نہیں چاہتے کہ کوئی جماعت سیاسی عمل سے باہر ہو، وزیراعظم

پیر 23 اکتوبر 2023 21:01

نہیں چاہتے کہ کوئی جماعت سیاسی عمل سے باہر ہو، وزیراعظم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اکتوبر2023ء) وزیر اعظم انوار الحق نے ایک با رپھر واضح کیا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی سیاسی سیاسی عمل سے باہر ہو، عدالت کسی پر کوئی پابندی لگاتی ہے تو وہ الگ بات ہے، ہمیں اس کو تسلیم کرنا ہوگا، یہ ماضی میں ہوا، اب بھی ہوگا اور مستقبل میں بھی ہوگا،ہر جماعت کو اپنے بیانیے پر فوکس کرنا چاہیے، کوئی کہے میں پارلیمنٹ کو آگ بھی لگائوں گا اور جمہوریت کا چیمپئن بھی بنوں گا، ایسے ماحول میں سوشل آرڈر قائم نہیں رہتا، اس کو کوئی قانون پر احتجاج قرار نہیں دیتا، کوئی لندن میں ٹین ڈاننگ اسٹریٹ کو آگ لگا کر بلا قانون کے سامنا کیے کہے یہ ہمارا حق ہے تو میں دیکھتا ہوں اس کے اقدام پر کیا رد عمل دیا جاتا ہی نواز شریف پیدائیشی طور پر پاکستانی شہری ہیں، ان کے بائیو میٹرک ہونے میں حکومت نے کوئی غیر معمولی سہولت کاری نہیں کی،بہت جلد ملک میں الیکشن کی گہما گہمی ہوگی، جلد اس کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے گا، ہم ووٹ ڈالنے جائیں گے، اس کے نتائج آئیں گے اور پھر ہم آگے چلیں گے،پاکستان میں صرف غیر قانونی طور پر مقیم شہریوں کے خلاف عالمی قوانین کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے، ہم غیر قانونی مقیم افراد کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، وہ ہمارے دشمن نہیں ہیں،دورہ کے دوران چین صدر سمیت دیگر رہنماں سے اہم اور انتہائی مثبت ملاقاتیں ہوئیں،بی آر آئی کے دوسرے مرحلے میں چین کی پرائیویٹ کمپنیوں کی سنجیدہ شمولیت ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے، انسانی امداد مصر کے ذریعے غزہ بھیجے جانے کے حوالے سے یقینی بنائیں گے، او آئی سی سمیت تمام فورم استعمال کریں گے۔

(جاری ہے)

پیر کو یہاں نگراں وفاقی وزرا جلیل عباس جیلانی، مرتضی سولنگی، سرفراز بگٹی، گوہر اعجاز، فواد حسن فواد کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انوار الحق کاکڑ نے کہاکہ اہم دورہ کے دوران چین صدر سمیت دیگر رہنماں سے اہم اور انتہائی مثبت ملاقاتیں ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ دورہ چینی صدر کی دعوت پر کیا گیا، دورے کے دوران کئی اہم پیش رفت ہوئیں، دورے کے دوران اہم تعمیری اور مفید بات چیت ہوئی، امید کرتے ہیں کہ اس کو جاری رکھتے ہوئے ہم اس کو منتخب حکومت کے حوالے کریں گے، جو بھی حکومت ہو پاک چین تعلقات کا تسلسل سب سے اہم ہے، اس کی وجہ سے بے یقینی کا تاثر زائل ہوجاتا ہے۔

انہوںنے کہاکہ بی آر آئی منصوبہ نہ صرف چین کیلئے پورے خطے بلکہ خطے کے علاوہ دیگر ممالک کے لے بھی مواقع پیدا کرتا ہے، ہمارے یہاں شاید بی آر آئی کی اہمیت وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے، یہ ممالک کو جوڑنے کے ساتھ نئی مواقع بھی پیدا کر رہا ہے، پاکستان کے لیے اس میں بہت زیادہ مواقع ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم وہاں سے تین نعرے لے کر آئے ہیں، پلاننگ، کوآرڈینیشن، کواپریشن کے سلوگن اس لیے لے کر آئے ہیں تاکہ اس پر ہماری توجہ مرکوز رہیں، جس سے درپیش چیلنجز پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔

انوار الحق کاکٹر نے کہا کہ بی آر آئی کے دوسرے مرحلے میں چین کی پرائیویٹ کمپنیوں کی سنجیدہ شمولیت ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔انہوں نے کہا کہ چین نے کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہمارے روایتی موقف کی حمایت کی۔انہوںنے کہاکہ دورے کے دوران ہماری روسی صدر، کینین صدر ، سری لنکن صدر کے ساتھ کافی تعمیری اور نتیجہ خیز ملاقاتیں ہوئیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ روسی صدر، چینی رہنمان سمیت مخلتف لیڈرشپ کے ساتھ مشرق وسطی کے تنازع کو اٹھایا گیا۔انوار الحق کاکٹر نے کہا کہ کینین صدر کے ساتھ صحافی ارشد شریف کے قتل کیس کو اٹھایا اور کہا کہ کیس اپنے قانونی انجام کی جانب جانا چاہیے جبکہ ہمارے ملک میں اس کیس کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ کافی حد تک کارروائی مکمل ہوچکی ہے اور جو رہ گئی ہیں وہ بھی جلد مکمل ہوجائیں گی۔

مہنگائی اور مافیاز سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ کوئی ملزم سامنے آئے تو ہم قانونی کارروائی کریں گے ،سزائیں عدالت نے دینی ہیں۔چینی سرمایہ کاری سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا ہدف سرمایہ کاری سے زیادہ ترقی کے حوالے سے اس کے نتائج ہیں، چین کی سرمایہ کاری سے ترقی و خوشحالی آئے گی۔پاک روس تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ روسی صدر سے ملاقات دفتر خارجہ کا اقدام تھا، ماضی میں ہمارے تعلقات مختلف تھے، اب ہماری اور ان کی ضروریات مختلف ہیں، بہت اچھے ماحول میں ان کے ساتھ ملاقات ہوئی، فریقین کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملا۔

انہوں نے کہا کہ جو افغان شہری امریکا یا جن ممالک کے ساتھ کام کیا ہے، اگر وہ ممالک ان کو واپس لینے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان ان کا ٹرانزٹ روٹ بنتا ہے تو ہم ان کو سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔انہوںنے کہاکہ پاکستان میں صرف غیر قانونی طور پر مقیم شہریوں کے خلاف عالمی قوانین کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے، ہم غیر قانونی مقیم افراد کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، وہ ہمارے دشمن نہیں ہیں، ہم عرض کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ملک واپس جائیں اور اپنے ملک سے پاسپورٹ اور ویزا لے کر ہماری طرف آئیں تاکہ ہماری طرف کی آمد و رفت ریگولیٹ ہوجائے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری کا ایک ذمہ دار ملک ہے، افغان شہری اگر پاکستان کے راستے امریکہ سمیت کسی ملک جانا چاہیں تو انہیں اس کی اجازت ہے، ہم غیر قانونی افغانوں کو وطن واپس بھیجنا چاہتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف پاکستان نان نیٹو اتحادی تھا جس نے بڑی جانی و مالی قربانیاں دی ہیں، ہم غیر قانونی طور پر کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم افغانیوں کے انخلا کیلئے کوشاں ہیں تاکہ وہ اپنے ملک واپس جا کر سفری دستاویزات لے کر پاکستان آئیں تاکہ ان کی نقل و حرکت قانونی ہو، عرصہ دراز سے پاکستان میں غیر قانونی مقیم افغانوں کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خسارے میں چلنے والے اداروں کی جلد نجکاری کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ بہت جلد ملک میں الیکشن کی گہما گہمی ہوگی، جلد اس کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے گا، ہم ووٹ ڈالنے جائیں گے، اس کے نتائج آئیں گے اور پھر ہم آگے چلیں گے۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کے حوالے سے تحفظات سے متعلق سوال کے جواب میں انوار الحق کاکٹر نے کہا کہ کسی مخصوص جماعت کو جو کہ بہت سارے لوگوں کی ترجیح ہے مجھے پتا ہے، ان کو جتوانے کیلئے ماحول بنایا جائے تو پھر لیول پلیئنگ فیلڈ ہوگا تو اس کا میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف پیدائیشی طور پر پاکستانی شہری ہیں، ان کے بائیو میٹرک ہونے میں حکومت نے کوئی غیر معمولی سہولت کاری نہیں کی، اس سے ان کو کوئی سیاسی فائدہ ہوا ہے جو اس معاملے کو ایسے بنا کر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ 2018میں لیول پلیئنگ فیلڈ یاد ہے، وہ یاد ہے جب جنوبی پنجاب میں ایک محاذ بنا تھا، میں سیاسی بات کرنا نہیں چاہتا، ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے، ہماری پوری کوشش کے باوجود اس کو اپنے اطمینان کے مطابق نہیں پائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی سیاسی اکائی سیاسی عمل سے باہر ہو، عدالت کسی پر کوئی پابندی لگاتی ہے تو وہ الگ بات ہے، ہمیں اس کو تسلیم کرنا ہوگا، یہ ماضی میں ہوا، اب بھی ہوگا اور مستقبل میں بھی ہوگا۔انہوںنے کہاکہ اگر پارلیمنٹ اس میں کوئی تبدیلی کردے تو الگ بات ہے جیسا کہ باقی ممالک میں بھی تحریکیں چل رہی ہیں کہ عدالتی فیصلوں کے خلاف فائل اتھارٹی پارلیمنٹ ہو، یہاں بھی ایسا ہوجائے، ہمیں کیا اعتراض ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہر جماعت کو اپنے بیانیے پر فوکس کرنا چاہیے، کوئی کہے کہ میں پارلیمنٹ کو آگ بھی لگائوں گا اور جمہوریت کا چیمپئن بھی بنوں گا، ایسے ماحول میں سوشل آرڈر قائم نہیں رہتا، اس کو کوئی قانون پر احتجاج قرار نہیں دیتا، کوئی لندن میں ٹین ڈاننگ اسٹریٹ کو آگ لگا کر بلا قانون کے سامنا کیے کہے کہ یہ ہمارا حق ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ اس کے اقدام پر کیا رد عمل دیا جاتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ نگران حکومت آگئی ہے تو آگ لگانے کے جیسے عمل کو ختم کیوں نہیں کردیتے تو یہ نہیں ہوگا، لیول پلیئنگ فیلڈ دے دیں، آگ لگانے کا لائسنس دے دیں، یہ نہیں ہو سکتا، اگر یہ ہی حرکتیں جمعیت علمائے اسلام نے کی ہوتیں تو کیا لوگوں کی یہ ہی رائے ہوتی جو کسی ایک جماعت سے متعلق ہے۔انہوںنے کہاکہ پھر لوگوں نے جے یو آئی کو مولوی ، اسلام کو بنیاد پرست قرار دے دینا تھا اور ان پر بمباری کرنے کا مطالبہ بھی کردینا تھا۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب ایک ایسی جماعت جو کہ لبرل ہے، اگر یہ سب پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)نے کیا ہوتا، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ قانون میں کوئی سقم ہے تو اس کی اصلاح کرتے، قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، وہ یہ کام کرے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں پٹرول کی قیمت اور ڈالر کی قدر میں نمایاں کمی ہوئی ہے، اس کے ثمرات عوام تک پہنچانے کیلئے صوبوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ مشرق وسطی کی صورتحال پر فلسطینی صدر محمود عباس سے بات ہوئی ہے، انسانی امداد مصر کے ذریعے غزہ بھیجے جانے کے حوالے سے یقینی بنائیں گے، او آئی سی سمیت تمام فورم استعمال کریں گے، ہماری پہلی کوشش ہے کہ جنگ بندی ہو، امدادی سامان کی فراہمی کے حوالے سے بھی کام ہو رہا ہے، اس تنازعہ کے حل کیلئے پاکستان مختلف ممالک سے مل کر کاوشیں کر رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میڈیا کو اشتہارات عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے دیئے جاتے ہیں اس میں شفافیت ہونی چاہئے، آزادی صحافت اور جمہوریت کی جنگ حکومتی سرمائے سے نہیں لڑی جا سکتی، اگر کسی پارلیمنٹرین کی دوہری شہریت ہے تو یہ معاملہ سپریم کورٹ لے جائیں، بغیر تحقیق الزام تراشی یہاں کلچر بن چکا ہے۔