مقامی کسانوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ ملک کے قیمتی زرمبادلہ کو محفوظ رکھا جا سکے، صبایوسف تالپور

ملک میں فوری طور پر زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے، بیرونِ ملک سے زرعی اجناس کی درآمدات کو روکا جائے، پی پی رکن قومی اسمبلی کی وفاقی حکومت کی زرعی پالیسیوں پر شدید تنقید

پیر 7 جولائی 2025 21:50

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 جولائی2025ء)پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی صبا یوسف تالپور نے وفاقی حکومت کی زرعی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں فوری طور پر زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے، بیرونِ ملک سے زرعی اجناس کی درآمدات کو روکا جائے اور مقامی کسانوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ ملک کے قیمتی زرمبادلہ کو محفوظ رکھا جا سکے۔

ایک بیان میں صبا یوسف تالپور نے زراعت اور لائیو اسٹاک کے تمام شعبوں میں پیداوار میں کمی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال گندم کی پیداوار میں 11 فیصد، کپاس میں 30 فیصد، چاول میں 3 فیصد، چینی میں 3.9 فیصد، اور آم میں 45 فیصد کمی آئی ہے جبکہ زراعت کے تمام شعبوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے، انہوں نے یاد دلایا کہ 2023 میں صدر آصف علی زرداری نے گندم کی امدادی قیمت 2200 روپے سے بڑھا کر 4000 روپے فی 40 کلو کر دی تھی جس کے نتیجے میں اس سال گندم کی پیداوار میں 22 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں بھی گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کیا گیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کسانوں کا خیال رکھا ہے اور جب بھی زرعی اجناس کی قیمتیں بڑھائی گئی ہیں، وہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی بڑھائی گئی ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے جیسے ملک میں جہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، وہاں فوڈ سیکیورٹی (خوراک کا تحفظ) لازمی ہے۔

فوڈ سیکیورٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں گندم اور چاول کی پیداوار میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے، لیکن حکومت نے آئی ایم ایف کا بہانہ بنا کر زرعی اجناس کے لیے کوئی امدادی قیمت مقرر نہیں کی اور نہ ہی قیمتیں بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جو کہ انتہائی مایوس کن بات ہے، انہوں نے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی زرعی پالیسیوں پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کو ڈھال بنا کر کسانوں کو ان کی فصلوں کی مناسب قیمت دینے سے محروم کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں اس سال صرف گندم کی پیداوار میں ملک کے کسانوں کو 800 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، جس میں سندھ کو 150 ارب روپے اور ان کے اپنے میرپور خاص ڈویژن کو 10 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں حکومت کو مشورہ دیا کہ آئی ایم ایف کا بہانہ بنانا بند کیا جائے اور کسانوں کی فصلوں کی امدادی قیمت ان کی پیداواری لاگت کی بنیاد پر مقرر کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ زرعی شعبہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے جو اب ٹوٹ چکی ہے۔انہوں نے حکومت کے حالیہ 500,000 میٹرک ٹن چینی کی درآمد کے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ جب ملک میں 2.8 ملین میٹرک ٹن چینی کا ذخیرہ موجود ہے جو 15 نومبر 2025 تک کافی ہے، تو درآمد کیوں کی جا رہی ہی انہوں نے تجویز دی کہ شوگر ملز کو شوگر کین کنٹرول ایکٹ کے تحت 1 نومبر کے بجائے 15 اکتوبر سے کرشنگ شروع کرنی چاہیے تاکہ زمینیں گنے کی کٹائی کے بعد خالی ہو جائیں اور گندم کی کاشت اور نئی چینی کی پیداوار کے ذریعے آنے والی گندم کی قلت پر قابو پایا جا سکے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان کی کپاس کی پیداوار جو کچھ سال پہلے 14.5 ملین گانٹھیں تھی، اب کم ہو کر 5 ملین گانٹھیں رہ گئی ہیں جس کے باعث ملک کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ اسی طرح، انہوں نے کہا کہ ہم ہر سال 3.8 ارب ڈالر کا خوردنی تیل بیرون ممالک سے درآمد کر رہے ہیں جس سے ہمارا قیمتی زرمبادلہ دوسرے ممالک کے کسانوں کو جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے کسانوں کو مناسب قیمت فراہم کریں اور سورج مکھی، رائی، سویابین، تل، کنولا اور دیگر آئل سیڈز کی پیداوار کو فروغ دیں تو ہم اپنے خوردنی تیل کی ضروریات ملک میں ہی پوری کر سکتے ہیں۔ کپاس کی مناسب قیمت دینے سے ہم 1.2 ارب ڈالر بچا سکتے ہیں جو کپاس کی درآمد پر خرچ ہو رہے ہیں۔ ان اقدامات سے ہم ہر سال زرعی اجناس کی درآمد پر خرچ ہونے والے 11 ارب ڈالر بچا سکتے ہیں اور چند سالوں میں پاکستان کو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں رہے گی۔

انہوں نے زور دیا کہ آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کا واحد حل زرعی شعبے کو مضبوط اور مستحکم کرنا ہے۔ چونکہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان کے دروازے پر روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں اور دیہی معیشت کو مضبوط کیا جائے تاکہ ان کے روزگار کا بندوبست ہو سکے۔