Live Updates

وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد 33ارکان کی حمایت سے منظور

تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری25اکتوبر بروز سوموار صبح گیارہ بجے ہوگی

بدھ 20 اکتوبر 2021 23:15

وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد 33ارکان کی حمایت سے منظور
ؑکوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اکتوبر2021ء) وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد 33ارکان کی حمایت سے منظور کرلی گئی تحریک عدم پر ووٹنگ 25اکتوبر کو صبح گیار بجے ہوگی ۔ بدھ کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بیس منٹ کی تاخیر سے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت شروع ہوا ۔ اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ قواعدکے مطابق تحریک عدم اعتماد بیس فیصد ارکان کی حمایت سے پیش کی جاسکتی ہے البتہ کیا سپیکر یہ بتائیں گے کہ یہ بیس فیصد ارکان وہ لوگ ہیں جنہوںنے قرار داد پر دستخط کئے تھے یا پورے ایوان سے بیس فیصد اراکین اس کی اجازت دیں گے ۔

انہوںنے کہا کہ کیا قرار داد کے محرکین کی عدم موجودگی میں اسے پیش کیا جاسکتا ہے جس پر سپیکر نے جواب دیا کہ آپ پہلی بار اسمبلی میں نہیں آئے ۔

(جاری ہے)

سینئر رکن ہیں آپ کو سب پتہ ہے ۔ جب 14ارکان نے دستخط کئے ہیں تو ان میں سے ایک بھی موجود ہو تو قرار داد پیش ہوسکتی ہے اور ایک شخص بھی اسے پڑھنے کے لئے کافی ہے قرار داد کو پیش کرنے کی اجازت کے لئے صرف 13ارکان کی ضرورت ہے بعدازاں ایوان سے تحریک عدم اعتماد کو پیش کرنے کی اجازت لی گئی جس پر اسمبلی کی33ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر تحریک پیش کرنے کی اجازت دی اس موقع پر ارکان نے ڈیسک بجائے جس کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا گزشتہ تین سال کے دوران جام کمال خان وزیراعلیٰ بلوچستان کی خراب حکمرانی کے باعث بلوچستان میں شددی مایوسی ، بدامنی ، بے روزگاری اور اداروں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے وزیراعلیٰ جام کمال نے اقتدار پر براجمان ہو کر خود کو عقل کل سمجھ کر صوبے کے تمام اہم معاملات کو مشاورت کے بغیر ذاتی طو رپر چلارہے ہیں جس سے صوبہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاگیا ہے ۔

جبکہا س بارے میں انہیں اراکین وقتاً فوقتال آگاہ بھی کرتے رہے لیکن انہوںنے اس جانب کوئی توجہ نہ دی ۔ علاوہ ازیں بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے وزیراعلیٰ جام کمال خان نے وفاقی حکومت کے ساتھ آئینی اور بنیادی حقوق کے مسائل پر انتہائی غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا ہے ۔ جس سے صوبہ میں بجلی ، گیس ، پانی ، اور شدید معاشی بحران پیدا ہوا ۔ نیز اس وقت صوبہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں بیورو کریٹس ، ڈاکٹرز ، طلباء اور زمیندار حکومت کی بیڈ گورننس کی وجہ سے سراپا احتجاج ہیں۔

لہٰذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جام کمال خان وزیراعلیٰ بلوچستان کی خراب کارکردگی کو مد نظر رکھ کر انہیں وزیراعلیٰ/قائد ایوان کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ پر ایوان کی اکثریت کے حامل رکن اسمبلی کو وزیراعلیٰ/قائد ایوان منتخب کیا جائے ۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ یہ 65ارکان کا مقدس ایوان ہے ۔ یہاں اصولی فیصلہ ہوچکا ہے جام کمال خان ہمارے لئے قابل احترام شخصیت ہیں ہم نہیں چاہتے کہ ان کے نام کے ساتھ ریموڈ لکھا جائے انہوںنے کہا کہ ہمارے پانچ اراکین مسنگ پرسنز میں آگئے ہیں یہ روایت اچھی نہیں ہے ۔

ایوان کا تقدس پامال ہورہا ہے اگر وہ بازیاب نہ ہوئے تو ہم احتجاج کریں گے ہمیں اس حد تک نہیں جانا چاہئے کسی بھی رکن کو لاپتہ کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دی جاسکتی ہماری گزارش ہے کہ مسنگ اراکین کو ریلیز کیا جائے انہوںنے کہا کہ وزیراعلیٰ سے اس ایوان کا اعتماد اٹھ گیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ انہیں مستعفی ہوجانا چاہئے ۔ا قتدار سے چمٹے رہنا مناسب نہیں ہے ۔

اگر وزیراعلیٰ مزید ارکان کو مسنگ کرکے بچ بھی جائیں تو یہ ایوان اب نہیں چل پائے گا۔ قرار داد پر بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈ رملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ پانچ ارکان اسمبلی کو لاپتہ کرنے پر ہم شدید احتجاج کرتے ہیں ارکان کو گرفتار یا لاپتہ کرکے ایوان کا تقدس پامال کیا گیا ہے سپیکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ تقدس کو بحال کریں اور پانچوں ارکان کو فوری طو رپر ایوان میں واپس لایا جائے انہوںنے کہا کہ جب چیف ایگزیکٹیو وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کرے تو اسے عوام کا اعتماد حاصل نہیں ہوتا جب وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہوگی تو معاملات نہیں چل پاتے چیف ایگزیکٹیو پر لازم ہے کہ وہ سرکاری خزانے کی حفاظت کرے اور اسے بہترین انداز میں خرچ کرے اگرا یسا نہیں کیا جاتا تو مسائل بڑھیں گے انہوںنے کہا کہ وزیراعلیٰ کا کام ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ صوبے میں لوٹ کھسوٹ ، غبن ، بدعنوانی ، بے ایمانی کا خاتمہ ہو اور ان تمام کاموں میں ملوث افراد کو سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسا کام نہ کرے لیکن وزیراعلیٰ اس میں ناکام رہے ہیں انہوںنے کہا کہ عوام کا اعتماد برقرار رکھنے کے لئے صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ان کا حق دلائیں او ران کے حقوق کا تحفظ کریں قانون کی عملداری کو یقینی بنائیں اور گورننس کو بہتر بنانے کے لئے وہ بیورو کریسی کو پابند کریں کہ وہ اپنی حدود میں رہ کر کام کریں لیکن بلوچستان میں اس کے برعکس کیا گیا انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قانون پر عملدرآمد کرنے کا پابند بنانے کی ذمہ داری بھی صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کی ہوتی ہے اور وہ قانون کی عملداری کو من و عن یقینی بنائے اور بلا امتیاز قانون پر عملدرآمد ہو لیکن ایسا نہیں ہوتا انہوںنے کہا کہ بلوچستان کے معدنی وسائل کی بہتر انداز میں مینجمنٹ کی جاتی تو عوام کو اس کا فائدہ پہنچتا وسائل کے بے جا اور غیر آئینی و غیر قانونی استعمال سے عوام کا اعتماد چیف ایگزیکٹیو سے اٹھ گیا ہے انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں لوگ پانی کا ایک ٹینکر دو ہزار روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں زراعت کے لئے صرف چھ گھنٹے پانی ملتا ہے جب تک ان اہم مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی تو عوام چیف ایگزیکٹیو پر اعتماد نہیں کرتے انہوںنے کہا کہ لوگ سردی سے مررہے ہیں گیس کی صورتحال گھمبیر ہے عوام کے جان و مال عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے وسائل کی تقسیم میں انصاف نہیں ایک ضلع کو بارہ ارب اور اپوزیشن کے حلقوںکو تیرہ کروڑ روپے دیئے گئے جن میں سے صرف چار سے پانچ کروڑ ریلیز ہوئے باقی فنڈز وزیراعلیٰ کی جانب سے روک دیئے گئے وزیراعلیٰ کو نہ حکمرانی کا حق ہے اور نہ ہی وہ اس کی اہلیت رکھتے ہیں لہٰذا وہ مستعفی ہوجائیں ۔

بی این پی کے رکن ثناء بلوچ نے کہا کہ تین سالوں سے بلوچستان مشکلات کا شکار ہے جس حکمران کے کان اور آنکھیں بند ہوں اسے یہی دن دیکھنے پڑتے ہیں حکومتیں دولت ، طاقت ، اکثریت پر قائم نہیں رہتیں بلکہ حکومت امید اور صبر پر قائم رہتی ہے بلوچستان میں عوام کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے انہوںنے کہا کہ جب آس پاس خوشامدی ہوں تو کوئی قابل ، لائق اوروطن دوست شخص نہیں بچتا ۔

ہم نے وزیراعلیٰ سے اختلاف کے باوجود صوبے کے مفاد کے لئے مشاورت اور مفاہمت کی پالیسی اپنانے کا عزم کیا تین سال کے بعد تحریک عدم اعتماد کو اکثریت حاصل ہوئی ہے جام کمال خان صوبے کو تباہی و بربادی کے دہانے پر لے آئے ہیںتیل کاکاروبار کرنے والے سڑکوں پر ہیں حکومت سے کہا کہ وفاق سے بات کرے لیکن ایسا نہیں کیا گیا آج ہزاروں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں زمیندار ساڑھے تین سو ارب روپے کا نقصان کرچکے ہیں حکمران تبدیل بھی ہوجائیں تو بھی ہم بلوچستان کے مفاد میں بات کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔

وزیراعلی جام کمال خان کی تین سالہ حکمرانی کے اثرات تیس سال تک رہیں گے سات کروڑ روپے سے سپورٹس کمپلیکس بنا کر ایک سو سات ارب روپے خسارے اور تھرو فارورڈ کا بجٹ پیش کرنے کی بجائے اگر بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بچانے پر خرچ ہوتے تو آج صوبے کا بھلا ہوتا ۔2015-16ء کے بعد سے پی پی ایل کا معاہدہ نہیں ہوا اس پر ایک اجلاس تک منعقد نہیں کیا گیا اگر صوبے میں درست سمت ہوتی تو گیس کے کنویں دریافت کئے جاتے وزیراعلیٰ عزت نہ بھی دیں تو ہمیں فرق نہیں پڑتا مگر ان کی پالیسیوں سے پورے صوبے کا اجتماعی نقصان ہوا ہے انہوںنے کہا کہ تین قرار دادیں منظور ہونے کے باوجود کسی ایک بھی رکن اسمبلی کے ہمراہ وزیراعلیٰ سی پیک کے معاملے پر اسلام آباد نہیں گئے نہ ہی کوئی اجلاس بلایا ہ۔

صوبے میں اکنامک زو ن بننے تھے وہ نہیں بن پائے انہوںنے کہا کہ وزیراعلیٰ نہ بلوچستان نہ یہاں کے عوام اور نہ ہی اراکین اسمبلی سے تعلق بناسکے ہیں چھ سال سے این ایف سی کا مسئلہ زیر التواء ہے انہوںنے کہا کہ لوگ مکران سے لاشیں لا کر وزیراعلیٰ کے گھر کے باہر احتجاج کررہے تھے اور وزیراعلیٰ جہاز میں بیٹھ کر گوادر جیپ ریلی میں چلے گئے ہوشاب واقعہ کا فیصلہ ہائیکورٹ نہیں بلکہ بلوچستان اسمبلی میں ہونا چاہئے تھا ۔

انہوںنے کہا کہ تین سال میں تعلیم کی مد میں بارہ فیصد فنڈ بھی خرچ نہیں کئے گئے کورونا سے صوبے کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی لیکن حکومت نے اربوں روپے لوڈو اور دیگر غیر ضروری اشیاء پر خرچ کردیئے میڈیکل کالجز کی تعمیر تاخیر کا شکار ہے سریاب روڈ کو کھود کر قبرستان بنادیا گیا ہے ڈیڑھ ارب روپے مالیت کی خریدی گئی فائبر بوٹس کہاں ہیں انہوںنے کہا کہ میٹھا کھانے سے شوگر ہوتی ہے اور میٹھے مشوروں سے تحریک عدم اعتماد آجاتی ہے وزیراعلیٰ نے پی ایس ڈی پی میں حقیقی منصوبے نظر انداز کرکے اپنے نومولود سیاسی لوگوں کو نوازا انہوںنے کہا کہ وزیراعلیٰ ریفرنڈم کرائیں اگر دو فیصد عوام نے بھی ان کا ساتھ دیا تو میں سیاست چھوڑ دوں گا انہوں نے کہا کہ خاران میں اہم ترقیاتی منصوبے اس لئے نکال دیئے گئے کیونکہ وہ میر احلقہ تھا 33ارکان نے آج وزیراعلیٰ کے خلاف فیصلہ دیا ۔

کل یہ چالیس ہوں گے اور اس سے بڑھ بھی سکتے ہیں وقت آگیا ہے کہ صوبے کو عدم استحکام کی جانب سے لیجانے کی بجائے وزیراعلیٰ مستعفی ہوجائیں ۔عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے سیاسی عدم استحکام ہی کی وجہ سے آج پاکستان خطے میں تنہا ہوچکا ہے اور داخلہ اور خارجہ پالیسی کی ناکامی بھی اسی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہے ۔

سیاسی پارٹیوں کو توڑا گیا 2018ء میں جن کے خلاف یہ کھیل کھیلا گیا تھا آج وہ اسی کھیل کا حصہ بن گئے ہیں کاش یہ یکجہتی ہمیں اس دن دیکھنے کو ملتی جب سینٹ کا الیکشن ہوا اور اس الیکشن میں عثمان خان کاکڑ اور ساجد ترین ایڈووکیٹ دونوں میں سے کوئی کامیاب نہیں ہوا ۔ اس کے باوجود کہ ساجد ترین کی پارٹی کے دس ووٹ تھے مگر وہ ناکام ہوگئے ۔ ہم پہلے دن جب اس حکومت کے اتحادی بنے تو حکومت نے ہمارے ساتھ جو کمٹمنٹ اور وعدے کئے تھے وہ پورے کئے دو ماہ پہلے پیش ہونے والے بجٹ پر اس ایوان میں حکومت میں شامل ساتھیوں نے گھنٹوں گھنٹوں تک تقاریر کی اس حالت میں اسمبلی پہنچے جب یہاں گملوںکی بارش تھی اور گیٹ کو تالے لگائے گئے تھے سمجھ نہیںآ رہی کہ دو یا تین ماہ میں کون سی ایسی بات سامنے آئی کہ سب کچھ پلٹ گیا ۔

وہ ساتھی جو پانچ سال تک جام کمال ہی کو وزیراعلیٰ دیکھنا چاہتے تھے آج مائنس جام کمال کہہ رہے ہیں انہوںنے کہا کہ صوبے میں اس وقت ایک نئی تاریخ لکھی جارہی ہے کہ کیسے ایک سیاسی جماعت کو توڑا گیا یہ جو کھیل بلوچستان سے شروع ہوا ہے ایسے میں ہم صوبے میں مزید سیاسی عدم استحکام ، تباہی و بربادی دیکھ رہے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ گزشتہ شب میںنواب محمد اسلم رئیسانی کی وہ تقریر سن رہا تھا جس میں وہ ایوان میں بھائی اور بہن کی طرف اشارہ کررہے تھے آج سب یکجا ہورہے ہیں انہوںنے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ دو سال میں بہت کچھ حاصل کرے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے یہ کھیل بی این پی کے ساتھ بھی کھیلا گیا اگر موجودہ حکومت کو ہٹا کراپوزیشن اپنی حکومت بناتی تو ہمیں خوشی ہوتی قدوس بزنجو کی قیادت میں بی این پی ، جمعیت اور پشتونخوا میپ کے متحد ہونے پر تاریخ لکھی جائے گی ایسا نہ ہو کہ سردار اختر مینگل کی وہ بات دوبارہ دہرائی جائے کہ کچھ لوگ ہمارے ساتھ تھے جب ہم نے پیچھے دیکھا تو کوئی نہیں تھا ۔

انہوںنے کہا کہ ہمارا ماضی ایک دوسرے کے خلاف کھلی کتاب کی مانند موجود ہے کسی کا اشیرباد حاصل نہ ہوتا تو شایدیہ اتنا بوجھ نہ اٹھاپاتے انہوںنے کہا کہ اپوزیشن سے کہتا ہوں کہ وہ خود بھی ماضی میں اس طرح کے واقعات کا شکار ہوئے ہیں بی اے پی کو توڑ کر انہیں خوشی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے انہوںنے کہا کہ میں پرامید ہوں کہ موجود ہ حکومت مزید دو سال صوبے میں حکومت کرتی رہے گی اور صوبے کے مسائل حل کئے جائیں گے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی ( عوامی ) میر اسد بلوچ نے کہا کہ ملک کے آئین میں لکھا ہے کہ ایوان میں 33ارکان اسمبلی اگر کسی کو سپورٹ کریں تو وہ قائد ایوان بن سکتا ہے اور اگر یہی33ارکان اسمبلی عدم اعتماد کااظہار کریں تو اسے جانا ہوگا یہ ایک جمہوری ہے اس جمہوری عمل کو غیر جمہوری عمل قرار دینے پر افسوس ہے یہی دوست میرے پاس آئے کہ وزیراعلیٰ کو نکالنا چاہئے یہ کہاں وزیراعلیٰ کے خیر خواہ ہیں اگر انہیں نئے اضلاع ، ڈویلپمنٹ میں حصہ اور سینٹ میں شراکت داری نہ ملتی تو یہ بھی آج ہمارے ساتھ ہوتے مفادات حاصل کرکے اب وہ جمہویت کی بات کرتے ہیں ۔

انہوںنے کہا کہ زراعت ، صحت ، مائنز ، جنگلات اور دیگر محکمے وزیراعلیٰ نے اپنے ساتھ رکھے ہیں کیا اس کو ہم لالچ کا نام نہ دیں ۔ یہ منصب کسی ذات کا نہیں ۔ اپوزیشن اراکین افغانستان ، بھارت یا خلیج سے نہیںآ ئے صوبے کے اکثریتی عوام نے انہیں ووٹ دیا ہے ۔ مگر یہاں جب گنتی کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ چالیس اراکین ہیں انہوںنے کہا کہ ہم اس حکومت کا حصہ رہے مگر کچھ فیصلے ہمارے ہاتھ میں نہیں تھے موجودہ حکومت میں ریڈ زون میں جتنے لوگوں کی لاشیں انصاف کے لئے لائی گئیں صوبے کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا ۔

دو بچوں کی لاشیں ریڈ زون میں لا کر رکھی گئیں ان کا مطالبہ تھا کہ جو اس واقعہ کا ذمہ دار ہے اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے مگر افسوس کہ ان کی داد رسی کرنے کی بجائے وزیراعلیٰ گوادر کی جیپ ریلی میں مصروف رہے ۔انہوںنے کہا کہ تین سال کے دوران بجٹ کے ہر پیسے کی اس ایوان نے منظوری دی مگر اس کا استعمال ایک فرد نے کیا ۔ میرے حلقے میں بھی غیر منتخب لوگوںکو نوازا گیا جب اپوزیشن کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ پی ڈی ایم کے لوگ ہیں اور پی ڈی ایم کا حصہ ہیں آیا پی ڈی ایم کوئی بلا ہے کروڑوں لوگ پی ڈی ایم جماعتوں کے ساتھ ہیں تو پھر ان کے شناختی کارڈ او رپاسپورٹ منسوخ کردیئے جائیں انہوںنے کہا کہ ہمارے جو ساتھی لاپتہ ہیں انہیں فوراً گھر یا اسمبلی پہنچایا جائے اراکین اسمبلی کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا خون کی ندی میں اتر کر محل بنانے والوں کو تاریخ میں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جائے گا انہوںنے مطالبہ کیا کہ بلوچستان اسمبلی میں 34اراکین اسمبلی بشمول لالا رشید بلوچ کے تحریک کی حمایت میں ووٹ دیا ہے لہٰذا اب وزیرعلیٰ کو چاہئے کہ وہ مستعفی ہوجائیں چونکہ انہیں اب ایوان کا اعتماد حاصل نہیں رہا لہٰذا وہ فائلوں پر دستخط کرنے سے گریز کریں اور چیف سیکرٹری سے بھی کہتا ہوں کہ وہ غیر قانونی اقدامات کو روکیں ۔

انہوںنے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو حکومت بنائیں گے اگر ناکام ہوئی تو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھیں گے ۔وزیر کھیل ایچ ڈی پی کے پارلیمانی لیڈر عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ اعتماد اور عدم اعتماد جمہوری ، پارلیمانی عمل کا حصہ ہوا کرتا ہے لیکن اس کو بنیاد بنا کر پارلیمانی نظام کو ڈی ریل کرنا اختلاف رائے نہیں بلکہ تخریب کاری ہوتی ہے تحریک عدم اعتماد میں مختلف باتوں کا ذکر کیا گیا تحریک عدم اعتماد میں امن وامان کی بھی بات کی گئی تو میں اپنے دوستوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا امن وامان کی صورتحال آج خراب ہے یا جب بیس سال کے دوران ہم سو سو لاشوں کے ساتھ دھرنے دیتے رہے ۔

جب بسوں سے مسافروں کو اتار کر شہید کیا جاتا تھا جب ساٹھ سے زائد وکلاء شہید ہوئے اور لوگوں کو اغواء کیا جاتا تھا واضح طو رپر ماضی کے مقابلے میں آج امن وامان کی صورتحال ننانوے فیصد بہتر ہے ۔ عدم اعتماد کی تحریک میںبے روزگاری کی بات کی گئی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے تو جو ناراض وزراء اور مشیر تھے سب سے زیادہ اسامیاں انہی کے محکموں میں مشتہر ہوئیں انہوںنے کہا کہ جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اخلاص کی بنیاد پر نہیں بلکہ کینہ اور بغض کی بنیاد پر لائی گئی ہے لالا رشید بلوچ کو مسنگ قرار دیا گیا وہ خود نہ صرف یہاں موجود ہیں بلکہ انہوںنے وضاحت بھی کردی ہے کہ وہ مسنگ نہیں تھے ۔

ہمارا روز اول سے واضح موقف ہے کہ ہم جام کمال خان کے ساتھ ہیں اس موقع پر انہوںنے کہا کہ رکن اسمبلی قادر علی نائل کے ضمنی انتخاب میں جب ہم بی این پی کے پاس حمایت کے لئے گئے تو انہوں نے واضح طو رپر کہا تھا کہ چونکہ ایچ ڈی پی باپ کی اتحادی ہے ہم حمایت نہیں کرسکتے لیکن آج وہ کیا کررہے ہیں انہیں خود اس کو دیکھنا چاہئے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اختر حسین لانگو نے کہا کہ جہاں حکمرانوں میں احساس اور ضمیر زندہ نہ رہے وہاں حکمرانوں کو حکومت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا یہاں پر چھ دن تک دو بچوں کی لاشیں ریڈ زون کے سامنے رکھ کر احتجاج کیا جاتا رہا مگر وزیراعلیٰ جام کمال خان ان کے پاس یکجہتی کے لئے جانے کی بجائے گوادر جیپ ریلی میں شرکت اور میوزیکل پروگرام سے لطف اندوز ہوتے رہے اس دوران بلوچستان ہائیکورٹ کا ایک مستحسن فیصلہ آیا انہوںنے کہا کہ ہم اکثریہ سنتے آئے ہیں کہ صوبے کے کسی حصے سے کوئی لاپتہ ہوگیا مگر آج تو روایات کو پامال کرتے ہوئے بلوچستان کی خواتین ارکان اسمبلی مسنگ ہیں اگر ہماری تعداد ہی کم کرنی تھی تو مرد ارکان اسمبلی کو مسنگ کرتے ہماری تاریخ رہی ہے کہ ہم نے اپنے موقف اور نظریے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیااور نہ کریں گے ا س موقع پر اختر لانگو اور محمدخان طور اتمانخیل کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا ۔

اختر لانگو نے کہا کہ ہمارے ارکان کو توڑنے ، خریدنے یامسنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے اس موقع پر انہوںنے عبدالخالق ہزارہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہوںنے ضمنی انتخابات میں حمایت کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیا جب وہ ہمارے پاس آئے تھے تو ہم نے ان سے کہا تھا کہ ہم نے اپنی اپوزیشن اتحادی جماعت جے یوآئی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور انہی کا ساتھ دیں گے اس موقع پر ایک مرتبہ پھر اخترحسین لانگو اور صوبائی وزراء میں سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ۔

عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ سیاست میں کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا سیاست میں کسی پر کوئی زبردستی نہیں ہوتی ۔ آج کے اجلاس میں ارکان کے مسنگ ہونے کی بات کی گئی مگر لالا رشید ایوان میں موجود ہیں ہم نے عدم اعتماد کی تحریک کو قطعی غیر جمہوری نہیں کہا بلکہ اپنی جماعت کے معاملات میں مداخلت کو غیر جمہوری عمل قرار دیا تحفظات اور خدشات ہر جگہ ہوتے ہیں اگر بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر ایسی کوئی صورتحال ہے تو ہم پیش کش کرتے ہیں کہ بیٹھ کر معاملات کو حل کیا جائے انہوںنے کہا کہ ہم نے پہلے دن ہی واضح کیا ہے کہ ہم جام کمال خان کے ساتھ ہر حال میں کھڑے ہیں چاہے وہ جیتیں یا ہاریں ہم جام کمال خان کے ساتھ ہیں ۔

اس موقع پر انہوںنے ایک غیر ملکی یونیورسٹی کا خط بھی پڑھ کر سنایا جو وزیراعلیٰ جام کمال خان کی بہتر کارکردگی سے متعلق تھا جس پر ثناء بلوچ اور زمرک خان اچکزئی کے مابین تند وتیز جملوں کا تبادلہ ہوا ۔انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ کوئی ہمیں قربانیوں کی باتیں نہ سنائے ہماری جماعت نے سب سے زیادہ شہداء دیئے ہیں ہم نے ستر سال میں سینکڑوں شہداء کی لاشیں اٹھائیں ہم سیاست میں ایک دوسرے کے احترام کے قائل ہیں باچاخان کے پیروکار ہیں عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں او ر ہر غیر جمہوری اقدام کی مخالفت کرتے ہیں انہوںنے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک اگرچہ جمہوری عمل ہے مگر پورے ملک میں باتیں ہورہی ہیں کہ یہ تحریک کن بنیادوں پر لائی گئی کسی کی خواہشات پوری نہ ہونے پر تحریک عدم اعتماد لانا نہیں بنتا ۔

پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اب اخلاقی طو رپر قائد ایوان نہیں رہے لوگوں کا ضمیر خریدنے کے لئے پیسے کا استعمال کیا گیا مگر اس کے باوجودتینتیس اراکین نے عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کی ہے انہوںنے کہا کہ تین سال کے دوران بلوچستان میں تعلیم کا شعبہ تنزلی کا شکار رہا امن وامان کی صورتحال ابتر سے بتر ہوئی ہے صوبے میں کہیں بھی حکومت کی رٹ نہیں ہے ۔

ہرنائی کے زلزلہ متاثرین اب بھی ایک ایک ٹینٹ کو ترس رہے ہیں وزیراعلیٰ نے سی پیک ، ریکوڈک ، این ایف سی میں صوبے کے محصولات کے لئے وفاق سے بات تک نہیں کی سی پیک منصوبہ سیل پیک منصوبہ بن گیا ہے اس کے باوجود وزیراعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ مجھے وزیراعلیٰ رہنے دیا جائے انہوںنے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کے بعد ایک ماہ کے دوران وزیراعلیٰ نے جو فیصلے کئے ہیں وہ تمام غیر آئینی ہیں ۔

جمعیت علماء اسلام کے میر زابد علی ریکی نے کہا کہ واشک کے مظلوم عوام کی دعائوں کی بدولت یہ دن آیا ہے جس کا ہم انتظار کررہے تھے انہوںنے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کو دورہ واشک کے موقع پر میں نے صورتحال سے آگاہ کیا مگر اس کے باوجود وزیراعلیٰ نے عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے ایک غیر منتخب نمائندے کو پی ایس ڈی پی میں 65کروڑ روپے کے منصوبے دیئے حکومت نے تین سال کے دوران واشک میں صحت اور تعلیم کے لئے کوئی قابل ذکر منصوبہ شروع نہیں کیا واشک کا واحد ڈی ایچ کیو گیارہ سال سے غیر فعال ہے بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن پر بکتر بند گاڑیاں چڑھائی گئیں ۔

ہم جیلوں میں گئے آج تین ماہ بعد وزیراعلیٰ کو اس مقام پر آنا پڑا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن مبین خان خلجی نے کہا کہ یہ ایک جمہوری عمل ہے اپوزیشن نے بی اے پی کے ساتھ مل کر عدم اعتماد کی تحریک پیش کی یہی اپوزیشن جماعتیں بی اے پی سے متعلق کیا کچھ نہیں کہتی رہی ہیں اور آج چاپلوسی سے تعلقات بنائے اور اپنے مفادات کے لئے ان کے ساتھ یکجا ہوئے ہیں انہوںنے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور پارٹی کے صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے جام کمال خان کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور ہمیں کہا ہے کہ ہم تحریک میں وزیراعلیٰ کا ساتھ دیں اور ہم وزیراعلیٰ ہی کا ساتھ دیں گے ۔

بی این پی کی رکن شکیلہ نوید دہوار نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں مگر ایک اچھے لیڈر نہیں بن سکے موجودہ دور حکومت میں جتنے مظاہرے ریڈ زون کے باہر ہوئے صوبے کی تاریخ میں کبھی یہ صورتحال دیکھنے کو نہیں ملی ۔ لوگ تربت سے اپنی لاشوں کو وزیراعلیٰ کے دروازے تک لے کر آئے مگر وزیراعلیٰ ان کی داد رسی کی بجائے جیپ ریلی میں شریک رہے ۔

انہوںنے کہا کہ موجودہ وزیراعلیٰ کی ناانصافیاں تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں ۔جمعیت علماء اسلام کے حاجی محمد نواز کاکڑ نے کہا کہ یہ سلسلہ اس دن شروع ہوا جس دن اسمبلی کے گیٹ پر ارکان اسمبلی پر بکتر بند گاڑی چڑھائی گئی اور جو لوگ اس حوالے سے کمیٹی میں تھے انہوں نے حالات خراب کئے اپوزیشن ارکان پر بکتر بند گاڑی چڑھانے کے فوری بعد وزیراعلیٰ کس طرح اسمبلی میں پہنچے کس نے انہیں آنے کی اطلاع دی انہوںنے کہا کہ جام کمال خان کو ان کے مشیروں نے یہاں تک پہنچایا آج واضح ہوگیا کہ 34ارکان نے جام کمال خان پر عدم اعتماد کااظہار کردیا انہیں اپنے مشیروں کی باتوں میں آنے کی بجائے مستعفی ہو کر چلے جانا چاہئے صوبائی وزیر مٹھاخان کاکڑ نے کہا کہ آج تو صرف تحریک عدم اعتماد پیش کی جانی تھی جبکہ ووٹنگ تو آئندہ اجلاس میں ہونی تھی مگر آج 34ارکان کو جس طرح کھڑا کیا گیا اس سے مخالفین کی شکست واضح ہوگئی ہے جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد لانے والوں کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی یہاں یہ بات افسوسناک ہے کہ اگر کوئی گھر میں بھی ناراض ہوجاتا ہے تو اداروں کا نام لے لیا جاتا ہے ۔

انہوںنے کہا کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران سب کچھ واضح ہوجائے گا ۔ جے یوآئی کے اصغر علی ترین نے کہا کہ کل تک اپوزیشن ارکان باتیں کرتے تھے مگر اب ان وزراء جن کے پاس اچھی وزارتیں تھیں انہوںنے اپنی وزارتیں چھوڑ دیں اور واضح کردیا کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں ہیںانہوںنے کہا کہ جب اس ایوان میں بجٹ پیش کئے جانے سے قبل ہم نے اسمبلی کے باہر کیمپ لگایا تو وہاں وزراء آتے جاتے رہے مگر کیمپ میں کوئی نہیںآ یا اور نہ ہی انہوںنے جام کمال خان کو کیمپ میں آنے دیا آج جام کمال خان جس جگہ پہنچے ہیں اس میں ان کے اتحادیوں کا ہاتھ ہے اپوزیشن ارکان کے ساتھ تین سال میں جو کچھ ہوتا رہاہم برداشت کرتے رہے مگر آج وزراء نے بھی استعفے دے کر قربانی دی ہے بلوچستان کا پیسہ جو تعلیم اور صحت پر خرچ ہونا چاہئے تھا وہ ایکسپو اور موٹرریلی میں لگایاگیا اس موقع پر اصغر ترین اور صوبائی وزیر مٹھاخان کاکڑ کے درمیان تندو تیز جملوں کا تبادلہ ہوا ۔

صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں اسی ایوان نے اکثریت سے جام کمال خان کو وزیراعلیٰ بنایا اور آج یہی ایوان ان پر عدم اعتماد کا اظہار کررہا ہے اجلاس میں ارکان کی اکثریت نے جام کمال پر عدم اعتماد کااظہا ر کردیا لہٰذا جام کمال خان کو اخلاقی طو رپر استعفیٰ دے دینا چاہئے انہوںنے کہا کہ آج ایوان میں جس جمہوری انداز میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی اس سے جمہوریت مستحکم ہوئی بلوچستان کے عوام کی جام کمال خان سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئیں ہم کابینہ میں جام کمال خان کو مثبت مشورے دیتے رہے مگر انہوںنے ہمارے مشورے نہیں سنے بلکہ ان کے ارد گرد جو لوگ موجود تھے وہ انہیں غلط مشورے دیتے رہے تحریک عدم اعتماد کسی بدنیتی پر مبنی نہیں بلکہ عوامی رد عمل ہے بحیثیت وزیرمیں شرمند ہ ہوں کہ ہم صوبے کے عوام کے لئے کچھ نہیں کرسکے ۔

انہوںنے کہا کہ ہرنائی میں پہلے سیلاب اور پھر زلزلہ آیا مگر وزیراعلیٰ نے وہاں کے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا اگر یہ کچھ کہیں اور ہوتا تو شاید وزیراعلیٰ وہاں خود موجود ہوتے اور بڑھ چڑھ کر امداد کرتے۔ اس موقع پر سپیکر نے ایک بار پھر وضاحت کی کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لئے تیرہ ارکان کی ضرورت تھی تاہم 34نے حمایت کی کوئی رکن مسنگ نہیں آئی جی پولیس سے کہا ہے کہ جو ارکان آج کے اجلاس میں نہیں آئے انہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن وہ آئیں اور اپنی رائے کااظہار کریں ۔

بی اے پی کے رکن خلیل جارج نے قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جو جماعتیں بلوچستان عوامی پارٹی کو ایجنسیوں کی جماعت کہتی تھیں آج وہی اپوزیشن بی اے پی کے ساتھ مل کر ایجنسیوں کی اپوزیشن ہوگئی ہے میں آج بھی جام کمال خان کو اپنا قائد مانتا ہوں جب تک اسمبلی ہے میں ان کے ساتھ ہوں انہیں بلوچستان کی ترقی کے لئے کئے جانے والے کاموں کی سزا دی جارہی ہے جام کمال خان نے اقلیتوں کے لئے کام کیا ہے یہ بی اے پی کا مسئلہ ہے ہم اپنے لوگوں کو کبھی نہیںچھوڑیں گے بلوچستان کے عوام کا اعتماد صرف جام کمال خان کو حاصل ہے میں تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرتا ہوں یہ غیر ملکی اور پاکستان کی ترقی کا مخالف ایجنڈا ہے ۔

جب مفادات کی بات آتی ہے تو یہ لوگ دو دو ہاتھوں سے ڈیسک بجاتے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ میں چوبیس سال مسلم لیگ(ن) کا حصہ رہنے کے بعد بی اے پی کا حصہ بنا ۔ بی اے پی میں پی ڈی ایم نے حصہ لیا ہے ۔ پی ڈی ایم نہیں چاہتی کہ بلوچستان کے لوگوں کو روزگار ملے یہاں ترقی ہو اور لوگ خوشحال ہوں ۔اس موقع پر سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد بی اے پی ، بی این پی ( عوامی ) اور پی ٹی آئی کے ارکان لائے ہیں اس میں پی ڈی ایم کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے ۔

پی ٹی آئی کے رکن میر نصیب اللہ مری نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کبھی دوستوں کو ایک کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ کچھ لوگ جو میرے پاس جام صاحب کو نکالنے کے لئے آتے تھے اب کام نکالنے کے بعد کہتے ہیں کہ جام صاحب سب سے اچھے ہیں انہوں نے کہا کہ میرے حلقے میں سڑکیں ، ہسپتال ، سمیت دیگر بنیادی سہولیات کا فقدان ہے وزیراعلیٰ کو کئی مرتبہ کہا کہ وہاں پر ترقیاتی کام کرائے جائیں لیکن نہیں ہوا ۔

کیا ہمارے علاقے کو ایک ارب روپے نہیں دیئے جاسکتے تھے میں نے جام صاحب کو ہمیشہ کہا کہ حزب اختلاف کے لوگوں کو بھی فنڈز دیئے جائیں لیکن انہوںنے ایسا نہیں کیا ۔ انہوںنے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پاس اکثریت نہیں رہی وہ مستعفی ہوجائیں جام کمال خان خاندانی شخص ہیں لیکن خاندانی لوگ خواتین کے ساتھ ایسارویہ نہیں رکھتے جیسا آج خواتین ارکان کے ساتھ رکھا گیا ۔

انہوںنے کہا کہ ہمارے پاس چالیس سے زائد ارکان کی حمایت ہے وزیراعلیٰ کے نمبرز کبھی پورے نہیں ہوں گے ۔ہم صوبے میں جمہوری طریقے سے تبدیلی لارہے ہیں ۔ جمعیت علماء اسلام کے رکن سید عزیز اللہ آغا نے تحریک کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 34ارکان کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں ووٹ دینے کے بعد جام کمال خان وزیراعلیٰ نہیں رہے وہ عددی اکثریت کھوچکے ہیں بلوچستان کے عوام دربدر ہیں یہ صرف وزیراعلیٰ کی غلط پالیسیوں ، رویے اور غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے انہوںنے کہا کہ بلوچستان کے تمام طبقات احتجاج پر ہیں وزیراعلیٰ کے بیٹے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں لیکن ہمارے بچوں کا خون وزیراعلیٰ کو نظر نہیںآ تا وزیراعلیٰ کو ساڑھے تین سال کا حساب دینا ہوگا ہماری کوشش ہے کہ ہم بلوچستان کو اوپر اٹھائیں ۔

بعدازاں سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر بحث مکمل ہونے کے بعد تمام ارکان کو ووٹنگ کے طریقہ کار کے حوالے سے مطلع کردیاگیا ہے بلوچستان اسمبلی کے قواعدوانضباط کار مجریہ1974ء کے آرٹیکل 19بی (5)کے تحت تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری25اکتوبر بروز سوموار صبح گیارہ بجے ہوگی ۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات