ کشی سے بچانے کیلئے اپناکردار ادا کرنا چاہیے ۔جس طرح کہا جاتا ہے کہ مظلوموں کی آہ سے بچو اسی طرح غربیوں کی آہ سے بھی بچنا چاہیے ۔مظلوموں کی آہ جس طرح عرش کو ہلا دیتی ہے اسی طرح غریبوں کی آہ بھی فوراً عرش تک پہنچتی ہے۔۔ اقتدار ۔۔کرسی ‘ طاقت اور حکمرانی یہ آنی جانی چیزیں ہیں ‘ ہم نے تواس دھرتی پر وقت کے حکمرانوں کوبھی لمحوں میں مجرم بنتے دیکھا ہے ۔

ویسے بھی انسان کے عرش سے فرش پر گرنے میں کوئی ٹائم نہیں لگتا ۔غریبوں اور مظلوموں کی دعائیں ہی حکمرانوں کے اقتدار کو دوام بخشتی ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان کو مدینہ کی ریاست بنانے اور کامیاب حکمران بننے کیلئے ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے غریبوں کو سینے سے لگانے کیلئے خوآگے بڑھنا چاہیے ۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے غریبوں کی مدد کا سلسلہ فوری طورپردوبارہ شروع کرنے کے ساتھ عمران خان کو ملک میں غریبوں کو سہارا دینے کیلئے ایسے مزید پروگرام اور منصوبے بھی شروع کرنے چاہیں تا کہ روٹی کے ایک ایک نوالے کو تڑپنے اور ترسنے اور بھوک سے بھلکنے والے غریب بھی اس ملک میں زندگی جی سکیں ۔

ورنہ بصورت دیگرپھر کسی غریب کی ایک آہ بھی حکمرانوں کا کام تمام کرنے کیلئے کافی وشافی ہو گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :