اسمبلیز سیاسی دنگلوں کے اکھاڑے

منگل 9 مارچ 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

قریب دو دھائی پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک بزرگ سیاستدان سے معلوم کیا کہ کیا میں بھی سیاست میں آسکتا ہوں، تو انہوں نے میرا ناقدانہ جائزہ لینے کے بعد یہ فرمایا کہ، اگر پیٹھ مضبوط ہے تو ضرور ورنہ مار دیئے جاؤ گے۔ میری سمجھ میں کچھ آیا کچھ نہ آیا بات آئی گئی ہوگئی۔ مگر اب ملک کے سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالتا ہوں تو ان بزرگ سیاستدان کی بات کو سمجھ بھی پاتا ہوں اور بالکل صحیح بھی پاتا ہوں۔


جس روز سے سینٹ الیکشن کی بات چلی ہے اس دن سے سیاسی حلقوں میں ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے، تمام سیاسی پارٹیز اس فراق میں ہیں کہ کسی طرح مخالف پارٹی کو زیر کر سکیں ، اس کے لئے چاہے جو بھی کرنا پڑے کر گزریں گے۔ ایک دوسرے کی خوب پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں، سات سات پشتوں کو رسوا اور بدنام کیا جا رہا ہے، مارا پیٹا جا رہا ہے، یہاں تک کے اغوا تک کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

کیونکہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر بات ریکارڈ ہو سکتی ہے اور بعد میں دھرائی بھی جا سکتی ہے ، لہذا ایک عام آدمی کیلئے امر استعجاب یہ ہوتا ہے کہ ان سیاستدانوں کا کوئی کردار بھی ہوتا ہے یا نہیں کل تک جس کی شدید مخالفت کر رہے ہوتے ہیں یہاں تک کہ اپنے مخالف کی ماں بہن تک کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں آج اسی کے ساتھ کھا پی رہے ہوتے ہیں، ہنس بول رہے ہوتے ہیں گلے مل رہے ہوتے ہیں اور حمایت میں آسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے ہیں، ان کا بس نہ چلے کہ اسے فرشتہ ہی ثابت کردیں، یہ کردار کی انتہائی پستی اور موقع پرستی کی بدترین مثال ہو سکتی ہے۔


مندرجہ بالا مثالیں تو محض معمولی اعمال خبیثہ ہیں ورنہ یہی سیاستدان اپنے مفاد کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں کسی کی جان بھی لے سکتے ہیں، چاہے وہ چند دن پہلے تک ان کا ہم نوالہ ہم پیالہ ہی کیوں نہ ہو۔ آج سندھ اسمبلی میں جو کچھ ہوا ، باشعور اقوام ایسے حادثوں پر شرم سے گڑ جاتے ہیں یہاں تو کان پر جوں تک نہیں رینگتی، یعنی یہ ڈھٹائی اور بے شرمی کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں اور اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کسی رشتے کسی تعلق کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں ہیں، ان کا جینا مرنا ، اول و آخر صرف اور صرف سیاسی مقاصد کا حصول ہے، اور وہ بھی صرف دولت جاہ و جلال ، اور مراعات کے حصول اور اس کے مزے اڑانے کی حد تک ہوتا ہے ، عملی سیاست سے تو یہ کوسوں دور ہوتے ہیں، عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی و نیک نامی سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہوتا،
یہ تو بس ہر وقت کسی بھی سیاسی دنگل کیلئے تیار رہتے ہیں، کہ اس کے ذریعے سے ان کے بہت سارے مذموم مقاصد پورے ہوتے رہتے ہیں۔


دنیا بھر کے اگر سیاسی منظر ناموں پر نگاہ ڈالیں تو پائیں گے کہ یہ سب کچھ وہاں بھی ہوتا ہے ، مگر آٹے میں نمک کے برابر اور اگر کرپٹ سیاستدان پکڑا جائے تو وہ چاہے کسی حیثیت کا حامل ہو سزا سے نہیں بچ سکتا۔ بلکہ اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے کوریا میں مالی بے ضابطگیوں میں ملوث ایک سیاستدان کو سرعام موت کی سزا دی گئی، چین میں بھی کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا، ہمارے عمومی سیاسی ماحول کے برعکس دنیا بھر میں نہایت ہی عمدہ اور باکردار سیاسدان موجود ہیں جو آج بھی دنیا بھر کے لئے مثال ہیں جیسے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا ہیں، جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکل ہیں، ترک صدر رجب طیب اردگان ہیں اور بہت سی مثالیں بھری پڑی ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ سیاست داداگیری ، بدمعاشی، کمینگی اور ذاتی مفادات کے بغیر بھی کی جاسکتی ہے۔

ہمارے ہاں عمومی سیاست موروثیت پر قائم ہے، جس کیلئے صرف ایک ہی اولین شرط سیاستدان کی اولاد ہوناہے ۔ اس کے بعد نہ تعلیم اور نہ تربیت کسی بھی چیز کی ضرورت رہ نہیں جاتی، نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ ان لوگوں کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر پوری قوم شرم سے پانی پانی ہو رہی ہوتی ہے لیکن شرم ان کو مگر نہیں آتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :