سیاست میں لوٹوں کاکاروبار،ذمہ دارکون۔؟

منگل 9 مارچ 2021

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

پشتومیں کہتے ہیں کہ (چاچاپخپلہ گلہ مہ کوہ دابلہ)کہاجاتاہے کہ پرانے زمانے میں ایک بندرکے ہاتھ ماچس کی کوئی ڈبی لگی ۔جس سے کھیلتے ہوئے بندرنے خودکوآگ لگادی ۔آگ لگتے ہی بندرنے چیخ وپکارشروع کردی ۔قریب کسی نے بندرکی یہ چیخ وپکارجب سنی توپوچھا (چا۔چا)کس نے ۔؟کس نے۔؟مطلب یہ آگ کس نے لگائی ۔بندرنے جواب دیا۔(پخپلہ)میں نے خود۔

اس نے آگے سے جواب دیاکہ( گلہ مہ کوہ دابلہ)کسی اورسے اب گلہ نہ کرنا۔ہمارے وزیراعظم صاحب کے تن بدن میں بھی آج کل اسی طرح کی آگ لگی ہوئی ہے۔بندرنے توسچ سچ بتادیاتھاکہ آگ کس نے لگائی لیکن ہمارے وزیراعظم صاحب چیخ وپکارتوکررہے ہیں لیکن سچ سچ نہیں بتارہے کہ یہ آگ کس نے لگائی ہے۔؟ پاکستان کی سیاست میں صرف ضمیرنہیں بلکہ انسانوں کی خریدوفروخت،جوڑتوڑ،لین دین،جھوٹ،فریب،دھوکہ اورمنافقت یہ کوئی نئی بات نہیں۔

(جاری ہے)

کونساموقع اورکونسے انتخابات ایسے ہیں جس میں انسانوں کے ضمیرنہیں بکے۔؟عام انتخابات ہوں،ضمنی الیکشن یاپھرایوان بالاکامعرکہ۔ہرجگہ اورہردورمیں ان سیاستدانوں کی خریداری کے لئے منڈیوں پرمنڈیاں لگیں۔ وزیراعظم صاحب چھوٹے چھوٹے ایم این ایزاورایم پی ایزکارونارورہے ہیں اس ملک میں توبڑے بڑوں کوبھی دنیانے نیلام ہوتے دیکھا۔اس ملک کے وہ کونسے سیاستدان اورکونسے لیڈر ہیں جوسیاست کے بازارحسن میں طوائفوں کی طرح بکے نہیں۔

؟ہمیں گلی محلوں،مارکیٹوں اوربازاروں کے ساتھ سیاست کی راہداریوں میں بھی اگربیوپاری نہ ملتے توآج ہماری یہ حالت ہوتی۔؟حق اورسچ یہ ہے کہ ہماراآج تک ہرجگہ پر بیوپاریوں سے ہی واسطہ پڑا۔تاریخ گواہ ہے کہ ہمیں جوحکمران اورسیاستدان ملے وہ سب نہیں تواکثران میں بیوپاریوں سے کبھی کچھ کم نہ تھے۔ آج بھی یہ جوہمارے حکمران،ممبران اورسیاستدان بنے پھرتے ہیں یہ بھی تومویشی منڈیوں کے منشیوں،بیوپاریوں اورٹھیکیداروں سے ہرگزمختلف نہیں۔

کیاسیاسی ایوانوں اورمیدانوں میں اس طرح کے سودے ہوتے ہیں۔؟کیاسیاست ضمیروں کی خریداری کانام ہے۔؟کیااقلیت کواکثریت اوراکثریت کواقلیت میں بدلنے کانام جمہوریت ہے۔؟ہم نے تواپنے بڑوں سے سناتھاکہ جمہوریت میں اکثریت کی رائے کااحترام کیاجاتاہے۔مگریہاں ۔؟یہاں تومعاملہ ہی الٹ ہے۔جواقلیت میں ہووہ اکثریت بن کرسینیٹراورسینیٹروں کے چیئرمین بن جاتے ہیں اورجن کے پاس اکثریت ہوتی ہے وہ اقلیت میں چلے جاتے ہیں۔

سینیٹ انتخابات میں اپنے وزیرخاص کی شکست پروزیراعظم صاحب اب توچیخ وپکارکررہے ہیں لیکن چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اورپھرتحریک عدم اعتمادکے موقع پراسی وزیراعظم عمران خان کی حکمرانی میں جب ضمیروں کے اسی طرح کے سودے کئے جارہے تھے اس وقت وزیراعظم صاحب کویہ برائی برائی کیوں نہیں لگی۔؟جب ضمیروں کی خریداری کے ذریعے اپوزیشن کی اکثریت کواقلیت میں بدلاجارہاتھااس وقت وزیراعظم صاحب کہاں تھے۔

؟ہم نے سیاست میں لین دین ،لوٹوں اورضمیروں کی خریداری کونہ پہلے اچھی نظروں سے دیکھااورنہ ہی اب اس گھناؤنے عمل اورفعل کی ہم ذرہ بھی کوئی حمایت کررہے ہیں ۔سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں جوکچھ ہواوزیراعظم صاحب اپنے بڑے امیدوارکی شکست کی وجہ سے اس عمل اورفعل پرایک بارلعنت بھیجتے ہوں گے مگرہم حکومتی امیدوارکی تاریخی دھلائی پردل ٹھنڈاہونے کے باوجودایک نہیں ہزاربارلعنت بھیجتے ہیں لیکن سوال ہماراصرف یہ ہے کہ وزیراعظم کی حکمرانی اورنگرانی میں یہی کام جب پہلے ہورہاتھاتواس وقت وزیراعظم نے اس فعل اورعمل پرلعنت کیوں نہیں بھیجی۔

؟پی ٹی آتی کے دوچارممبران کوورغلانے،پھسلانے یاچندٹکوں پران کے ضمیرخریدنے پرآج بادشاہ سلامت الیکشن کمیشن اوراپوزیشن کوآڑے ہاتھوں لیکرآسمان سرپراٹھارہے ہیں لیکن ڈھائی تین سال قبل جب اسی بادشاہ سلامت کے ایک کامیاب ترین بیوپاری جہازبھربھرکرمسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی اوردیگرجماعتوں اورپارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کوورغلااورپھسلاکرضمیروں کی خریداری کرتے رہے اس وقت یہ بادشاہ سلامت کہاں تھے۔

؟سینیٹ انتخابات میں اپنے امیدوارکی شکست پرکسی اورکوموردالزام ٹھہرانے کی بجائے محترم وزیراعظم صاحب اگرایک لمحے کے لئے بھی اپنے آس پاس اوراردگردنظردوڑالیں توفوادچوہدری،عمرایوب،فردوس عاشق اعوان،غلام سرورخان،اعظم سواتی اورحفیظ شیخ جیسے بے شمارروشن چہروں کودیکھتے ہی وزیراعظم کوفوراًمعلوم ہوجائے گاکہ اس کے تن بدن میں یہ آگ کس نے لگائی ہے۔

بندرکی طرح ماچس کی ڈبی ہاتھ میں لیکروزیراعظم اگرماضی قریب میں دوسروں کی ضمیروں سے نہ کھیلتے تواب ہم بھی کسی اورکواس گناہ،دھوکے اورفراڈ کاذمہ دارقراردے کربرابھلاکہناشروع کردیتے مگرافسوس یہ آگ تواپنے ہاتھوں لگائی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ایسے میں اب کسی اورسے گلہ کرنے کاکوئی تک نہیں بنتا۔جوآپ کریں وہ ٹھیک وجائزاوروہی جودوسرے کریں تووہ غلط وناجائز۔

ایساپہلے ہوتاتھااورچلتابھی تھالیکن اب۔؟اب ایسانہ ہوتاہے اورنہ چلتاہے۔وزیراعظم صاحب وہ وقت گزرگیاجب لوگ ایک دوسرے کوبیوقوف بنایاکرتے تھے اب ہرشخص ایک سے بڑھ کرعقلمنداورباشعورہے۔ اقتدارکی کرسی تک پہنچنے اوروزیراعظم بننے کے چکرمیں آپ کے ہاں جس طرح لوٹابازارسجایاگیا۔انتخابات جیتنے کے لئے اس وقت جس طرح ضمیروں کی خریداری ہوئی۔

شائدکہ آپ وہ سب کچھ بھول گئے ہوں گے لیکن یہ عوام جس طرح نوازشریف اورآصف علی زرداری کے کالے کرتوت نہیں بھولے اسی طرح ان کوآپ کاایک ایک گناہ بھی یادہے۔ماناکہ اس ملک میں منافقت اورضمیرفروشی کی اس سیاست میں سابق وزیراعظم نوازشریف اورآصف علی زرداری کابھی بڑابہت بڑاہاتھ ہوگالیکن انتہائی معذرت کے ساتھ اس گناہ میں آپ کاہاتھ اورکرداربھی کسی سے کچھ کم نہیں۔

وزیراعظم صاحب اقتدارتک پہنچنے کے نشے میں اگرآپ ان لوٹوں اوربے ضمیروں کی قیمت لگاکران کوانتخابات کے لئے ٹکٹ نہ دیتے تویہ لوٹے آج اقتدارمیں کبھی نہ ہوتے۔کل جن لوٹوں کی قیمت لگاکرآپ نے ان کی ضمیروں کوخریداتھاآج ان ہی لوٹوں کی قیمت لگاکراپوزیشن والوں نے ان کوخریدلیاہے۔آج اپوزیشن کایہ عمل اورفعل اگرآپ کوبرالگتاہے توآپ اس برائی پراپوزیشن اورمخالف سیاسی پارٹیوں کوبرابھلاکہنے سے پہلے ذرہ اپنے آپ کوایک باربراکہہ دیں کیونکہ چمن کی اس تباہی میں ان کے ساتھ آپ کابھی ہاتھ ہے۔

آپ اگرضمیروں کے اس کاروبارمیں خریداراورگاہگ نہ بنتے توآج آپ کویہ دن کبھی دیکھنانہ پڑتا۔یہ تومکافات عمل ہے۔جیساکروگے ویساپھربھروگے۔کل آپ نے ان کے لوٹے خریدے آج انہوں نے آپ کے لوٹے واپس لے لئے اس میں ان کی برائی اورگناہ کیا۔؟ضمیروں کی یہ خریداری اورکاروباراگرواقعی گناہ اورجرم ہے توپھرنوازشریف اورآصف علی زرداری کے ساتھ آپ بھی بڑے گنہگاراورمجرم ہیں۔

پہلے آپ قوم سے معافی مانگیں پھران کومعافی مانگنے کے لئے کٹہرے میں لائیں لیکن اپنے آپ کوفراموش اوراپنے گناہوں کوبھول کردوسروں کی طرف انگلیاں اٹھانے سے نہ پہلے کچھ ہوانہ آئندہ کچھ ہونے والاہے۔کچھ کرگزرنے کیلئے پہلے اپنے آپ سے آغازکیاجاتاہے۔وزیراعظم اگرسیاست سے ضمیرفروشی ختم کرنے میں واقعی سنجیدہ ہیں تووہ پھراپنے آس پاس جمع ہونے والے ان لوٹوں کولات مارکران سے برات کااظہارواعلان کردیں پھردیکھیں کہ ضمیرفروشی کایہ کاروبارختم ہوتاہے کہ نہیں۔

لوٹوں کوبغل میں چھپانے سے لوٹوں کایہ کاروبارکبھی ختم نہیں ہوتابلکہ یہ مزیدبڑھتاہے کیونکہ لوٹالوٹاہوتاہے وہ کسی کاہوتانہیں۔آج یہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہے توکل کون لیگ یاپیپلزپارٹی کے ساتھ ہوں گے۔ان کاتوکام ہی قیمت لگاکرنوٹ وصول کرناہے۔ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں اوراب بھی کہتے ہیں کہ سیاست کولوٹوں سے پاک کرنے کیلئے ان لوٹوں کوواش رومزتک محدودکرناضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :