Live Updates

امریکی کانگریس میں 'پاکستان میں سیاسی جبر' پر سماعت

DW ڈی ڈبلیو منگل 15 جولائی 2025 12:20

امریکی کانگریس میں 'پاکستان میں سیاسی جبر' پر سماعت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 جولائی 2025ء) حقوق سے متعلق امریکی کانگریس کا ادارہ 'ٹام لینٹوس ہیومن رائٹس کمیشن' پاکستان میں اپوزیشن کے ساتھ مبینہ طور پر "جاری سیاسی جبر" کا جائزہ لینے کے لیے ایک سماعت کرے گا۔ کمیشن نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر اس حوالے سے خود ہی ایک بیان پوسٹ کیا ہے۔

اس کی ویب سائٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں کے اس مشترکہ کمیشن کو سن 2008 میں قائم کیا گیا تھا، جس کا مقصد، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور اس کے دیگر متعلقہ اصول و ضوابط کے تحت، بین الاقوامی انسانی حقوق کو فروغ، اس کا دفاع اور وکالت کرنا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے سابق معاون اور تحریک انصاف کے رہنما سید ذوالفقار بخاری نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں اس سماعت کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ کانگریس کے مشکور ہیں کہ اس نے انہیں یہ موقع فراہم کیا۔

(جاری ہے)

'ٹام لینٹوس ہیومن رائٹس کمیشن نے مزید کیا کہا؟

سماعت سے متعلق کمیشن کی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ سیشن منگل کے روز مقامی وقت کے مطابق سہ پہر ساڑھے تین بجے شروع ہو گا اور "حکومت پاکستان کی طرف سے حزب اختلاف کی سیاسی شخصیات اور صحافیوں پر ظلم و ستم، میڈیا کو کنٹرول کرنے اور پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لے گا۔

"

سید ذوالفقار بخاری کے ساتھ ہونے والی اس سماعت کو آن لائن نشر کیا جائے گا اور امریکی کانگریس کا یہ سیشن عوام اور میڈیا کے لیے بھی کھلا ہو گا۔

کمیشن میں اپنی نوٹس میں مزید لکھا، "پاکستان میں جبر کے موجودہ مرحلے کی تاریخ 2022 سے ملتی ہے، جب، پاکستانی فوج کی شمولیت سے، مقبول وزیر اعظم عمران خان کو معزول کیا گیا، اور اس کے فوراً بعد انہیں گرفتار کیا گیا۔

بدعنوانی کے الزام میں انہیں سزا سنائی گئی اور جیل بھیج دیا گیا۔"

کمیشن کا کہنا ہے کہ "امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق فروری 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات، 'اظہار رائے، انجمن اور پرامن اجتماع جیسی آزادیوں پر غیر ضروری پابندیوں' کے ساتھ ہوئے، اور ان کو 'انتخابی تشدد، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے استعمال پر پابندیوں' کے ساتھ نشان زد کیا گیا ہے۔

"

اطلاعات کے مطابق اس سماعت میں حزب اختلاف کی سیاسی شخصیات کے ساتھ سلوک، آزاد صحافت کو دبانے اور میڈیا و مواصلات پر کنٹرول سمیت پاکستانی حکومت کے ان اقدامات پر توجہ مرکوز کی جائے گی، جو مبینہ طور پر سیاسی آزادیوں کو محدود کرتے ہیں۔

کمیشن نے ان گواہوں کی فہرست بھی فراہم کی جو منگل کی سماعت کے دوران اپنی گواہی دیں گے۔

اس فہرست میں ذوالفقار بخاری کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے یورپ اور وسطی ایشیا کے ایڈووکیسی ڈائریکٹر بین لنڈن شامل ہیں۔ اس میں پرسیئس اسٹریٹیجیز کے منیجنگ ڈائریکٹر جیراڈ جینسر اور افغانستان امپیکٹ نیٹ ورک کے بانی صادق امینی بھی حصہ لیں گے۔

کمیشن کے شریک چیئرمین اور ریپبلکن رکن کانگریس کرسٹوفر اسمتھ اس اجلاس کی صدارت کریں گے۔

ان کی طرف سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس اجلاس میں "پاکستانی حکومت کے جاری سیاسی جبر، امریکی ردعمل اور کانگریس کے لیے سفارشات جیسے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔"

سید ذوالفقار بخاری نے کیا کہا؟

سید بخاری نے نو جولائی کو ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی کانگریس کے اس کمیشن کے سامنے پیش ہوں گے اور انہوں نے اس کے لیے کمیشن کے ارکان کا شکریہ بھی ادا کیا۔

انہوں نے لکھا، "میں عمران خان، ان کی اہلیہ اور دیگر سیاسی قیدیوں کی غیر قانونی نظر بندی کے ساتھ ہی جمہوریت کے خاتمے، قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنے اور پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی پر بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن کو اجاگر کروں گا۔"

بخاری کی پوسٹ کا جواب دیتے ہوئے جیراڈ جینسر نے لکھا، "پاکستان میں انسانی حقوق اور عمران خان کی صورتحال نیز موجودہ حکومت کے زیر حراست تمام سیاسی قیدیوں کے بارے میں (ٹام لینٹوس ہیومن رائٹس کمیشن) کے سامنے آپ کے ساتھ گواہی دینے کو اعزاز کی بات سمجھتا ہوں اور مشکور بھی ہوں۔

"

پاکستان میں انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی؟

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اگست 2023 سے ہی 190 ملین ڈالر کرپشن کیس میں اڈیالہ جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں اور انہیں نو مئی 2023 کے احتجاج سے متعلق انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔

مئی میں فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ 'فریڈم آف ایکسپریشن اینڈ میڈیا فریڈم' پر جو رپورٹ رواں برس کے لیے جاری کی گئی، اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا میڈیا ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے جسے ایک وجودی خطرے، بڑھتی ہوئی پابندیوں کے ماحول، بگڑتی ہوئی سلامتی، ملازمت کی حفاظت، میڈیا اور اس کے پریکٹیشنرز کی پیشہ ورانہ سالمیت کے لیے اہم چیلنجوں کے درمیان ہے۔

'آزادی اظہار اور مفاد عامہ کی صحافت قید میں' کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا کہ میڈیا کے لیے وجودی بحران جنوری 2025 میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) میں ترامیم کے ذریعے شروع ہوا تھا، جس نے حکام کے لیے صحافیوں اور مخالفین کو گرفتاری، جرمانہ کرنے اور انہیں قید کرنے کو "آسان بنا دیا ہے۔"

پاکستان میں انسانی حقوق کے سب سے بڑے نگراں ادارے 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی ملک میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ادارت: جاوید اختر

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات