وفاقی حکومت کو موجودہ صورتحال کا موثر انداز میں مقابلہ کرنے کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے‘

پاکستان سمیت پوری دنیا کورونا وباء کی لپیٹ میں ہے‘ اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں شہریوں کی ضروریات زندگی پوری نہیں ہو پا رہیں‘ عوام کے مسائل کے حل کے لئے واضح حکمت عملی بنانی چاہیے‘ اس وقت وینٹی لیٹرز سے زیادہ ٹیسٹنگ کی ضرورت ہے، مئی کے آخر اور جون کے اوائل میں پاکستان میں کورونا کے مصدقہ کیسز میں نمایاں اضافہ ہونے کا امکان ہے‘ اس صورتحال میں کسی پر الزام تراشی مناسب نہیں‘ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کا 283واں دن ہے اور یہ مہذب دنیا کا بدترین لاک ڈائون ہے ایوان بالا کے اجلاس میں اراکین کا کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال پر بحث کے دوران اظہارخیال

جمعرات 14 مئی 2020 19:20

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 مئی2020ء) ایوان بالا میں اراکین نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو موجودہ صورتحال کا موثر انداز میں مقابلہ کرنے کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے‘ پاکستان سمیت پوری دنیا اس وباء کی لپیٹ میں ہے‘ کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں شہریوں کی ضروریات زندگی پوری نہیں ہو پا رہیں‘ عوام کے مسائل کے حل کے لئے واضح حکمت عملی بنانی چاہیے‘ اس وقت وینٹی لیٹرز سے زیادہ ٹیسٹنگ کی ضرورت ہے۔

مئی کے آخر میں اور جون کے اوائل میں پاکستان میں کورونا کے مصدقہ کیسز میں نمایاں اضافہ ہونے کا امکان ہے‘ اس صورتحال میں کسی پر الزام تراشی مناسب نہیں‘ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کا 283واں دن ہے اور یہ مہذب دنیا کا بدترین لاک ڈائون ہے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس میں کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا کہ پوری دنیا کورونا کی وبا کی لپیٹ میں ہے ‘وقت کے ساتھ معلوم ہوگا کہ کورونا وائرس قدرتی ہے یا انسان کا بنایا ہوا ہے۔

دنیا میں کورونا سے تین لاکھ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں ۔ ڈاکٹر اپنی جان خطرے میں ڈال کر لوگوں کا علاج کررہے ہیں ۔ موجودہ صورتحال میں پارلیمنٹ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ دو ماہ بعد پارلیمنٹ کا اجلاس ہورہا ہے ۔ حکومت کو خود قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بلانا چاہیے تھا ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر ہورہے ہیں۔

مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر الزام لگایا ہے کہ یہ چائنا وائرس ہے۔ چینی وزیرخارجہ نے امریکہ کو سخت جواب دیا ہے ۔ اب تو کورونا کے بارے بچے بچے کو معلوم ہوچکا ہے ۔ کیا موجودہ صورتحال میں حکومت نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ کہتے ہیں کورونا پر بات کرو ، سیاست نہ کرو‘ میں سیاستدان ہوں ، ہم تو سیاست کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ غریبوں کو راشن فلاحی تنظیمیں دے رہی ہیں ۔ وفاقی حکومت کو کورونا پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے تھا۔ شہبازشریف ، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کے تعاون کے بیان کو ٹھکرا دیا گیا۔ لاک ڈائون کے بارے میں یکساں پالیسی ہونی چاہیے تھی۔ وسیم اکرم پلس نے پنجاب میں وزیراعظم کے فیصلوں کے برعکس فیصلے کیے۔ وزیراعظم نے لاک ڈائون کے حوالے سے کس اشرافیہ کی بات کی۔

ملک میں کورونا کی وبا پھیلی ہے اور یہ سندھ میں لوہا منوانے کی بات کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ختم نبوت کا مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ ختم نبوت پر ایمان کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ ہم وہ کردار ادا نہیں کرنا چاہتے جو پی ٹی آئی نے ہمارے خلاف کیا ‘ ہمارے خلاف دھرنا دیا گیا ۔ نوازشریف پر جوتا پھینکا گیا ، وزیر داخلہ کو گولی ماری گئی اور وزیرخارجہ پر سیاہی پھینکی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں قادیانی پاکستان کے خلاف سر گرم ہیں ‘ کیا قادیانیوں نے کبھی کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے مظالم کی بات کی۔ دنیا بھر میں مظالم کرنے والے قادیانیوں کو کیوں تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ قادیانی پہلے خود کو غیر مسلم تسلیم کریں پھر انہیں اقلیتی کمیشن میں شامل کیا جانا چاہیے ۔ حکومت کورونا پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے شہباز شریف ، بلاول بھٹو اور دیگر لیڈروں سے بات کریں۔

تمام لیڈر کورونا کے خلاف حکومت کا ساتھ دیں گے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت بالخصوص وزیراعلیٰ سندھ نے کورونا وبا کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کئے ہیں۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ کورونا سے لڑنے کے لئے فرنٹ لائن سپاہیوں کی حفاظت کے لئے مکمل طبی سازوسامان فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا سے شہید ہونے والے ڈاکٹرز اور دیگر شہداء کو قومی ہیرو کا درجہ دیا جائے۔

عید اپنے پیاروں کے ساتھ گزارنے کے لئے آگاہی پیدا کی جائے۔ نئے کپڑے‘ جوتے ضروری نہیں بلکہ کورونا سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ کورونا وائرس پر سیاسی لڑائی نہیں ہونی چاہیے۔ غریب کے ہر صورت مفت ٹیسٹ ہونے چاہئیں۔ ہم نے اپنی رپورٹ میں کورونا کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان دیا ہے۔سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ کورونا وباء کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

لاک ڈائون کے باعث ان کی ضروریات زندگی پوری نہیں ہو پا رہی۔ ہمیں عوام کے مسائل کے حل کے لئے واضح حکمت عملی بنانی چاہیے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ چین نے موجودہ مشکل صورتحال میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ ماضی میں قومی امور پر اتفاق رائے سے فیصلے کئے گئے۔ اس وقت وینٹی لیٹرز سے زیادہ ٹیسٹنگ کی ضرورت ہے۔ مئی کے آخر میں اور جون کے اوائل میں پاکستان میں کورونا کے مصدقہ کیسز میں نمایاں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

موجودہ صورتحال میں تمام طبقوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹرز اور صحافی فرنٹ لائن پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے۔ صحافیوں کے لئے بھی خصوصی پیکج کا اعلان ہونا چاہیے۔کورونا وائرس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔اس وائرس کو کیسے روکنا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔یہ مجموعی بحران ہے اس پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہئیے۔

مشاہد حسین نے کہا کہ آج مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاون 283 واں دن ہے مہذب دنیا کی تاریخ کا یہ بدترین لاک ڈاؤن ہے۔ فریڈم فائٹرز ریاض نائیکو اور برہان مظفر وانی کو خراج تحسین پیدا کرتا ہوں۔ مشاہد حسین نے کہا کہ ہمارے ملک میں امیر افراد نے کورونا میں کوئی مالی امداد فراہم نہیں کی۔ امیر افراد جنھوں نے اربوں روپے کمائے انکی فیاضی کہیں نظر نہیں آئی۔

کوئی بھی اکیلی حکومت پارٹی یا ادارہ یہ بحران حل نہیں کرسکتے۔ حکومت فوری طور پرنیشنل ہیلتھ ایمرجنسی کااعلان کرے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹیرینز کو 30 ارب کے فنڈزدینے کی بجائے اس میں لگائیں۔ این سی او سی اس ایوان کو بھی بریفنگ دے۔ سینیٹر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ کورونا وباء کے باعث ڈاکٹرز‘ طبی عملہ ‘ فورسز جو شہید ہوگئے ان کو سلام پیش کرتا ہوں۔

اس وبا کے پھیلائو کو روکنے کے لئے ہمیں شروع میں ہی موثر اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے جنم لینے والے مسائل کو حل کرنے کے لئے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ ہمیں اس صورتحال میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ کورونا وباء کی صورتحال کے دوران سندھ ‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں نے بہترین اقدامات کئے ہیں۔

ڈاکٹر اور طبی عملے کو سلام پیش کرتے ہیں۔ مارکیٹیں اور بازار کھل گئے ہیں اور لوگ بغیر ماسک کے گھوم رہے ہیں۔ یہ وقت متحد ہونے کا ہے ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے۔ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم کورونا وائرس کی کوئی ویکسین ابھی تک تیار نہیں ہوئی۔ ابھی تک اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ لاک ڈائون اور سماجی رابطے برقرار رکھنا ہے۔ موجودہ حکومت نے تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد حکمت عملی وضع کی۔

دنیا میں کہیں بھی لاک ڈائون کا یکساں معیار نہیں ہے۔ حکومت نے موجودہ صورتحال کے تناظر میں مختلف اقدامات کرکے عوام کو ریلیف دیا ہے۔ یہ ریلیف سارے صوبوں کے عوام کو دیا گیا ہے۔ جتنا زیادہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں گے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ کسی بھی وبا کے تناظر میں میڈیکل ٹریننگ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ قیادت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

موجودہ صورتحال میں ہمیں صرف تنقید کی بجائے مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے آگے بڑھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں اور طبی عملہ کو تمام ضروری حفاظتی سامان فراہم کیا جائے اور ان کی تنخواہوں کو دگنا کیا جائے۔ پاک فوج ‘ سیکیورٹی فورسز اور دیگر ادارے بھی فرنٹ لائن پر ہیں۔ ان کو بھی حفاظتی سامان کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے اور ان کی مراعات کو بھی دگنا کیا جائے۔ کشمیر کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں عالمی انسانی حقوق اور قوانین کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے راست اقدامات کئے جائیں۔ افغانستان میں ہونے والے حالیہ واقعہ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔