کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جون2025ء)اپوزیشن لیڈر کے ایم سی ونائب امیرجماعت اسلامی کراچی سیف الدین ایڈوکیٹ نے سٹی کونسل میں کے ایم سی کے بجٹ 2025-26کے حوالے سے اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں صحافیوں کو پری بجٹ پریس بریفنگ اور جماعت اسلامی کی جانب سے پیش کردہ کراچی وژن 2025-30کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کے ایم سی کے موجودہ مالی سال کے بجٹ کو بھی گزشتہ بجٹ کی طرح ناکام بے کار اور اعداد وشمار کا گورکھ دھندا قراردیا ہے اور کہا ہے کہ مرتضیٰ وہاب کا کراچی کے لیے کوئی وژن نہیں ہے۔
مرتضیٰ وہاب کا یہ پانچواں بجٹ ہے ،ْ دو بجٹ ایڈمنسٹریٹر کے طور پر پیش کرچکے ہیں ،بجٹ پر بجٹ آ رہے ہیں شہر تباہی کی طرف جارہا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کی ہر یوسی میں ترقیاتی اسکیموں کے لیے 3کروڑ روپے مختص کیے جائیں،تمام صوبائی و ضلعی اے ڈی پی بکس اور اسکیموں کا فارنزک آڈٹ کروایا جائے،دوسال میں ایک بھی ترقیاتی اسکیم سٹی کونسل کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔
(جاری ہے)
نئی اے ڈی پی میں 116اسکیمیں صرف پیپلز پارٹی اور اتحادیوں کی یوسیز کی شامل کی گئی ہیں، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی یوسیز میں کوئی اسکیم نہیں شامل کی گئی جبکہ جماعت اسلامی کے پاس 9ٹاؤنز اور 85یوسیز ہیں اگر ان کے لیے اے ڈی پی میں اسکیم نہیں رکھی جائے گی تو پھر پیپلزپارٹی بتائے کہ یہ کام کہاں کرائے گی ،حیرت ہے کہ کام کئے بغیر اسکیمیں پوری ہوگئیں اور پیسے بھی ادا کردیے ۔
انہوں نے کہا کہ اشتہاروں کے شعبے میں بے تحاشا کرپشن ہورہی ہے، ہمیں اس بات کا واضح جواب چاہیے کہ اس شعبے میں وزیروں،چیئر مینوں،میئر کے کونسے رشتہ دارلگے ہوئے ہیں اورحاصل شدہ رقم کہاں جارہے۔ سیف الدین ایڈوکیٹ نے مزیدکہاکہ کے کے الیکٹرک کے بلوں میں پہلے ہی ٹیکسوں کی بھرمار ہے، اس کے باوجود اس میں ایم یو سی ٹی بھی شامل کردیا گیا، ایم یو سی ٹی کا ایک پیسہ بھی جماعت اسلامی کی یوسیز پر خرچ نہیں کیا گیا۔
ایم سی کی جانب سے وصول کیے گئے تمام ٹیکسز یونین کمیٹیوں پر خرچ ہونے چاہیئے،گزشتہ سال کلک سے 6ارب روپے جبکہ اس سال 7.5ارب روپے ملے ہیں،قابض میئر شہر کے کسی بھی بڑے میگا پروجیکٹ پر کام کرنا چاہیں کریں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن ہمارا ویژن ہے کہ شہر کے اسپتالوں کو اپ گریٹ جائے، عباسی شہید اسپتال کو شہر کا ماڈل اسپتال بنایا جائے، عباسی شہید اسپتال میں دوائیاں، ایکسرے مشین،صفائی ستھرائی کا مؤثر نظام تک موجود نہیں ہے،لیب میں ٹیسٹ کی سہولیات تک میسر نہیں ہے،سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے کراچی کے لیے 4سال کی مدت میں بے شمار ترقیاتی کام کروائے، ماس ٹرانزٹ سسٹم پر کام شروع کروایا تھا جس میں شہر بھر میں انڈر پاسز،اوور ہیڈ برجز،سرکلر ریلوے اور رٹرام سسٹم شامل تھا،آج شہر میں اوور ہیڈ برجز اور انڈر پاسز بنے ہوئے ہیں لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت کریم آباد میں ایک انڈر پاس بنانے کی کوشش کررہی ہے ڈھائی سال کا عرصہ گزرچکا ہے جو کہ تاحال مکمل ہوسکا، اتنا ہی بڑا انڈر پاس لاہور میں 35اور اسلام آباد میں 27دنوں میں بن جاتا ہے لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے کریم آباد انڈر پاس 2سا ل میں مکمل نہیں کیا۔
اسی طرح پیپلزپارٹی نے بی آر ٹو منصوبے کے نام پر یونیورسٹی روڈ کوکھود کر رکھ دیا،ریڈ لائن منصوبے پر پیپلزپارٹی خود پریشان بھی ہے۔انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت، کے ایم سی اور دیگر شہری اداروں کا جماعت اسلامی نے ایک ویژن پیش کیا ہے جس کے مطابق آئین کے آرٹیکل 140-Aکے تحت بااختیار شہری حکومت کا قیام عمل میں آنا چاہیے،کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کنٹونمٹ بورڈ،کے پی ٹی ہو،پی آئی اے سمیت جتنے بھی ادارے ہیں ان سب کو جمع کر کے تعمیر کراچی پروگرام شروع کیا جائے،سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے اپنے دور حکومت میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو جمع کر کے تعمیر کراچی پروگرام بنایا تھا جس میں 28ادارے شامل تھے،ان اداروں کے ذمے کام لگائے گئے تھے۔
ہم دوبارہ سے تعمیر کراچی پروگرام شروع کرنے کا ویژن پیش کررہے ہیں۔سیف الدین ایڈوکیٹ نے کہاکہ بجٹ صرف اعداد اور الفاظ کا نہیں ہوتا بلکہ ایک ویژن کی عکاسی کرتا ہے،کچرے اٹھانے کا سسٹم سندھ حکومت کے ماتحت کردیا گیاہے، ہمارا ویژن ہے کہ نعمت اللہ خان کے دور کی طرح کراچی کے 8مقامات پر کاربیج سسٹم بنائے جائیں۔کراچی میں 60آبادی کچی آبادی ہے جس میں سہولیات میسر نہیں ہیں،پانی، بجلی کا کوئی مؤثر نظام نہیں ہے، ہمارا ویژن ہے کہ ان آبادیوں کا مؤثر نظام اورتعمیراتی سسٹم کو بہتر بنایا جائے، غیر قانونی تعمیرات کا خاتمہ بھی کیا جائے۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بھی سندھ حکومت نے اپنے ماتحت کرلی ہے جس میں اربوں روپے کی کرپشن کی جارہی ہے جس کی وجہ سے پانی و بجلی کے بے شما ر مسائل جنم لے رہے ہیں،نعمت اللہ خان نے ایگروگارمنگ اسٹیٹ کامنصوبہ پیش کیا تھا جس میں سبزیوں کی کاشت اور جانوروں کی فارمنگ کا کام بھی شامل تھا،ہمارا ویژن بھی یہی ہے کہ کراچی کے لیے ایگروفارمنگ اسٹیٹ بنایا جائے،کراچی میں کوئی بھی کام کروایا جائے وہ چار گنا زیادہ قیمت میں کروایا جاتاہے،کلک کے پاس 60ارب روپے موجود ہیں جس کا کوئی فائدہ کراچی میں نظر نہیں آرہا۔
ہمارا ویژں ہے کہ ہر ٹاؤن میں ابتدائی طبی امداد کی سہولیات اور ہر اسپتال میں دل کے مریضوں کے لیے چیسٹ پین کی سہولت ہونی چاہیئے،ٹرانسپیرنسی رپورٹ کے مطابق این آئی سی بی ڈی میں 40ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے،یہ صحت کا ایسا ادارہ ہے جسے بلاول بھٹو اپنا وژنری اسپتال کہتے ہیں اور اس کا حال یہ ہے کہ کرپشن ہورہی ہے۔انہوں نے کہاکہ کراچی کی ہر یوسی میں رین واٹر ہاریسٹنگ سسٹم کا نظام قائم کیا جانا چاہیئے،موجودہ بلدیاتی بجٹ اربن فاریسٹ کے لیے الگ سے بجٹ مختص کیا جائے تاکہ کراچی کا ماحول درست ہوسکے،نعمت اللہ خان نے فیڈرل بی ایریا میں مرکز علم و ثقافت کا ادارہ قائم کیا تھاجسے مصطفی کمال نے سینما ہاؤس میں تبدیل کردیا تھا،جسے بعد میں دوبارہ بحال کردیا گیا تھا،وہ بلڈنگ آج بھی قائم ہے لیکن اس کے اندر کا سارا نظام تبدیل کردیا تھا قرآن و سنہ اکیڈمی کو تبدیل کرکے علم و ثقافت کا نام رکھ دیا گیا ہے،علم و ثقافت کے ادارے میں انسانوں کے بجائے کتے دوڑرہے ہوتے ہیں اسے بحال کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ کراچی دن بدن پیچھے کی جانب جارہا ہے،گزشتہ سال کلک نے 6ارب سینتالیس کروڑ روپے مختص کیے تھے اور میزانیے کے مطابق یہ 67کروڑ روپے کی اسکیمیں مکمل کرسکے، اے ڈی پی کی اسکیموں کے لیے حکومت نے 9ارب رپے مختص کیے تھے،جس میں سے یہ صرف 6ارب روپے خرچ کرسکے، یہ قبضہ مئیر مرتضی وہاب اور ان کی کیبنٹ کی نااہلی ہے جو انہوں نے تسلیم بھی کی ہے، کراچی میں بیشتر کام ہونے کے بعد ضائع ہوگئے اس کی ایک مثال جہانگیر روڈ ہے جو کئی مرتبہ بننے کے بعد اکھڑ گئی، اے ڈی پی بک ایک کرشماتی کتاب ہے، اس کتاب میں جو رقوما ت رکھی جاتی ہیں ان کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیوں رکھی جارہی ہیں، اس میں سینکڑوں اسکیمیں ایسی ہیں جن کے آگے 90فیصد مکمل لکھا ہوا ہے، لیکن اصل میں ان پراب تک کام شروع ہی نہیں ہوا ہے،عوامی نمائندوں سے کبھی اسکیمیں طلب نہیں کی جاتیں، کلک نے رین ایمرجنسی کے نام پر چار ارب روپے خرچ کیے گئے جو سارے کے سارے ضائع ہوگئے، اس کے سارے ٹھیکے بغیر ٹینڈرز کے دیے گئے تھے، نعمت اللہ خان نے اپنے سارے بجٹ میں ہر یونین کونسل کے لیے بلا تخصیص پیسے رکھے تھے۔