Live Updates

روئی کے بھا ئومیں مجموعی طور پر استحکام،کاروبار محدود،نیویارک کاٹن کے وعدے کے بھا ئومیں بہتری

ای ایف ایس کا معاملہ بجٹ تک موخر ہونے کا عندیہ،پی سی جی اے نے حکومت سے مایوس ہوکر مجبورا آرمی چیف کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے معاملات میں مداخلت کیلئے خط ارسال کردیا

ہفتہ 26 اپریل 2025 20:55

5کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 اپریل2025ء)مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کے بھائو میں مجموئی طور پر استحکام رہا۔ کوالٹی اور پیمنٹ کنڈیشن کے حساب سے کاروبار فی من 15500 تا 17500 روپے تک ہوا۔ ضرورتمند ملز کچھ حد تک روئی خریدنے میں دلچسپی لے رہے ہیں تاہم جنرز کے پاس روئی کا اسٹاک کم ہوتا جا رہا ہے۔بہرحال درامدی روئی کی ڈلیوری بھی تیزی سے ارہی ہے ملز کی رقم وہاں ادا ہو رہی ہے جس کی وجہ سے لوکل مارکیٹ میں مالی بحران نظر ا رہا ہے علاوہ ازیں کاٹن یارن و کپڑا بھی درامد ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل اسپنرز پریشان ہے ان کو یارن فروخت کرنا مشکل ہو رہا ہے دوسری جانب ویونگ بھی متاثر ہو رہی ہے،پاکستان کاٹن جنرزایسوسی ایشن،اپٹما اور ایف پی سی سی آئی حکومت سے متعلقہ محکموں پر EFS کے متعلق کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں پاکستان کاٹن جنرزایسوسی نے تو اس سے مایوس ہو کر ارمی چیف کو خط کے ذریعے EFS کے معاملات میں کپاس کی بحالی اور جنرز کے مسائل میں تعاون کرنے کی اپیل کی ہے کہا جا رہا ہے آیندہ بجٹ میں اس کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا کپاس کی اگیتی کاشت کے متعلق مختلف خبریں گردش کر رہی ہیں کچھ علاقوں میں اچھی کاشت کی رپورٹیں ارہی ہیں کئی علاقوں میں پانی کی کمی کی شکایت کی جا رہی ہے دوسری جانب گرمی کی شدت بھی نو مولود پودے کو متاثر کرنے کا خدشہ ہے کئی علاقوں میں پانی کی وجہ سے اگیتی کاٹن کی بوائی میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب کپاس کاٹن یارن اور کپڑے کی درآمد سے درآمدی بل میں اضافہ ہو رہا ہے اسلام اباد کے چیمبر آف کامرس کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ ٹیکسٹائل کی عالمی منڈی میں مسابقت میں اضافہ پاکستان کے لئے باعث تشویش ہے، جس سے عالمی مسابقت اورٹیکسٹائل سیکٹر کی کاروباری لاگت میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور کپاس کی پیداوار میں کمی سے درآمدی بل پر بوجھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

علاوہ ازین حکومت کے تاخیر رویے سے مایوس ہو کرپاکستان کاٹن جنرزایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر جیسو مل لیمانی نے آرمی چیف کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ آف پاکستان کے نام ایک خط کے ذریعے مقامی کپاس کے کاشکاروں کے خلاف امتیازی سلوک کے متعلق علامتی مداخلت کی درخواست کی ہے علاوہ ازیں کپاس کی بحالی اور G S T اور E F S کی وجہ سے مقامی ٹیکسٹائل اسپنرز جنرز اور کپاس کے کاشتکاروں کو جو مشکلات لاحق ہیں اسے اجاگر کرتے ہوئے LEVEL PLAYING FIELD دینے کے لئے مداخلت کرنے کی بھی درخواست شامل کی ہے۔

صوب سندھ و پنجاب میں کوالٹی اور پیمنٹ کنڈیشن کے حساب سے روئی کا بھائو فی من 15500 تا 17500 روپے چل رہا ہے۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ فی من 16700روپے پر مستحکم رکھا۔کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا بین الاقوامی کاٹن کے بھائو میں مجموئی طور پر استحکام رہا۔ نیو یارک کاٹن کے وعدے کا بھائو فی پائونڈ 68 تا 70 امریکن سینٹ کے درمیاں چل رہا ہے۔

USDA کی ہفتہ وار برآمدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 2024-25 کیلئے 1 لاکھ 4 ہزار گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔ویتنام 34 ہزار 400 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔انڈیا 22 ہزار 500 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔پاکستان 16 ہزار 500 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔سال 2025-26 کیلئے 38 ہزار گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔انڈونیشیا 13 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔

پیرو 9 ہزار 700 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔ہونڈوراس 9 ہزار 300 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔برامدات 2 لاکھ 92 ہزار 200 گانٹھوں کی ہوئی۔ویتنام 92 ہزار 200 گانٹھیں برآمد کر کے سرفہرست رہا۔پاکستان 59 ہزار 300 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔ترکی 55 ہزار 200 گانٹھیں درامد کر کے تیسرے نمبر پر رہا۔پی سی جی اے کے چیئرمین ڈاکٹر جیسومال لیمانی نے اپنے خط میں چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو مخاطب کرتے ہوئے درخواست کی ہے کہ یہ خط ایک اہم مسئلے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لیے لکھ رہا ہوں جس نے پاکستان کی زرعی معیشت پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

مقامی کسانوں اور جنرز پر ٹیکسوں کا بے تحاشہ بوجھ ہے، جس میں جننگ پر 18% جنرل سیلز ٹیکس (GST) کے ساتھ ساتھ مختلف ودہولڈنگ اور بالواسطہ ٹیکس بھی شامل ہیں۔ اس کے برعکس، درآمد شدہ کپاس کو ان ٹیکسوں سے مکمل چھوٹ دی جاتی ہے، جس سے اسے صفر فیصد سیلز ٹیکس پر ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے اور کوئی درآمدی ڈیوٹی نہیں ہوتی۔ یہ واضح پالیسی کا تعصب گھریلو کپاس کے شعبے کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس کے نتیجے میں حالیہ برسوں میں کپاس کے رقبے اور پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔

کسان، اس ناانصافی سے حوصلہ شکنی کر کے دوسری فصلوں جیسے گنے، چاول، مکئی اور گنے کی طرف رخ کر رہے ہیں جو زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلیں ہیں (کپاس سے 10 گنا سے زیادہ)، اور بہتر حمایت اور کم ٹیکس کے بوجھ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ پانی کی بچت کے لیے کپاس کی پیداوار کو فروغ دینا ضروری ہے۔ جیسا کہ آپ کے محترم محترم بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر کے لیے پہلے ہی اقدامات کیے تھے۔

اس تبدیلی سے ہماری کپاس پر مبنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی پائیداری کو خطرہ لاحق ہے، جو پاکستان کی برآمدات اور روزگار میں سب سے بڑا تعاون کرنے والوں میں سے ایک ہے۔یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ دیگر کپاس پیدا کرنے والے ممالک جیسے کہ بھارت، چین، امریکہ اور برازیل اپنی مقامی کپاس کی صنعتوں کی فعال طور پر حفاظت اور حمایت کرتے ہیں۔ وہ غیر ملکی کپاس پر درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکس لگاتے ہیں تاکہ ڈمپنگ کی حوصلہ شکنی کی جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ملکی کپاس مسابقتی رہے۔

مزید برآں، یہ ممالک اپنی معیشتوں میں کپاس کی اسٹریٹجک اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے مقامی کسانوں اور جنرز کو مراعات اور سبسڈی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان درآمد شدہ کپاس کو تمام ٹیکسوں سے مستثنی رکھتا ہے جبکہ اپنے کسانوں اور جنرز پر بھاری ٹیکس لگاتا ہے، جس سے کھیل کا ایک ناہموار میدان پیدا ہوتا ہے جو مقامی پروڈیوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے اور گھریلو زراعت میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

اس طرح کا امتیازی سلوک ہمارے آئین میں درج مساوات، انصاف اور معاشی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ سبسڈی کی درخواست نہیں ہے بلکہ برابری کے میدان کا مطالبہ ہے۔ مقامی کپاس کے پروڈیوسرز کو ٹیکس نظام کے ذریعہ جرمانہ نہیں کیا جانا چاہئے جو گھریلو ذریعہ معاش اور قومی ترقی کی قیمت پر غیر ملکی کپاس کے حق میں ہو۔مندرجہ بالا کی روشنی میں، میں آپ کے لارڈ شپ سے عاجزانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ از خود نوٹس لیں یا براہ کرم متعلقہ حکام کو موجودہ ٹیکس پالیسیوں کا مکمل جائزہ لینے کی ہدایت کریں۔

ہمارے زرعی فریم ورک پر اعتماد بحال کرنے اور پاکستان کے کپاس کے کاشتکاروں اور جنرز کے لیے انصاف کو یقینی بنانے کے لیے فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں ساجد محمود ،سربراہ شعبہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان نے نامور کاٹن ایکسپرٹ نسیم عثمان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں کپاس کا شعبہ شدید دبائو کا شکار ہے۔

ایک طرف مقامی کپاس اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ، کاشتکاروں اور مقامی صنعت کے لیے اضافی بوجھ بن رہا ہے، تو دوسری طرف ایکسپورٹ فنانس سکیم کے تحت درآمدی کپاس کو ڈیوٹی فری اجازت دینا مسابقت کے توازن کو متاثر کر رہا ہے۔ مزید برآں، امریکہ سے کپاس اور سویابین کی بڑی مقدار میں درآمد کی پالیسی اورپاکستان کے سب سے بڑے کپاس کے تحقیقاتی ادارے پی سی سی سی کے لئے ناکافی فنڈز جیسے ایشوز نے مقامی کسانوں میں کپاس کے مستقبل سے متعلق غیر یقینی کیفیت کو جنم دیا ہے۔

ساجد محمود نے کہاکہ مذکورہ پالیسیوں کے پسِ منظر میں حکومت کو درپیش بین الاقوامی مالیاتی ذمہ داریاں بھی ایک حقیقت ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ ملکی زرعی معیشت بالخصوص کپاس کے شعبے کے تحفظ کے لیے ایسی متبادل راہیں تلاش کی جائیں جو عالمی تقاضوں اور مقامی کسان کے مفاد میں توازن پیدا کریں۔ انہوں نے زور دیا کہ مشاورتی عمل کو مثر بنا کر، تمام متعلقہ فریقین کی رائے شامل کی جائے تاکہ پالیسیاں زمین سے جڑی حقیقتوں کے مطابق تشکیل پا سکیں اور کپاس کا شعبہ دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
Live پہلگام حملہ سے متعلق تازہ ترین معلومات