معاشرے پر ذخیرہ اندوزی و گراں فروشی کے اثرات

ہفتہ 11 اپریل 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

وہ بظاہر ایک خوش شکل اور پڑھا لکھا نوجوان لگ رہا تھا، لباس بھی مناسب پہنا ہوا تھا، مگر مایوسی اور افسردگی اس کے چہرے بشرے پر غالب تھی ، وہ آج کل کی کڑی دھوپ میں ایک بڑی مارکیٹ کے سامنے پزا کمپنی کی بچت آفر کا کتابچہ بیچنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا مگر کوئی بھی اس کی بات سننے کو تیار ہی نہ تھا۔ میں بھی اس سے کترا کر گزرجانا ہی چاہتا تھا مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے پیچھے آوازیں دیتا ہوا آ رہا ہے۔

میں رک ہی گیا حالانکہ میں جانتا تھا کہ جو کچھ وہ بیچنے کی کوشش کر رہا ہے وہ ہماری دلچسپی کی چیز ہرگز نہ تھی مگر میں رک گیا، وہ پاس آیا اور ہاتھ میں موجود کتابچے کے فوائد گنوانے لگا۔ میں نے اس سے کہا کہ بھائی ہمیں اس کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے، تم اگر چاہو تو میں تمہاری کچھ مدد ضرور کر سکتا ہوں۔

(جاری ہے)

تو وہ اداس ہو گیا اور جانے لگا، میں نے کہا چلو ٹھیک ہے ہم یہ ایک کتابچہ خرید لیتے ہیں۔

تو وہ زرا خوش ہوگیا، کہنے لگا صبح سے آپ پہلے خریدار ہیں، ورنہ دھوپ میں سرکھپانے اور سرتوڑ کوشش کرنے کے باوجود ابھی تک ایک کتابچہ بھی نہیں بیچ پایا تھا۔ کبھی کبھی تو خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ میں نے کہا کہ بات چیت سے تو تم پڑھے لکھے لگتے ہو پھر کوئی ڈھنگ کا کام کیوں نہیں کرتے، کہنے لگا کہ ایک فیکٹری میں عارضی ملازم بطور کام کرتا تھا لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہوں نے فارغ کر دیا ، فی الحال یہی ایک روزی کمانے کا ذریعہ ہے۔

پھر خودکلامی کے انداز میں گویا ہوا کہ ایک تو مہنگائی اتنی ہو گئی ہے ، دوسرا چیزوں کی قیمتیں روز روز بڑھ جاتی ہیں۔ بنیادی ضرورت کی اشیاء بھی خریدنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے تک جن پیسوں میں گھر کے کھانے پینے کا بندوبست کرلیا کرتا تھا اب ان میں محض چند چیزیں ہی آپاتی ہیں۔ غریب آدمی کیسے گزارہ کرے۔ بات اس کی بالکل معقول اور دل کو لگنے والی تھی دور حاضر کی سب سے بڑی مشکل دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا ہے۔

ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں نے غریب عوام کو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
اس حوالے میں آپﷺ نے فرمایا کہ غلہ وغیرہ باہر سے لاکر فروخت کرنے والے تاجر کے رزق کا اللہ کفیل ہے، اور مہنگائی کیلئے زخیرہ اندوزی کرنے والے تاجر پر اللہ کی پھٹکار ہے، اور وہ اس کی رحمت و برکت سے محروم ہے (ابن ماجہ) ، گراں فروشی اور زخیرہ اندوزی کو تمام ادوار میں اور تمام معاشروں بلا مبالغہ تجارت کا نا پسندیدہ طریقہ سمجھا جاتا ہے اور بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

مگر اس کے باوجود ناجائز منافع خوروں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ صدیوں سے آج تک اپنی روش پر چل رہے ہیں۔ اور اسے کاربار کرنے کے طریقے سے تعبیر کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں عام آدمی پریشانی کا شکار رہتا ہے۔ اور اب تو حال یہ ہے کہ عام استعمال کی اشیاء یعنی راشن سے لیکر سامان تعیش تک جو ہاتھ لگے اور جیسا موقع لگے گراں فروشی یا ذخیرہ اندوزی کا شکار ہوجاتا ہے، مثال کے طور پر ملک میں بننے والی کسی کار کا ماڈل مشہور ہو جائے، پھر دیکھیں اس کی بکنگ بند ہوجائے گی ، اب آپ کو زیادہ پیسے جسے دیلرشپ کی اصطلاح میں Own کہا جاتا ہے دینا پڑتا ہے جو ہزاروں سے لیکر لاکھوں تک جا پہنچتا ہے، اب یہ زہر نیچے کی طرف سرائیت کرنا شروع کرتا ہے تو غریب کی روٹی تک چھین لیتا ہے۔


ذخیرہ اندوز اور گراں فروش وہ لوگ ہیں جو مال کمانے کے معاملے میں شاید اپنے سگے باپ پر بھی ترس نہ کھائیں تو غریب عوام کس کھیت کی مولی ہیں۔ کوئی موقع ہو وہ اپنا تیر تیار رکھتے ہیں، اور مارنے میں نہ چوکتے ہیں نہ ترس کھاتے ہیں۔ کیونکہ یہ بھی جرائم کی فہرست میں آتا ہے لہذا پکڑ دھکڑ بھی ہوتی ہے مگر اکثر جناب ضمیر جعفری صاحب کے اس شعر کے مصداق کہ: رشوت لے کے پھنس گیا ہے ، رشوت دے کے چھوٹ جا۔

معاملات طے ہو جاتے ہیں اور چور بازاری سے کمائے گئے منافع میں سے کچھ حصہ نام نہاد سرپرستوں اور وہ سرکاری اہلکاروں جن کے بل بوتے پر وہ عوام کا خون چوس رہے ہوتے ہیں ان کو چلا جاتا ہے مگر غریب عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ پاتا، ہم سب کے مشاہدے میں ہے کہ موقع کوئی بھی ہو، موقع پرست تاک میں رہتا ہے وہ اتنا باخبر، اور چابکدست ہوتا ہے کہ اس کے پاس ہر موقع کیلئے نیا تیر ترکش میں پہلے ہی سے تیار ہوتا ہے۔

جس سے وہ عمومی طور پر غریب عوام کا اور خصوصی طور پر امیروں کا شکار کھیلتا ہے۔ اب موقع ہو رمضان کا تو کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں گی، موقع ہو عید کا تو معمولی سے معمولی لباس قوت خرید کا امتحان ہی ہوتا ہے، ترسے ہوئے لوگ کبھی جیب میں موجود پیسوں اور کبھی اپنے بچوں کی حسرت بھری آنکوں اور کبھی شوکیس میں جگمگاتے ملبوسات کو دیکھتے ہیں اور شدید تریں ذہنی اذیت کا شکار ہوتے ہیں کے کیا کریں کہاں جائیں، موجودہ کرونا کی وباء کے دوران جس طرح ڈیٹول ، سینٹائزر ز، عام ماسک اور ٹشو پیپرز بازار سے غائب ہوئے، بے حسی اور خود غرضی کی اس سے بدتریں مثال شاید ہی کہیں مل پائے ۔


 کیا یہاں کوئی نظام نہیں جو ان معاملات کی دیکھ بھال کرسکے، تو حیرت کی بات یہ ہے کہ محکمہ ء پرائس کنٹرول موجود ہے اور اس کے ہرکارے اس محنت اور جانفشانی سے مصروف کار نظر آتے ہیں کہ دیکھ کر جی کرتا ہے کہ ان کی پیشانی چوم لوں، مگر یہ کیا؟ ان تمام کاوشوں کے ثمرات و نتائج عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچ رہے۔ تو جناب وہ ساری محنت وہ ساری تگ و دو اپنی ذات کیلئے تھی ، سرکاری ملازمین میں ایسے خال خال ہی ملیں گے جو دفتری ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ملک و عوام کی خدمت کیلئے کرتے ہوں حالانکہ وہ باقاعدہ تنخواہ لے رہے ہوتے ہیں ، جس سے ان کے کنبہ کی کفالت بھی ہو رہی ہوتی ہے۔

مگر بیشتر کا مطمعہء نظر تو ذاتی فائدے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا لہذا عوام کو فائدہ بھلا کس طرح پہنچ سکتا ہے۔ ایک بڑا قبیلہ ایسے لوگوں کا ہے جو سب مل جل کر ان گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہوتے ہیں، جن میں تاجر، متعلقہ محکمہ جاتی افسران و کارکنان، جرائم کی روک تھام کرنے والے اداروں کے لوگ اور کچھ درمیان کے لوگ شامل ہوے ہیں، لہذا مل جل کر ایک ٹیم ورک ہوتا ہے جس کی اذیت غریب عوام کو بھگتنا پڑتی ہے، اور روز کوئی نہ کئی سفید پوش اپنی عزت نیلام کر رہا ہوتا ہے۔


یہ ایک بڑا جرائم پیشہ افراد کا منظم گروہ ہے جو مل جل کر باقاعدہ پلاننگ کے تحت White Collar Crime کر رہا ہوتا ہے۔ اس میں چھوٹے تھوک فروشوں سے لیکر بڑے بڑے اربوں کھربوں پتی سپر مارکیٹس کی چین سب شامل ہیں، آپ ایک مہینے بعد خریداری کریں، اور غور سے دی گئی رسید کا مواذنہ کریں تو پائیں گے کہ، روز مرہ کی اشیاء جیسے دالیں، چاول، چینی اور آٹے پر بغیر کسی پیشگی اطلاع کے قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔

تو کیا یہ سب مطلق العنان ہیں ، ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں، ہے جناب ہے بڑا زبردست نظام ہے جو مستقل رابطے میں رہتا ہے مگر جس تواتر سے قیمتیں بڑھتی ہیں اسی تواتر سے جیب گرم ہوتی رہتی ہے، تو منہ بھی بند رہتا ہے او ر آنکھیں بھی، اگر کوئی پس رہا ہے اس ظلم کی چکی میں تو وہ صرف غریب عوام ۔ یہاں تک مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر کوئی ایماندار افسر زرا کارکردگی دکھانے کی کوشش کرے تو اس کو وہ طماچہ پڑتا ہے کے نوکری اور عزت دونوں کے اور کبھی کبھی جان کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ یہاں ایک مربوط مافیا کا نظام رائج ہے، جو بہت مضبوط ہے اس کا حصہ وہ وہ نامی گرامی ہستیاں ہوتی ہیں کہ عام آدمی کا گمان تک بھی نہیں جا سکتا۔
ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کے معاشرے پر ممکنہ منفی اثرات
ہر انسان کی ظلم سہنے کی ایک حد ہوتی ہے اور جب یہ حد ختم ہوجاتی ہے تو شروع ہوتی ہے، بغاوت، بدلا لینے کی خواہش اور محرومی کا انتقام لینے کا جذبہ، اپنا حق چھین لینے کی دھن، پھر کیا صحیح کیا غلط کون پرواہ کرتا ہے۔

میری اس بات کی تائید ایک بہت ہی معروف ہستی کے بیٹے کے ایک پیغام سے بھی ہو جاتی ہے جس میں وہ روتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابھی تو یہ مظلوم پسے ہوئے لوگ امید و حسرت سے ہماری جانب اور ہماری گاڑی کی جانب دیکھ رہے ہیں ، مگر کل کیا ہوگا جب یہ گروہ مجبوراً آپ اور آپ کی گاڑی پر حملہ آور ہوجائیں اور جس کے ہاتھ جو لگے چھین کر لے جائیں۔ جنوبی افریقہ میں کچھ دن پہلے ایسا ہی کچھ ہوا، اور بے قابو لوگوں کے ہجوم نے مال، مارکیٹ ، دکان جو ہاتھ لگا لوٹ لیا، اور اس بری طرح لوٹا کہ پولیس بھی کسی کو نہ روک سکی۔

اسی طرح یہاں بھی ہو سکتا ہے، یہ لاوہ اندر ہی اندر پک رہا ہے اور اگر مناسب اقدامات نہ کئے تو یہ آتش فشاں کسی بھی دن پھٹ سکتا ہے اور حالات قابو سے باہر بھی ہوسکتے ہیں۔
 تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے، یہ ظلم سہتے رہنا چاہئے؟ عوام یہ کر سکتے ہیں کے جہاں تک ممکن ہو گراں فروشوں کا بائیکاٹ کریں، کوئی ایسی چیز لینے کی کوشش نہ کریں جو بلیک میں مل رہی ہو یا جس کی قیمت کا آپ کو علم ہو اور وہ مہنگی دے رہا ہو۔

عوامی سطح پر خریدار کے حقوق کا شعور اجاگر ہونا چاہئے۔ عام آدمی کو سارے نہ صحیح مگر خریدار کے بنیادی حقوق اور ان سے جڑے قوانین کا علم لازمی ہونا چاہئے، تاکہ کوئی فوری طور پر ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اس آگہی کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر ایسے پلیٹ فورمز ہونا چاہئیں جو حکومت وقت کو ، مقامی انتظامیہ کو اور عام لوگوں کو مسلسل ہونے والی بے قاعدگیوں سے بذریعہ ، اخبارات، رسائل اور میڈیا آگاہ کرتی رہے۔

اپنی آواز اٹھاتی رہے، ساتھ ساتھ حکومت کو بھی اس جانب خاص توجہ دینا چاہئے اور کرپٹ کارکنان کو فارغ کرکے مثال قائم کرنا چاہئے۔ مگر عوام کو پہلے خود عوامی سطح پر کچھ اقدامات کرنا پڑیں گے پھر اس کے بعد یقینا حکومتی ادارے بھی ضرور اس میں کچھ نہ کچھ مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کہتے ہیں قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، اور کاوش پیہم سے مثبت نتائج ضرور آسکتے ہیں، بس سب کو مل کر کام کرنا پڑے گا، ورنہ بچے یونہی عیدوں پر ترستے رہیں گے، وباؤں کے دوران مریض دواؤں کو ترستے رہیں گے، اور ناجائز منافع خور آپ کے جسم کی کھال تک نوچ نوچ کر کھاتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :