خیبر پختونخوا: انتخابی سرگرمیوں میں اضافہ

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 26 جنوری 2024 21:00

خیبر پختونخوا: انتخابی سرگرمیوں میں اضافہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جنوری 2024ء) خیبر پختونخوا کے 30 سے زائد سینئر سیاستدان قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ بعض کو اپنے حلقہ انتخاب میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔

خیبر پختونخوا کے مختلف حلقوں سے ایک سابق وزیر اعظم سمیت چھ وزرائے اعلیٰ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ نواز شریف پختونخوا کے حلقہ این اے 15 مانہسرہ سے قومی اسبملی کے امیدوار ہیں۔

ان کا مقابلہ جمیعت علما اسلام کے مفتی کفایت اللہ، پاکستان تحریک انصاف کے سابق راہنما شہزادہ گستاسپ بطور آزاد امیدوار، جماعت اسلامی کے خالد خان یوسفزئی اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے صالح محمد سے ہوگا۔

جہادی گروپوں کی دھمکیاں: انتخابات اور سکیورٹی کے لیے چیلنجز

سابق وزرائے اعلیٰ میں آفتاب احمد خان شیر پاؤ، محمود خان، پرویز خٹک، امیر حیدر خان ہوتی، اکرم خان درانی اور سردار مہتاب احمد خان شامل ہیں۔

(جاری ہے)

ان سابق وزرائے اعلیٰ کو بھی پاکستان تحریک انصاف کے سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی جانب سے سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔

خیبر پختونخوا کے انتخابی میدان میں قومی اور علاقائی جماعتوں کے چھ سربراہان بھی میدان میں ہیں جن میں نواز شریف پاکستان مسلم لیگ ن، مولانا فضل الرحمان جمیعت علما اسلام، سراج الحق جماعت اسلامی، بیرسٹر گوہر خان پاکستان تحریک انصاف، آفتاب احمد خان شیر پاؤ قومی وطن پارٹی اور پرویز خٹک پی ٹی آئی پارلیمنٹرین شامل ہیں۔

مختلف سیاسی جماعتوں کے نو علاقائی صدور میں ایمل ولی خان عوامی نیشنل پارٹی، امیر مقام پاکستان مسلم لیگ ن اور علی امین گنڈا پور پاکستان تحریک انصاف شامل ہیں۔

اسی طرح تین سابق اسپیکر اسمبلی بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں اسد قیصر،بخت جہاں اور مشتاق غنی شامل ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد

توقع کی جا رہی تھی کہ پی ڈی ایم میں اقتدار کے لیے متحد ہونے والی سیاسی جماعتیں انتخابات میں مشترکہ حکمت عملی اپنائیں گی، لیکن 2024ء کے انتخابات میں ماضی کے برعکس سیاسی جماعتوں کے مابین سیاسی اور انتخابی اتحاد کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکیں۔

انتخابات کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علما اسلام کے مابین انتخابی اتحاد کے لیے کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔

پشاور میں جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان مذاکرات توجہ کے باعث رہے لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت دوسرے کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہ ہوسکی۔ اور بات سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر چھوڑ دی گئی۔ اس سلسلے میں جے یوآئی کے ترجمان اور مذاکرات میں پیش پیش عبدالجلیل سے ڈوئچے ویلے نے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''کوئی بھی جماعت کوئی ایک بھی نشست چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھی۔

یوں ہم یہ فیصلہ حلقوں اور اضلاع کی قیادت پر چھوڑ دیا تھا لیکن وہاں سے بھی مثبت جواب نہیں ملا۔ جس کے بعد تقریباﹰ سب جماعتوں نے اکیلے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔

سکیورٹی خدشات اور سیاسی سرگرمیاں

انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی تین سیاسی جماعتوں کو قومی اداروں نے سکیورٹی خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے سرگرمیوں کو محدود کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اسی سبب خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ کوئی اور جماعت عوامی سطح پر جلسے منعقد نہیں کر سکی۔ اس کی بجائے زیادہ تر انتخابی سرگرمیاں کارنر میٹنگز، حجروں اور مساجد میں محدود اجتماعات تک محدود ہوکر رہ گئیں۔ شہر بھر میں پوسٹرز اور بینرز کی بھر مار ہے لیکن انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدوار عوامی طور پر کم ہی نظر آ رہے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت، ضم شدہ قبائلی اضلاع میں بھی انتخابی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی سرگرمیاں

آٹھ فروری کے لیے شیڈول عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کے زیادہ تر امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات منیں حصہ لے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے انتخابی مہم چلانے کے لیے منصفانہ مواقع نہ ملنے پر کل پشاور میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

خیال رہے کہ پورے ملک کی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں میں بھی پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مختلف نشانات الاٹ کیے گئے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر دوسرے سیاسی جماعتوں سے انتخابات میں حصہ لینے والے پی ٹی آئی کے بعض امیدوار اب بھی پی ٹی آئی کا نام استعمال کر رہے ہیں جس پر پارٹی کے جنرل سیکرٹری نے انہیں نوٹس جاری کیے ہیں۔

پی ٹی آئی کے بعض راہنما گرفتاری کے خوف سے کھلے عام سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے رہے زیادہ تر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔

عوام کی عدم دلچسپی

دوسری طرف انتخابات میں چند دن باقی رہ جانے کے باوجود عوام کی ان انتخابات میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ شہریوں کی طرف سے اس کی بنیادی وجہ مہنگائی، بے روزگاری، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ اور صوبے میں بڑھتی ہوئی بدامنی بتائی گئی ہے۔

شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین عوامی مسائل کے حل کے لیے کوئی منشور پیش کرنے میں ناکام رہے بلکہ وہ ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔