اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2025ء) پاکستان کے اعلی سطحی وفد کے سربراہ اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارت پر جنوبی ایشیا کو پانی کے تنازعے پر پہلی ایٹمی جنگ کی طرف دھکیلنے کا الزام لگایا ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں سابق امریکی سفیر نے پہلگام واقعے کی آزادانہ تحقیقات کے اسلام آباد کے مطالبے کی تائید کی ہے۔
واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ (ایم ای آئی) کے زیر اہتمام ایک پالیسی فورم سے خطاب کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ بھارتی حکومت کی دھمکیاں اقوام متحدہ کے چارٹر اور سن 1960 کے سندھ آبی معاہدے کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور اس معاہدے نے تاریخی طور پر دونوں ممالک کے درمیان دریائے سندھ کے نظام سے پانی کی تقسیم کو کنٹرول کیا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 240 ملین پاکستانیوں کو پانی کی فراہمی بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، "اب وہ میری نسل اور آنے والی نسلوں کو بھی، نہ صرف کشمیر پر لڑنے کے لیے، بلکہ جب بھی کوئی دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو اس کی بنیاد پر مکمل جنگ میں جانے کے لیے انہیں بربادی کی صرف دھکیل رہے، بلکہ اب وہ بھارتی اور پاکستانیوں کی آنے والی نسلوں کو پانی پر لڑنے کی بھی دعوت بھیج رہے ہیں۔"
آئی ایس آئی اور را میں باہمی تعاون سے دہشت گردی کم ہو سکتی ہے، بلاول بھٹو
آبی وسائل کے نازک مسئلے پر بات کرتے ہوئے بلاول نے بھارت کی جانب سے پاکستان کو پانی کی سپلائی بند کرنے کی حالیہ دھمکیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کی کارروائیاں ممکنہ جوہری تصادم سمیت سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہیں۔بلاول نے کہا کہ "کوئی بھی مہذب ملک اس طرح کے اقدام کی تائید نہیں کر سکتا، آنے والے موسمیاتی چیلنجز کے دور میں پانی کی کمی اور پانی سے متعلق جنگیں ایک نظریہ کے طور پر بھی استعمال کی جا رہی ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا، "بھارت پاکستان کو پانی کی سپلائی بند کر کے پہلی ایٹمی جنگ کی بنیاد ڈال رہا ہے۔
ہم نے تو کہا ہے کہ ہماری پانی کی سپلائی منقطع کرنا جنگ کرنے مترادف ہو گا۔ ہم اسے جنگ کے لحظے میں نہیں کہہ رہے ہیں، ہمیں ایسا کہنے میں کوئی مزا نہیں آتا ہے، بلکہ یہ ہمارے لیے ایک وجودی بحران ہے۔"پاکستانی وفد کی ’پانی کو ہتھیار بنانے کے لیے‘ بھارت پر تنقید
بلاول نے اس معاملے میں بین الاقوامی برادری سے مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا اور زور دیا کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بھارت کو جوابدہ ٹھہرائیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس طرح کے اقدامات کی اجازت دینا ایک خطرناک نظیر قائم کرے گا، جو ممکنہ طور پر مشترکہ آبی وسائل پر وسیع تنازعات کا باعث بنے گا۔انہوں نے کہا، "کرہ ارض پر کوئی بھی ملک، چاہے اس کا حجم، اس کی طاقت یا صلاحیت کتنی بھی کم نہ ہو، اپنی بقا کے لیے لڑے گا اور اپنے پانی کے لیے لڑے گا۔ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔
"بھارت مذاکرات سے انکار کرتا ہے، بلاول
بلاول نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک واضح مشن کے ساتھ ایک وفد تشکیل دیا ہے، جس کا مقصد بھارت کے ساتھ مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے امن قائم کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا، "آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ہم یہاں واشنگٹن میں کیوں ہیں اور اپنے مخالف سے بات کیوں نہیں کر رہے ہیں۔۔۔
۔ کیونکہ وہ بات کرنے سے انکار کرتے ہیں۔"بلاول عالمی دارالحکومتوں میں کثیر الجماعتی وفد کی قیادت کر رہے ہیں اور بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی پر پاکستان کا موقف پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس نے مئی میں دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ملکوں کو مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔
پی پی پی کے چیئرمین نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ نئے انتظامات اور معاہدوں پر بات چیت کے لیے کھلا ہے، تاہم پیش رفت صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے، جب بھارت پہلے اپنے موجودہ وعدوں کا احترام کرے۔
انہوں نے کہا کہ اگر امن کے حصول میں ہماری بات چیت اور سفارت کاری کو کامیاب ہونا ہے ۔۔۔ تو یقیناً انہیں سب سے پہلے پرانے معاہدوں کی پاسداری کرنی ہو گی اور سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے اپنا فیصلہ واپس لینا ہو گا۔
پہلگام حملے کے بعد بھارتی اور پاکستانی رہنماؤں کی لفظی جنگ جاری
پہلگام کی غیر جانبدار تحقیقات کے مطالبے کی تائید
اسلام آباد میں سابق امریکی سفیر این پیٹرسن نے اسی فورم میں پر اس بات پر زور دیا کہ پہلگام، "واقعہ تقریباً ایک جوہری جنگ کا باعث بنا اور جو کچھ بھی ہوا اس کی تہہ تک جانا انتہائی اہم ہے۔
ممکنہ طور پر ایف بی آئی یا اسکاٹ لینڈ یارڈ جیسی ایجنسیوں کی طرف سے ایک آزاد تحقیقات اس پر پہلا قدم ہونا چاہیے۔"البتہ پیٹرسن نے یہ بھی کہا کہ "امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ماضی میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ بھارت کو پہلگام حملے کے بعد کوئی فورینزک یا تفتیشی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔"
ان کا کہنا تھا کہ اس (بھارت) نے صرف اتنا کہا کہ پاکستان اب بھی دہشت گردی میں مصروف ہے۔ مجھے یہ کہنا پسند نہیں ہے، تاہم بین الاقوامی مبصرین اس دعوے پر یقین کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔"
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)