کالے قانون کے تحت گرفتاریاں بھارتی حکام کی مایوسی اور بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتی ہیں، سید علی گیلانی

منگل 14 جولائی 2020 17:43

سرینگر۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 جولائی2020ء) مقبوضہ کشمیر میں بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ سینئرحریت رہنما محمد اشرف صحرائی اور جماعت اسلامی کے کچھ کارکنوں کی گرفتاری اوران پرکالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ قابض بھارتی حکام کی مایوسی اور بوکھلاہٹ کا ایک اور ثبوت ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سید علی گیلانی نے اپنے ٹویٹ پیغامات میں کہاکہ اس طرح کے جابرانہ اقدامات سے قابض حکام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے برعکس اسے تحریک آزادی کشمیر کو بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام بھارت کے جابرانہ اقدامات کے سامنے نہیں جھکیں گے اور حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سول سوسائٹی کے ارکان اور سماجی کارکنوں نے بھارتی فورسز کی طرف سے قتل وغارت ، گرفتاریوں اور چھاپوں کی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی ٹیمیں مقبوضہ کشمیر بھیجیں تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ علاقے میں عوام کے ساتھ کس طرح کا غلاموں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے بھارتی جیلوںخاص کر نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں غیرقانونی طور پر نظربند آزادی پسند کشمیری رہنماو ٴں کی بگڑتی ہوئی صحت پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ ممتاز شہید کشمیری رہنما محمد مقبول بٹ کے نظربند بھائی ظہور احمد بٹ کے اہلخانہ نے میڈیا انٹرویوز میں ان کی علالت پر تشویش کا اظہار کیا۔ ظہور احمد بٹ میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جس سے بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں بند سینکڑوں دیگر کشمیری سیاسی قیدیوں کی صحت کے حوالے سے سوالات نے جتم لیا ہے۔

ایک مقامی عدالت نے غیر قانونی سرگرمیوںکی روک تھام کے کالے قانون کے تحت نظربند 57 سالہ خاتون کی درخواست ضمانت مسترد کردی ہے۔ ضلع کولگام سے تعلق رکھنے والے شہید نوجوان کی والدہ نسیمہ بانو کو جون کے آخری ہفتے میں بھارتی فوج اور پولیس کی مشترکہ ٹیم نے گھر پر چھاپے کے دوران گرفتار کیا تھا۔دریں اثنا ء کشمیری شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے دنیا کے مختلف ممالک میں متعدد تقریبات منعقد کی گئیں جنہیں 13 جولائی 1931 کو سرینگر میں ڈوگرہ مہاراجہ کی فورسز نے شہید کیا تھا۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 44 ویں اجلاس کے موقع پر منعقدہ ایک ویب نار کے شرکاء نے خبردار کیا کہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر حل ہونے تک جنوبی ایشیاکی افق پر بھارت اور پاکستان کے درمیان جوہری جنگ کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ ویب نار کا اہتمام کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز نے ورلڈ مسلم کانگریس کے اشتراک سے کیا تھا۔

برطانوی مورخ وکٹوریہ شوفیلڈ ، سفارتکا عارف کمال ، ارشاد محمود ، بریگیڈ ئرڈاکٹر سیف ملک اور احمد قریشی نے تقریب سے خطاب کیا اور سردار امجد یوسف خان نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ .اسی طرح کی ایک اور تقریب کا انعقاد تحریک کشمیر برطانیہ نے کیا تھا اور تقریب سے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کے کشمیری رہنماو ٴں نے خطاب کیا جن میں عبدالرشید ترابی ، ڈاکٹر مبین شاہ ، الطاف احمد بٹ ، فہیم کیانی اور محمد غالب شامل تھے۔

فرانس میںقائم جموں وکشمیر فورم نے پیرس کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر مقررین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر دبا? ڈالے۔ تقریب سے خطاب کرنے والوں میں فورم کے صدر آصف جرال ، فراز احمد ، سردار اخلاق ، راجہ شوکت ، کامران بٹ اور ملک مشتاق پاشا شامل تھے۔

ادھر نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے کھٹمنڈو میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارت میں مودی کی زیرقیادت ہندو انتہا پسند حکومت کی طرف سے اس دعوے پر کھڑی کی گئی عمارت کی دھجیاں اڑادیںکہ اتر پردیش کے علاقے ایودھیامیں بابری مسجد کو بھگوان رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اصل ایودھیا نیپال میں ہے اور بھگوان رام جنوبی نیپال میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں ایودھیا پر بڑا تنازعہ ہے لیکن نیپال کے ایودھیا پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔