میر ظفر اللہ یکم جنوری 1944 ءکو روجھان جمالی میں پیدا ہوئے‘ظفر اللہ جمالی صوبہ بلوچستان کی طرف سے اب تک پاکستان کے واحد وزیر اعظم تھے

بدھ 2 دسمبر 2020 23:59

میر ظفر اللہ یکم جنوری 1944 ءکو روجھان جمالی میں پیدا ہوئے‘ظفر اللہ جمالی ..
ڈیرہ مراد جمالی ۔2دسمبر  (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 دسمبر2020ء) :بدھ کے روز رحلت فرمانے والے الحاج میر ظفر اللہ جمالی یکم جنوری 1944 ءکو بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کے گاؤ ں روجھان جمالی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم روجھان جمالی میں ہی حاصل کی بعد ازاں سینٹ لارنس کالج گھوڑا گلی مری، ایچیسن کالج لاہور اور 1965ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

ظفر اللہ جمالی صوبہ بلوچستان کی طرف سے اب تک پاکستان کے واحد وزیر اعظم تھے ‘انھیں انگریزی، اردو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو زبان پر عبور حاصل تھاالحاج میر ظفر اللہ جمالی کی پہچان ایک سنجیدہ اور منجھے ہوئے سیاست دان کی رہی وہ روایات کے پابند تھے جن میں دوستی اور تعلقات نبھانا اور دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا شامل ہے 1970ءکے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار کھڑے ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے 1977ءمیں بلا مقابلہ صوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر خوراک اور اطلاعات مقرر کیے گئے 1982ءمیں وزیر مملکت خوراک و زراعت بنے 1985ءکے انتخابات میں نصیرآباد سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔

(جاری ہے)

1986ءمیں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ پانی اور بجلی کے وزیر رہے۔ 29ءمئی 1988ءکو جب صدر جنرل محمد ضیاءالحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا تو انہیں وزیر ریلوے لگادیا1986ءکے انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے اور صوبائی اسمبلی کے ارکان بنے 1988ءمیں وہ بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد انہوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب تو برقرار رکھا لیکن اسمبلی توڑ دی جسے بعد میں عدالت کے حکم سے بحال کیا گیا اس کے بعد نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے 1990ءکے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 1993ءمیں کامیاب ہو گئے 9 نومبر 1996ءتا 22 فروری 1997ءدوبارہ بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ رہے۔

1997ءمیں سینٹ کے ارکان منتخب کیے گئے1999ءنواز شریف کی جلاوطنی کے بعد جب مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تو جمالی مسلم لیگ (ق) لیگ کے جنرل سیکرٹری بنے یہ جماعت نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹانے والے صدر جنرل پرویز مشرف کی زبردست حمایت کر رہی تھی مخالف دھڑے میں ہونے اور وزیر اعظم کی نامزدگی کے امیدوار ہونے کے باوجود وہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو وطن واپس آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے خواہش مند تھے ۔

انتخابات 2002اکتوبر کے نتیجے میں ان کو پارلیمنٹ نے 21 نومبر 2002 میں وزیر اعظم منتخب کیاوزیر اعظم کا انتخاب کئی سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کے بعد عمل میں آیایہ مرحلہ اس وقت روبہ عمل ہوا جب پیپلز پارٹی کا ایک دھڑا الگ ہو کر مسلم لیگ (ق) کی حمایت پر آمادہ ہوا۔ جمالی دور میں پرویز مشرف کے حمایتوں اور مخالفین کے درمیان جاری رہنے و الی رسہ کشی ایک سال کے بعد دسمبر 2003ءمیں متحدہ مجلس عمل کی مدد سے ستارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد ختم ہوئی متحدہ مجلس عمل اور پرویز مشرف کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ ستارہویں ترمیم منظور کرانے کے بعد پرویز مشرف 31 دسمبر 2004ءتک وردی اتارلیں گے لیکن پرویز مشرف نے یہ وعدہ وفا نہ کیا اپنے وزارت عظمیٰ میں ظفر اللہ جمالی نے کئی وسط ایشیائی، خلیجی ممالک سمیت امریکا کا بھی دورہ کیا بش سینئر سے 90ءکی دہائی میں تعلق قائم تھا پرانے تعلق کو استعمال کرتے ہوئے دورہ امریکا کے دوران صدر بش سے تعلق استوار کیاجمالی اپنے دور اقتدار میں کوئی بڑا عوامی ریلیف دینے میں ناکام رہے تاہم ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ انہیں کے دور میں کوئی بڑا بحران نہیں رہا، متحدہ مجلس عمل سے مذاکرات کو چلائے رکھنا بھی ان کی بری کامیابی سمجھی گئی وزیراعظم ظفر اللہ خان جمالی کی کابینہ میں خورشید قصوری،فیصل صالح حیات، راؤ سکندر اقبال، شیخ رشید احمد، عبدالستار لالیکا، ہمایوں اختر، کنور خالد یونس، نواز شکور، غوث بخش مہر، لیاقت جتوئی، اولیس لغاری، سمیر املک اور سردار یار محمد رند شامل تھے وزیر اعظم بننے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے لگے، انھوں نے دورانِ حکومت صدر کی پالیسیوں کی مکمل حمایت بھی کی۔

ظفر اللہ جمالی ہمیشہ ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کے لیے کوشاں رہے اور جمہوریت کی بحالی کی طرف روبہ عمل رہنے کا وعدہ کیا تاہم وہ اپنی یہ پوزیشن برقرار نہ رکھ سکے اور 26 جون 2004ءکو وزیر اعظم کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے تھے میرظفراللہ خان جمالی دل کے عارضے میں مبتلا تھے چند روز قبل دل کی تکلیف کے باعث ان کو راولپنڈی میں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی)اسپتال کے آئی سی یو میں منتقل کیا گیا تھاجہاں وہ انتقال کرگئے ۔