روم جل رہا تھا اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا، یہ محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی صاحب اقتدار اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے بجائے سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہا ہو، اور موجود مسائل کو حل کرنے کی بجائے عیاشیوں میں لگا ہو۔ اس حقیقت سے تو سب ہی آشنا ہیں کہ ہم سندھ کے رہنے والے ہر طرح سے مسلسل معاشی اور معاشرتی تنزلی اور استحصال کا شکار ہیں، ہم بڑی شدید ابتری کا شکار ہیں۔
وادی سندھ دنیا کی وہ عظیم وادی ہے جس کی تہذیب قریب پانچ ہزار سال پرانی ہے، ابھی دنیا تمدن کی طرف دیکھ رہی تھی اور سندھ کی عظیم وادی میں تہذیب پروان چڑھ چکی تھی ، بلکہ عمل پزیر تھی، جس کی مثال اس کے شاندار آثار قدیمہ موہنجو دڑو اور ہڑپہ ہیں۔ جو اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ آج سے ہزاروں سال پہلے سندھ کے باسی بڑی تہذیب اور آسائش کے ساتھ زندگی بسر کیا کرتے تھے۔
(جاری ہے)
ان کے آباد کردہ شہروں کے آثار اس ان کے زبردست طرز رہائش کے غماز ہیں۔ وہ سیدھی گلیوں اور چوڑے صحن والے پکے گھروں میں رہتے تھے۔ جن میں پانی کی نکاسی کیلئے باقاعدہ نالیاں بنی ہوئی تھیں۔ جو بارش اور گندے پانی کی نکاسی کیلئے تعمیر کی گئی تھیں۔ تو کیا ہم اپنے ہزاروں سال پرانے اجداد سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔ پورے سندھ کی حالت اس وقت قابل رحم ہے۔
مسلسل تنزلی اور بے توجہی کی وجہ سے یہ پورا کا پورا صوبہ موہنجودڑو بنتا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کی بے توجہی اور ذاتی عیاشیوں کی وجہ سے یہ عظیم صوبہ مسائلستان بن کر رہ گیا ہے، اور حد تو یہ ہے کہ شہر ہوں یا گاؤں سب کی حالت یکساں ابتر ہے۔
سب ایک جیسے مسائل کا شکار ہیں اور سدھار کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سندھ میں ایسا کونسا مسئلہ ہے جو اپنا وجود نہیں رکھتا، غربت، افلاس، بیروزگاری، بھوک، وڈیرا شاہی سے لیکر انصاف کے حصول میں دشواریاں، عام آدمی کی ترقی کی راہ میں حائل دشواریاں ساتھ ساتھ بنیادی شہری سہولتوں کا فقدان یہ سب مل کر سندھ کو پورے پاکستان کا ایک آفت زدہ صوبہ بنا رہے ہیں، مگر ارباب اختیار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، ان کی اولین ترجیح ان کی اپنی ذات ہے، صوبہ اور اس کے باسی تو ان کی نظر میں کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔
لاڑکانہ ہو یا سکھر کراچی ہو یا میرپورخاص بدترین ابتری کا شکار ہیں، شہری سہولتوں کے ساتھ ساتھ انسانی جانیں بھی ہر وقت داؤ پر لگی رہتی ہیں۔ روز کوئی دلدوز خبر آپ کو خون کے آنسو رلانے آجاتی ہے، گذشتہ ہفتے کتے کے کاٹنے سے ایک نو سال کا بچہ ہائیڈرو فوبیا کا شکار ہوکر انتقال کرگیا، بیس دن تک لاڑکانہ کے ہسپتال والے اس پر تجربات کرتے رہے مگر وہ مظلوم جانبر نہ ہو سکا اور جب اسے کراچی لایا گیا تو مکمل ریبیز Full-Blown Rabies کا شکار ہوچکا تھا، اس کے غریب باپ نے لاڑکانے میں ہسپتال کو کافی بڑی رقم بھی دی تھی ویکسین کیلئے جو بقول ہسپتال کے عملے کے وہ بچے کو لگا دی گئی تھی، مگر کراچی میں ٹیسٹ سے پتہ چلا کے اس بچے کو کوئی ویکسین دی ہی نہیں گئی۔
یہ معاملہ بہت مہینوں سے چل رہا ہے پورے سندھ میں آوارہ کتے لوگوں کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور بچے ان کا خاص شکار ہیں آپ چاہیں تو اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیں سانگھڑ، لاڑکانہ، سکھر، سٹھارجہ، میرپورخاص، حیدرآباد اور کراچی سب اس وباء کا شکار ہیں۔ مگر حکومت کی طرف سے کوئی عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی تکالیف میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
اور لوگ قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مگر ارباب اختیار خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
سندھ کو آفت زدہ قرار دیا جانا چاہئے اور ہنگامی بنیادوں پر معاملات کی درستگی کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں، یہاں تعلیم کا معیار انتہائی پست ہے، حیرت انگیز امر یہ ہے کہ لاکھوں روپے کی تنخواہیں لینے والے اُساتذہ کا اپنا تعلیمی معیار بے حد مشکوک ہے، اس کے ساتھ ساتھ بہت بڑی تعداد گھوسٹ اُساتذہ کی بھی ہے، جن کی مستقل تنخواہیں حکومت پر ایک بوجھ ہے اور اس کا فائدہ عام آدمی کو بالکل بھی نہیں پہنچ رہا ہے۔
سندھ میں تعلیم کا شعبہ بدترین صورتحال کا شکار ہے، جس کا شکار عام آدمی ہے کہ اس کے بچے تعلیم کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں، جس کی بنیادی وجہ گھوسٹ ٹیچرز اور گورنمنٹ اسکولز کا پورے کا پورا بجٹ مافیا ز کی جیب میں چلا جانا ہے اور سب مل کر اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، جبکہ امراء اور وڈیروں کے بچے یا تو غیر ملکی انگلش اسکولز کی چین میں پڑھ رہے ہوتے ہیں یا بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبہ کا بھی بہت ہی برا حال ہے، دنیا بھر میں اب کتے سانپ، بچھو کے کاٹنے سے کوئی نہیں مرتا، اگر کسی کو یہ جانور کاٹ لیں تو ان کی جان بچانے کیلئے ان افراد کو فوری طبی امداد دی جاتی ہے ، اس کے برعکس ہمارے ہاں کسی جانور کے کاٹے کی ویکسین موجود نہیں ہوتی، اس کے بھی اعداد و شمار موجود ہیں کے محض چند مہینوں میں سینکڑوں افراد کتے اور سانپ کے کاٹنے سے لقمہء اجل بن گئے۔
کوئی ہے جو ان افراد کو بروقت طبی امداد نہ پہنچنے پر محکمہ کے ملازمین کو ان اموات کا ذمہ دار گردان کر موجب سزا ٹھہرا ئے؟ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ اس کے ساتھ عام شہری صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے چھوٹے شہروں میں تو گورنمنٹ ہسپتالوں کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے ، گذشتہ دنوں ایک ہسپتال میں ڈاکٹر کا ڈرائیور ڈاکٹر بن کر لوگوں کا علاج کر رہا تھا، کمال حیرت امر یہ تھا کہ وہاں کا ایڈمنسٹریٹر کہہ رہا تھا کہ جب ڈاکٹر نہیں ہوتا تو یہ کام کر لیتا ہے، ڈوب مرنے کا مقام ہے، مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
بے حسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ انسان کو انسان ماننے کو تیار نہیں۔ لوگ کتے بلی کی طرح بغیر علاج کے مر جاتے ہیں، عورتیں فرش پر بچوں کو جنم دے دیتی ہیں، بچے بدترین امراض کا شکار ہو جاتے ہیں مگر ان کو علاج کی سہولت میسر نہیں ہو پاتی۔
صحت کے ساتھ ساتھ سندھ کی عوام بنیادی انسانی سہولتوں کے فقدان کا بھی بہت بری طرح شکار ہیں۔ شہری انتظامیہ کی نااہلی جانچنے کیلئے آپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں آپ جہاں بھی رہتے ہیں صرف اپنے اردگرد نظر ڈالئے، فوراً ہی آپ کو احساس ہوگا کہ میرے ٹیکس کے پیسوں سے تو حکمرانوں کی عیاشیاں پوری ہو رہی ہیں سہولتیں کہاں سے ملیں گی۔
کراچی سے لیکر لاڑکانہ تک، ہر جگہ شہری معمولی معمولی سہولتوں کو ترس رہے ہیں۔ اور بھر بھر مٹھی ٹیکس دینے کے باوجود، ٹوٹی سڑکوں، تباہ حال نکاسی آب کے نظام، صاف پانی سے محروم، بجلی سے محروم، زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں، بعض جگہوں پر لاکھوں روپے سے فلٹر پلانٹ لگائے گئے ہیں مگر وہ کام نہیں کرتے۔ گھروں میں گٹر کا گندہ پانی بھر جانا روز کا معمول ہے۔
ٹوٹی سڑکوں کی وجہ سے روز حادثات ہورہے ہیں مگر ارباب اختیار کی وہی بے حسی وہی لاتعلقی ہے جس نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔
تھر قحط کا شکار ہے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ، سینکڑوں بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے، اس حوالے میں سب سے دلخراش منظر یہ تھا کہ ارباب اختیار نے تھر کے قحط سے نمٹنے کیلئے سرکٹ ہاؤس میں ایک اعلی سطحی اجلاس بلایا جس میں 22 اقسام کے کھانوں سے اشرافیہ کی تواضع کی گئی، یاد رہے کہ یہ اجلاس بھوک زدہ لوگوں کے لئے بلایا گیا تھا، جب اجلاس ختم ہوا تو بچا ہوا کھانا بلڈنگ کے پاس گلی میں پھینک دیا گیا جو اتنا تھا کہ کم از کم پچاس لوگ پیٹ بھر کر کھا سکتے تھے، اس پر ظلم یہ ہوا کہ کسی نے ایک تصویر لی جس میں وہ زمین پر پڑا ہوا کھانا ایک انسان اور کتا ساتھ ساتھ بیٹھے کھا رہے تھے۔
یہ ایک زبردست طماچہ تھا ارباب اختیار کے منہ پر، مگر یہ سب تو چکنے گھڑے ہیں۔ ان پر کسی بات کا کوئی بھی اثر نہیں ہوتا۔ یہ سب ایک مافیا کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور کسی خون آشام عفریت کی طرح عوام کا خون چوس رہے ہیں۔
حکومت وقت کو چاہئے کہ ہنگامی بنیادوں پر اس طرف توجہ دیں اور ایسا مستقل نظام متعارف کرائیں جس پر کسی کے ہونے نہ ہونے کا کوئی اثر نہ ہو وہ عوام کی فلاح و بہبود اور آرام و آسائش کیلئے کام کرتا رہے۔ اور سہولتیں سب کیلئے بلاتفریق موجود ہوں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔