اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 مئی 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں سیاحوں پر حملے، جس میں چھبیس افراد ہلاک ہوئے، بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر حملے کیے، جس سے مزید ہلاکتیں اور تباہیاں ہوئیں۔ اس دوران مسلم اکثریتی ممالک ترکی اور آذربائیجان 'برادر ملک' پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔
دونوں نے تنازع میں اسلام آباد کی حمایت کرنے والے بیانات جاری کیے۔بھارت نے چینی، ترک خبر رساں ایجنسیوں کو بلاک کر دیا
بھارت میں اس کے خلاف شدید عوامی جذبات سامنے آئے اور سوشل میڈیا پر بالخصوص ترکی کا کثیر الجہتی بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی، جس کے اقتصادی اور سفارتی اثرات نظر آرہے ہیں۔
(جاری ہے)
ترکی اور آذربائیجان، بھارتیوں کے لیے کم بجٹ میں چھٹیوں کے دوران مقبول تریں غیرملکی سیاحتی مقامات ہیں۔
سیاحت، تجارت اور تعلیم کو نقصان
سوشل میڈیا مہمات اور عوامی غم وغصے کو "بائیکاٹ ترکی" جیسے ہیش ٹیگز نے بائیکاٹ کی اپیلوں کو مزید ہوا دی۔
ترکی نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو پھر اٹھایا
ٹریول ایجنسیوں کے مطابق، ترکی جانے والے بھارتی سیاحوں، جن کی تعداد گزشتہ سال کم از کم 274,000 تھی، میں کمی آئی ہے۔ بکنگ میں 60 فیصد کمی اور منسوخیوں میں 250 فیصد اضافہ ہوا۔
'ایز مائی ٹرپ'، 'میک مائی ٹرپ' اور 'ایگزیگو، جیسے مشہور ٹریول پلیٹ فارمز نے بکنگ کو معطل کر دیا ہے، پروموشنز روک دی ہیں، اور غیر ضروری سفر کے خلاف ایڈوائزری جاری کر دی ہیں۔
کیرالہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر راجیو چندر شیکھر نے نامہ نگاروں کو بتایا، "ہر محنتی بھارتی جو سیاح کے طور پر بیرون ملک سفر کرتا ہے، آج یہ سمجھتا ہے کہ ان کی محنت سے کمایا ہوا روپیہ ان لوگوں پر خرچ نہیں ہونا چاہیے جو ہمارے ملک کے دشمنوں کی مدد کرتے ہیں۔
"گزشتہ ہفتے، بھارت کی شہری ہوا بازی کی وزارت نے بھی "قومی سلامتی" سے متعلق بنیادوں پر، ترکی کی ہوابازی کمپنی "چلیبی"، جو بھارت کے بڑے ہوائی اڈوں پر گراونڈ سروسزفراہم کرتی ہے، کی سکیورٹی کلیئرنس کو فوری طور پر منسوخ کر دیا تھا۔ سلیبی نے اس فیصلے کو قانونی طور پرچیلنج کیا ہے۔
بھارت: ترک شہری ایئر انڈیا کا سی ای او، آر ایس ایس ناراض کیوں؟
چلیبی کی کلیئرنس منسوخ کرتے ہوئے، بھارت کے ہوابازی کے جونیئر وزیر، مرلی دھر موہول نے ایکس پر لکھا کہ حکومت کو سیلبی پر پابندی لگانے کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
موہول نے کہا، "مسئلہ کی سنگینی اور قومی مفادات کے تحفظ کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے، ہم نے ان درخواستوں کا نوٹس لیا ہے۔"
تاجروں نے ترکی سے درآمد سیب اور ماربل سے لے کر چاکلیٹ، کافی اور جیم تک کو بھی مسترد کرنا شروع کر دیا ہے۔ کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز کے زیر اہتمام نئی دہلی میں ایک قومی بزنس کانفرنس میں، 125 سے زیادہ اعلیٰ تجارتی رہنماؤں نے ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ تمام تجارتی معاملات کا بائیکاٹ کرنے پر اتفاق کیا۔
تعلیمی محاذ پر، ممبئی میں معروف تعلیمی ادارہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے ترکی کی یونیورسٹیوں کے ساتھ معاہدوں کو منسوخ کردیا۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے کئی دیگر ممتاز تعلیمی اداروں نے بھی اسی طرح کے فیصلے کیے ہیں۔
ایردوآن پر تنقید
ترک صدر رجب طیب اردوآن طویل عرصے سے تنازعہ کشمیر کے "کثیرطرفہ" حل کی وکالت کرتے رہے ہیں، جس کی بھارت نے ہمیشہ مخالفت کی ہے۔
ایردوآن کئی بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ ان کا تازہ ترین دورہ فروری میں ہوا تھا، جب وہ اسلام آباد کے ساتھ تجارتی اور فوجی تعلقات کو بڑھانے کے لیے ایک وفد کے ساتھ پہنچے تھے۔
سن دو ہزار سترہ میں، ایردوآن نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اقتصادی تعاون اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر بات چیت کی تھی۔
سینٹر فار ویسٹ ایشین اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مدثر قمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کے بارے میں ترکی کے مؤقف کو بھارت میں سراہا نہیں جاتا کیونکہ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ انقرہ اس معاملے کو غیرجانبداری اور انصاف پسندی سے دیکھنے کے لیے تیار یا رضامند نہیں ہے۔
قمر نے کہا، "نئی دہلی میں انقرہ سے یہ توقع ہے کہ وہ صورتحال کو پاکستان کے نظریے سے نہیں دیکھے، جو کہ اس وقت ہے۔ جب تک ترکی کے موقف میں تبدیلی نہیں آتی، تعلقات میں بہتری کا امکان نہیں ہے۔"
منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالیسس میں ریسرچ فیلو اور ویسٹ ایشیا سینٹر کے کوآرڈینیٹر پرسنتا کمار پردھان نے بھی کہا کہ بھارت اور ترکی کے درمیان تال میل میں وقت لگ سکتا ہے۔
پردھان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بائیکاٹ کا "محدود اثر" پڑے گا یہ "دوطرفہ تجارت کو شدید متاثر کرنے کے لیے زیادہ اہم نہیں ہے۔"
تاہم، اگر بائیکاٹ ایک طویل مدت تک جاری رہتا ہے، تو "یہ ممکنہ طور پر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات پر زیادہ منفی اثر ڈال سکتا ہے۔"
مستقبل کے تعلقات غیر یقینی
حکومت ہند کے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت نے اپریل 2024 سے فروری 2025 کے درمیان ترکی کو 5.2 بلین ڈالر کا سامان برآمد کیا۔
اہم برآمدی اشیاء میں معدنی ایندھن اور تیل، برقی مشینری، آٹوموٹو پارٹس اور گاڑیاں، دواسازی، ٹیکسٹائل اور کپاس شامل ہیں۔ہندو قوم پرست، بالی وڈ کے اداکار عامر خان سے ناراض کیوں ہیں؟
اور اسی مدت کے دوران، بھارت نے ترکی سے 2.84 بلین ڈالر کا سامان درآمد کیا، جس میں ماربل اور دیگر قدرتی پتھر، سیب اور دیگر پھل، سونا اور قیمتی دھاتیں، معدنی تیل اور پیٹرولیم مصنوعات شامل ہیں۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ بائیکاٹ کا انجام کیا ہو گا اور آنے والے ہفتوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کس رفتار سے آگے بڑھیں گے۔
پردھان نے کہا، "فوری طور پر، ترکی کے ساتھ جلد ہی اعلیٰ سطح کی مصروفیت ایک چیلنج ہو گا۔ اس کے نتیجے میں، مستقبل قریب تک تناؤ برقرار رہنے کی توقع ہے۔"
روئٹرز نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایئر انڈیا نے حال ہی میں ترک ایئر لائنز کے ساتھ بجٹ ایئر لائن انڈیگو کے لیزنگ ٹائی اپ کو روکنے کے لیے بھارتی حکام سے لابنگ کی، جس میں کاروباری اثرات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے استنبول کی حمایت سے پیدا ہونے والے سکیورٹی خدشات کا حوالہ دیا گیا۔
حالیہ کشیدگی سے پہلے ہی، بھارت نے ترکی کے انادولو شپ یارڈ کے ساتھ 2 بلین ڈالر کا جہاز سازی کا کنسلٹنسی معاہدہ ختم کر دیا تھا۔ اس معاہدے میں بھارت کے انڈین شپ یارڈ میں بھارتی بحریہ کے لیے پانچ فلیٹ سپورٹ جہازوں کی تعمیر شامل تھی، جس میں انادولو کی ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کی مدد لی گئی تھی۔
بھارت نے ای کامرس پلیٹ فارمز پر پاکستانی قومی پرچم کی فروخت پر پابندی لگا دی
بھارت کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹریٹ کی سابق رکن تارا کارتھا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "گوکہ بھارت نے معاہدہ کو ختم کرنے کی حکومتی وجہ مقامی جہاز سازی کی صلاحیت کو بڑھانے کی اپنی پالیسی بتائی تھی لیکن سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ترکی کے قریبی تعلقات سے بھارت خوش نہیں تھا۔
"ترکی میں سابق بھارتی سفیر سنجے بھٹاچاریہ نے کہا کہ بھارت کو اپنے قومی مفادات اور عالمی موقف کو ترجیح دیتے ہوئے ہوشیار اور اسٹریٹجک ہونے کی ضرورت ہے۔
بھٹاچاریہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "مجھے یقین ہے کہ معاملات وقت کے ساتھ ساتھ حل ہو جائیں گے اور دونوں فریق اس کے اختتام پر اصل بات سمجھ جائیں گے۔"
جاوید اختر (مصنف: مرلی کرشنن، نئی دہلی)
ادارت: صلاح الدین زین