30 سال سے قانون کی دلدل میں پھنسی ملزمہ

پیر 13 اپریل 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

مشہور فلسفی ارسطو کہتا کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات یعنی کمزور یا چھوٹے چھوٹے کیڑے ہی پھنستے ہیں، بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ صدیوں پہلے کہی گئی اس بات کی سچائی آج بھی ہم پر روزانہ آشکار ہوتی رہتی ہے۔
ہمارے اردگرد لاتعداد مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح مصدقہ قاتل، ملک دشمن، غدار، اور منشیات فروش اپنی دولت کے بل بوتے پر اوپر بیان کی گئی مشہور کہاوت کو سچ ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔

اور مظلوم اور بے بس لوگ کبھی کھبی تو بے گناہ قانون کی چکی میں ایسے پستے ہیں کہ ہم کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
کنیزاں بی بی گذشتہ تیس سال سے کال کوٹھری میں موت کی منتظر ہے، کیا ہمارا قانون ایک ذہنی معذور خاتون کو موت کی سزا دے پائے گا؟
کنیزاں بی بی جو اب ایک ادھیڑ عمر خاتون ہے اور شدید ذہنی مرض شیزو فرینیا Schizophreniaکا شکار ہے آج کل اڈیالہ جیل کی کال کوٹھری میں موت کی منتظر ہے، ان تیس سالوں میں اسے پنجاب کے مختلف جیل خانوں میں رکھا گیا، بد نصیب کنیزاں بی بی گذشتہ آٹھ مہینوں سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی منتظر ہے۔

(جاری ہے)

جس میں اس کی بیماری سے متعلق طبی تشخیص و تجزیہ پر فیصلہ ہونا ہے کہ آیا اسے پھانسی دی جائے یا نہیں۔
رشتہ داروں اور ہسپتال Punjab Institute of Mental Health (PIMH)کے عملہ کے مطابق، کنیزاں بی بی جس پر چھ لوگوں کے قتل کا الزام ہے ۔ اس نے سنہ 2006 سے ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے، وہ کسی سے بھی بات نہیں کرتی بس ایک کونے میں خاموش بیٹھی رہتی ہے۔
کنیزاں ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے، جب اسے 1989میں چھ لوگوں کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو وہ صرف 16سال کی ایک نا بالغ لڑکی تھی۔

اسے اس قتل کی واردات میں معاونت کے جرم میں موت کی سزا سنہ 2001میں سنائی گئی جس کا اس نے کبھی بھی کا اقرار نہیں کیا۔ جبکہ وہ ایک گھریلو تنازعہ کا شکار ہوئی وہ ایک کم عمر غریب بچی تھی اور ایک زمیندار کے گھر میں جو قصبہ پیر محل ، مرکزی پنجاب میں واقع تھا ملازمہ تھی۔ اس کے رشتہ دار کہتے ہیں کہ اس سے بذریعہ تشدد اقبالی بیان لیا گیا، اس جرم کیلئے جو اس نے کیا ہی نہیں، یہ حادثہ اس گھر میں 1989میں وقوع پزیر ہوا جہاں وہ ملازمت کرتی تھی۔

اس کا نام بھی FIRڈال دیا گیا تھا۔ مقدمہ چلا اور کورٹ نے اسے اور گھر کے مالک کو 1991میں موت کی سزا سنائی۔ ہر عدالت اور ہر فورم نے اس کی رحم کی اپیل مسترد کردی تھی اور آخر کار صدر پاکستان نے بھی سنہ 2000میں اس کی رحم کی اپیل مسترد کرکے اس کی موت کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔
لیکن جب عدالت کو یہ معلوم ہوا کہ ملزمہ ایک نفسیاتی بیماری جسے Schizophrenia کہتے ہیں کی مریضہ ہے تو اس کی موت کی سزا عارضی طور معطل کر دی گئی۔

اور 2006میں اسے علاج کیلئے لاہور میں ایک سرکاری ہسپتال (PIMH)میں داخل کیا گیا۔ 2015میں میڈیکل بورڈ نے اسے نفساتی مریضہ قرار دیکر اس کے باقاعدہ علاج کی سفارش کی۔ 2018میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس لے کر اس کی تفصیلی میڈیکل رپورٹس طلب فرمالیں۔ جو کہ آج تک سپریم کورٹ میں جمع نہیں ہو سکیں ہیں۔ 2016میں کنیزاں کے والد نے صدر پاکستان سے رحم کی اپیل کی اور کہا کہ اس کی بیٹی کو انصاف فراہم کیا جائے اور اسے رہا کیا جائے۔

میں ایک بہت ہی غریب آدمی ہوں اور کنیزاں میری اکلوتی اولاد ہے۔ میری بیوی کا بھی انتقال ہوگیا ہے، میں اور میری بیٹی اس دنیا میں بالکل اکیلے ہیں۔ وہ ایک زمیندا ر گھرانے میں ملازمت کرتی تھی، اور وہ تو خود ابھی بچی ہی تھی کہ اس پر چھ بچوں کے قتل کا مقدمہ بنادیا گیا، ان بچوں کا جن بچوں کی وہ خدمتگار تھی ۔ زمینداروں نے بلاوجہ میری بیٹی کو اس کیس میں ملوث کیا، جبکہ یہ تو ان کا زمین و جائیداد کا تنازعہ تھا، جبکہ میری بیٹی کا ان بڑے لوگوں کی جائیداد سے کیا لینا دینا۔

پولیس اسے پوچھ گچھ کیلئے لے کر گئی تھی ، مگر پھر میری بیٹی کبھی نہ لوٹ سکی۔ میری بیٹی صرف سولہ سال کی تھی جب اسے گرفتار کیا گیا، مگر پولیس نے اپنے پیپرز میں اسے پچیس سال کا ظاہر کیا ، میں جناب صدر آپ سے بہت ہی مودبانہ گزارش کرتا ہوں کہ میری بیٹی کی زندگی پر رحم کھاتے ہوئے اسے رہا کردیں وہ غریب اپنی زندگی کا بیشتر حصہ تو ویسے ہی جیل ہی میں گزار چکی ہے۔

یہ سب گزارشات کنیزاں کے والد نے صدر پاکستان سے اپنی درخواست میں لکھیں تھیں، مگر صدارتی دفتر کے جواب کا انتظار کرتے کرتے وہ انتقال کر گیا۔
2018میں جیف جسٹس آف پاکستان نے اسے ذہنی امراض کے ہسپتال سے باقاعدہ علاج اور مستقل بنیادوں پر اس کے علاج اور صحت کی خبر گیری کا حکم جاری کیا۔ اور ایک فلاحی ادارے جسے (JPP)کہا جاتا ہے ، سے بھی رابطے میں رہنے اور اس کی صحت و بہبود سے باخبر رہنے کا حکم دیا۔

یہ ادارہ ان بچوں اور ذہنی معذور مریضوں کی قانونی مدد اور ان کے علاج معالجے اور فلاح بہبود کے لئے کام کرتی ہے جنہیں موت کی سزا سنائی جاچکی ہوتی ہے۔ اس ادارے کے وکیل نے بتایا کہ کنیزاں بی بی کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوئی ہے، اس نے گذشتہ دس سال سے کسی سے ایک لفظ نہیں بولا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ گرفتاری کے بعد وہ تین ہفتوں تک پولیس کی حراست میں رہی جس کے دوران اسے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

جس کی وجہ سے اسے ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ اسے بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کے اسے بجلی کے جھٹکے تک لگائے گئے۔ عموما ً اس طرح کے ذہنی معذور قیدی ہمارے عدالتی نظام کی کمزوریوں کا نشانہ بن جاتے ہیں ، اور بروقت انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے بین الاقوامی انسانی حقوق کے بہت معاہدوں کی تصدیق و توثیق کی ہے جن کی رو سے ذہنی معذور یا دماغی توازن کھو چکے قیدیوں کے حقوق کی حفاظت اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا ۔

اس میں معاہدہ برائے سیاسی و سماجی حقوق (ICCPR) اور اقوام متحدہ کی کونسل برائے معاشی و سماجی بہبود (ECOSOC) 1984نے زہنی معذور قیدیوں کے حقوق کی توثیق کی ہے اور اس کے عمل پزیر ہونے کو یقینی بنانے کا اعادہ بھی کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس قانون کا اعادہ کیا ہے کہ ان قیدیوں کو جن کی عمر جرم کے وقت اٹھارہ سال سے کم ہو انہیں موت کی سزا نہ دی جائے۔

اور نہ حاملہ خواتین کو، اور نہ ان خواتین کو جو حال ہی میں ماں بنی ہوں اور نہ ہی ان لوگوں کو جو ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ایسے کیسزکو معطل کیا ہے جن میں قیدی ذہنی عدم توازن کا شکار تھے جیسے 2019میں اقبال بانو اور نو ر جہاں کے کیسز کو معطل کیاگیا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ا س بات کا اعادہ بھی کیا کہ یہ تو انسانی حقوق اور اسلام کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کو سزائے موت دی جائے جس کا ذہنی توازن ٹھیک نہ ہو، یا وہ پاگل ہو، یا اس کی زہنی صلاحیت بہت ہی کم ہو۔

یا ایسے لوگوں کو موت کی سزا دی جائے جو اپنی کم عمری، کم ذہنی صلاحیت کی وجہ سے جرم کا مرتکب ہوگیا ہو۔ حکومت وقت کے مطابق اس وقت تقریباً 600ایسے قیدی جیلوں میں موجود ہیں جو ذہنی طور پر غیر مستحکم یا معذور ہیں۔ JPP کو امید ہے کہ حکومت پاکستان کنیزاں بی بی اور ان جیسے اور بہت سے قیدیوں کو ضرور انصاف فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت وقت سے درخواست کرتے ہیں کہ کنیزاں بی بی کی سزا ختم کی جائے اور ان کو رہا کیا جائے کیونکہ وہ پہلے ہی تیس سال جیل میں گزار چکی ہیں۔

جو عمر قید کی سزا سے بھی دگنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں عدالت عالیہ سے پوری امید ہے کہ وہ ان بے بس ذہنی معذور لوگوں کے حقوق کی قانون اور اسلام کی رو سے حفاظت فرما کر زبردست مثال قائم کریگی۔ JPP نے اس بات کا یقین ظاہر کیا کہ وہ کنیزاں بی بی کو انصاف دلانے تک اپنی جد و جہد جاری رکھیں گے اور اس معاملے کو ہر فورم ہر موقع پر پیش کرکے انصاف کو جلد از جلد کنیزاں تک پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :