کشمیر پاکستان کی شہ رگ ،یہ محض زور بیان نہیں، ایک حقیقت ہے،اسحق ڈار

ہماری خوشیاں اور غم سانجھے ،اہل پاکستان مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکتے،یوم استحصال کشمیر ہمیں بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کی یاد دلاتا ہے ،نائب وزیراعظم یوم استحصال کشمیر کے موقع پر خطاب

منگل 5 اگست 2025 21:40

�سلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 اگست2025ء)نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحق ڈار نے کہا ہے کہ یوم استحصال کشمیر ہمیں بھارت کے ان یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کی یاد دلاتا ہے جو اس نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے اٹھائے،پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی امداد اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہ ہو جائے،اہل کشمیر کی خواہشات کو طاقت، سازش اور دھوکہ دہی کے ذریعے کچل دیا گیا،ہمیں اہل کشمیر کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا جمہوری حق دلوانا ہے، پاکستانی اور کشمیریوں کے رشتے صدیوں پرانے ہیں، ہم تاریخ، جغرافیہ اور دین اسلام کے نہ ٹوٹنے والے بندھنوں میں بندھے ہیں۔

(جاری ہے)

منگل کو یہاں یوم استحصال کشمیر کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر اسحق ڈار نے کہا کہ یوم استحصال کشمیر ہمیں بھارت کے ان یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کی یاد دلاتا ہے جو اس نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے اٹھائے، ان اقدامات کے ذریعے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی دستوری حیثیت کو ختم کر دیا گیا،اسے براہ راست نئی دہلی کے کنٹرول میں لے لیا گیا،اسے دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے لداخ کو جموں و کشمیر سے جدا کر دیا گیا اور مقامی باشندوں کو حاصل بعض خصوصی حقوق ختم کر دیئے گئے، بھارت نے یہ اقدامات جمہوریت اور ترقی کے فروغ کے نام پر کیے مگر یہ کیسی جمہوریت اور کیسی ترقی تھی جسے متعارف کرانے کے لیے بھارت کو جموں و کشمیر کی تمام تر سیاسی قیادت کو قید یا نظر بند کرنا پڑا یہ کیسی جمہوریت اور ترقی تھی جس کے نام پر مہینوں طویل، اذیت ناک لاک ڈائون پوری وادی کشمیر میں نافذ کرنا پڑا، لوگوں کی آمدورفت پرپہرے بٹھانا اور ان کے بنیادی حقوق غصب کرنا پڑے۔

نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ موجودہ بھارتی قیادت مقبوضہ کشمیر پر اپنے قبضے کو مزید مستحکم کر رہی ہے، بھارتی سپریم کورٹ نے 11 دسمبر 2023ء کو بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019ء کے اقدامات پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ ایسا کرتے ہوئے یہ امر صریحاً نظر انداز کر دیا گیا کہ ایک بین الاقوامی تسلیم شدہ متنازعہ علاقے کا مستقبل، داخلی قانون سازی اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں نہیں متعین کیا جا سکتا، پچھلے 6 برسوں میں بھارت نے مقامی قوانین کی ایک بھاری تعداد میں ترامیم کیں،لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات میں اضافہ کیا۔

اسمبلی کی حلقہ بندیوں سے چھیڑ چھاڑ کی تاکہ وادی کشمیر کے مسلمانوں کی نمائندگی پر اثر انداز ہواجائے۔ غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے اور مقامی ووٹر لسٹوں میں اندراج کا حق دیا،جموں و کشمیر سے باہر کے لوگوں کے لیے جائیداد خریدنے کے دروازے کھولے گئے۔ ان سب اقدامات کا مقصد مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی کسی بھی دوسری ریاست کی طرح ایک ریاست بنانا اورکشمیری لوگوں کو ان کی اپنی ہی زمین پر ایک بے بس طبقے کی حیثیت دینا ہے۔

اسحق ڈار نے کہا کہ کشمیر کی مقامی تہذیب و ثقافت کو بھارتی رنگ میں رنگنا ہے اور سرینگر میں ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جو نئی دہلی کے اشاروں پر چلے اور جس کے پاس نئی دہلی کے احکامات سے اختلاف کا کوئی چارہ نہ ہو، یہ سب پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور مسئلہ کشمیر کو اپنا داخلی مسئلہ قرار دیتا ہے، یہ ایک بے بنیاددعویٰ ہے جو بین الاقوامی قانون، تاریخی حقائق ، اخلاقی اصولوں اور زمینی صورتحال کے صریحاً برعکس ہے۔

یہ بھارت ہی تھا جو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔آج وہ کس طرح سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نافذ کرنے سے انکار کر سکتا ہے اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 25 کے تحت تمام رکن ممالک سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ماننے پر متفق ہیں۔ آج ایک جانب تو بھارت اسی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا خواہشمند ہے مگر دوسری جانب وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نافذ کرنے سے انکاری ہے۔

یہ کیسا تضاد ہی متعدد بھارتی حکومتوں نے پاکستان کے ساتھ مختلف معاہدوں اور دستاویزات میں جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کیا ہے، موجودہ بھارتی حکومت ان حقائق سے کیسے آنکھیں چرا سکتی ہی انہوں نے کہا کہ بھارت کے 5 اگست 2019ء کے اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں، اس کے چارٹر اور انسانی حقوق کے عالمی معاہدوں بالخصوص فورتھ جنیوا کنونشن سے بالکل متصادم ہیں، بین الاقوامی قانون کی رو سے کوئی بھی ایسا قدم جو بھارتی دستور کی روشنی میں اٹھایا جائے جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔

نائب وزیر اعظم نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے، اہل کشمیر خوف اور جبر کے ماحول میں رہ رہے ہیں، ہزاروں سیاسی کارکن اور رہنما جیلوں میں بند ہیں،ان میں سے بے شمار جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں۔ذرائع ابلاغ کو خاموش کروا دیا گیا ہے، بھارتی افواج کو کسی بھی شخص کو قتل کرنے اور کسی بھی شخص کی جائیداد کو تباہ کرنے کے لیے قانونی تحفظ حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے قوانین کا بے جا استعمال کیے جا رہا ہے، 16 چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے، ہزاروں کشمیری عورتیں نیم بیوگی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کو علم نہیں کہ ان کے شوہر زندہ ہیں یا مردہ ہیں، ہزاروں نامعلوم قبروں میں دفن شدہ اشخاص کا علم نہیں،انسانی حقوق کی ایسی پامالی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یوم استحصال کے موقع پر ہمیں ان ہزاروں مردوں ، خواتین اور بچوں کو بھی یاد کرنا چاہیے جنہیں پچھلی تین دہائیوں میں بھارتی جبر کے خلاف ا?واز اٹھانے کے جرم میں شہید کر دیا گیا،ہم ان شہیدوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتے ہیں، آج کشمیر زخم زخم ہے مگر وہ بھارتی دبائو کے سامنے جھکا نہیں، یہ جرات اور بہادری قابل تعریف ہے۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے ناطے پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھابدقسمتی سییہ ممکن نہ ہو سکا۔ اہل کشمیر کی خواہشات کو طاقت، سازش اور دھوکہ دہی کے ذریعے کچل دیا گیا،چنانچہ کشمیر کے زخم پچھلے 77 سال سے رس رہے ہیں۔ ہمیں ان پر مرہم رکھنا ہے، ہمیں اہل کشمیر کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا جمہوری حق دلوانا ہے، بھارت کو اقوام متحدہ، کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔

اسے جموں و کشمیر میں رائے شماری کا انعقاد کروانا ہوگا، وگرنہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے بھارتی دعوے کھوکھلے رہیں گے، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادیں کبھی فرسودہ نہیں ہوتی۔ وہ بھارت پرآج بھی اسی طرح لاگو ہیں جس طرح وہ 77 برس قبل لاگو تھی۔انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، یہ محض زور بیان نہیں، ایک زمینی حقیقت ہے،پاکستانی اور کشمیریوں کے رشتے صدیوں پرانے ہیں، ہم تاریخ، جغرافیہ اور دین اسلام کے نہ ٹوٹنے والے بندھنوں میں بندھے ہیں،ہماری خوشیاں اور غم سانجھے ہیں، لہذا اہل پاکستان مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔

بھارت اور کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان متنازعہ جموں و کشمیر کا ایک بنیادی فریق ہے۔ اس تناظر میں پاکستان اور کشمیریوں کی مرضی کے برخلاف بھارت کوئی یکطرفہ فیصلہ لاگو نہیں کر سکتا۔ اسحق ڈار نے کہا کہ کشمیروہ نکتہ ہے جس پر اپنے اختلافات کے باوجود تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں،معاشرے کے تمام طبقات اور ریاست کے تمام ادارے اپنے کشمیری بہنوں اور بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

میں یہ اعلان واشگاف الفاظ میں کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی امداد اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہ ہو جائے،حکومت پاکستان بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہے گی۔ پاکستان اہل کشمیر کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان پر جارحیت کا ارتکاب کیا،خداکا بے پناہ شکر کہ پاکستان نے اس جارحیت کا منہ توڑجواب دیا،بھارت کے چھ جنگی جہاز تباہ ہوئے اور اس کے فوجی اثاثوں کوشدید نقصان پہنچا۔ آپریشن بنیان مرصوص نے بھارت کی شکست پر مہر تصدیق ثبت کر دی، جنگ بندی ہوجانے کے بعدبھارتی قیادت مسلسل "نیونارمل" کی باتیں کر رہی ہے۔

پچھلے کچھ سالوں سے بھارتی قیادت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بارے میں بھی بے بنیاد دعوے کر رہی ہے۔میں اس بارے میں کچھ امور بالکل واضح کردیناچاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پرامن بقائے باہمی میں یقین رکھتا ہے،پاکستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے،پاکستان تصادم اورجنگ کی جگہ پر مذاکرات اورسفارت کاری کو ترجیح دیتا ہے،پاکستان کا رویہ، تحمل اور احتیاط کا ہے۔

پاکستان تنازعات اور تشدد کو ہوا نہیں دینا چاہتالیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستانی قوم بہادر افواج اور پاکستان کی حکومت کسی بھی جارحانہ اقدام کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ اگر بھارت حقیقی جمہوریت ہونے کا دعوے دار ہے تو اسے جموں و کشمیر کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا جمہوری حق دینا چاہییاسے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں فوری بند کرنا چاہئیں،اسے کشمیریوں کے بنیادی حقوق اور آزادیاں لوٹا دینا چاہئیں،اسے تمام کشمیری سیاسی قیدیوں کو رہا کر دینا چاہیے،اسے مقبوضہ کشمیر میں نافذ ظالمانہ قوانین کو منسوخ کر دینا چاہیے،اسے مقبوضہ کشمیر کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے اپنی فوج کو فوری نکال لینا چاہیے،اسے ان تمام اقدامات کو واپس لے لینا چاہیے جو 5 اگست 2019ء کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں ا?بادی کے تناسب اور وہاں کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں،اسے آزادی اظہار اور اجتماع کی آ زادی پر لگی قدغنیں اٹھا لینی چاہیے،اسے بین الاقو امی ذرائع ا بلاغ اور انسانی حقوق کے معتبرا داروں کو مقبوضہ کشمیر تک رسائی دینی چاہیے تاکہ وہ وہاں جا کر صورتحال کا جائزہ بچشم خود لے سکیں اور سب سے بڑھ کر اسے سکیورٹی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنا چاہیے تاکہ اہل جموں و کشمیر اپنے حق خود ارادیت کو استعمال کر سکیں۔